? *صدائے دل ندائے وقت*?(1028)
*-اردو- زبان کی حفاظت کیجئے!!*
*ہندوستان مشترکہ تہذیب و ثقافت اور مذاہب و مسالک کا مرکز ہے، یہی وجہ ہے کہ برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد یہاں مستقل کسی ایک ہی زبان کو فوقیت نہیں دی گئی، اگرچہ کہ ہندی کو آپسی کمیونیکیشن اور دفتری امور کیلئے ایک زبان تصو کیا گیا؛ لیکن دیگر زبانوں کی اہمیت و منزلت بھی برقرار رکھی گئی، اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں زبانیں قوموں سے زیادہ ہیں اور ان سب کی اپنی اپنی مقبولیت ہے، ان میں اردو زبان تو بہر کیف ہندوستانی زبان کہلانے کے لائق تھی، اسے ملک کی دوسری اکثریت سے خواہ جوڑا جاتا ہے؛ مگر حقیقت یہ ہے کہ اردو بھارت کی قدیم تہذیب و محبت اور آپسی خلوص و رواداری پر گواہ ہے، تو وہیں عربی، سنسکرت وغیرہ بھی قابل ذکر ہیں، ایک زمانے میں فارسی تو ملک کی سرکاری زبان ہوا کرتی تھی، لیکن ان سب کے باوجود فی الوقت ایسا ماحول بنانے کی تیاری ہے کہ تمام متحدہ وراثت کو ترک کر کے صرف دیومالائی دنیا کو ترجیح دی جائے، اکثریت لحاظ کرتے ہوئے ملک کی دیگر قوموں کو کنارے کردیا جائے، چنانچہ جدید تعلیمی پالیسی کا بھی یہی رخ واضح طور پر سامنے آتا ہے؛ کہ صرف ہندوازم اور فاشزم کو ترقی دی دی جائے، خاص طور پر اردو کو بھولی بسری زبان کر کے ملک میں موجود ایک بڑے گروہ کو دیس نکالا کردیا جائے، اور وہ اپنی پہچان سے محروم ہو کر ہندو راشٹر کی چکی میں پس جائیں، بلاشبہ اردو مشترک زبان ہے؛ تاہم مسلمانوں کیلئے اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے، یہ بات یقینی ہے کہ اگر اردو کو کمزور کردیا گیا تو مسلمانوں کا ایک بڑا علمی و فکری ورثہ گم ہوجائے گا، ایسے میں ضرورت ہے کہ ہوش کے ناخن لیں، اس موقع پر استاذ گرامی فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی مدظلہ کی فکر انگیز تحریر قابل مطالعہ ہے، آپ رقمطراز ہیں:*
*"کسی بھی قوم کے لئے اپنی زبان کی بڑی اہمیت ہے، ہندوستان ایک کثیر لسانی ملک ہے؛اس لئے زبان کے مسئلہ پر یہاں جھگڑے بھی شروع سے ہوتے رہے ہیں، اردو زبان کا تعلق اگرچہ مذہب سے نہیں ہے؛ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں پچاسی سے نوے فیصد مسلمانوں کے لئے اردو ہی رابطے کی زبان ہے، دینی مدارس میں یہی ذریعہ تعلیم ہے، مسجدوں میں زیادہ تر بیانات اسی زبان میں کیے جاتے ہیں،یہی زبان جلسوں کی رونق ہے، اردو اخبارات ہی مسلمانوں کے مسائل کی ترجمانی کرتے ہیں،اور سب سے اہم بات یہ کہ اسلامی لٹریچر کے اعتبار سے عربی کے بعد یہ سب سے دولت مند زبان ہے۔ افسوس کہ اردو نے جنگ آزادی میں اہم رول ادا کیا اور اردو شعر و ادب سے دنیا بھر میں ہندوستان کا تعارف ہوا؛ لیکن آزادی کے بعد ہی سے اس زبان کو ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور موجودہ تعلیمی پالیسی نے اس متعصبانہ کوشش کو آخری درجہ پر پہنچا دیا ہے، اگر حکومت کی یہ سازش کامیاب ہوگئی تو ہماری نئی نسل کا رشتہ اپنے ماضی سے اور عوام کا رشتہ علماء سے کٹ کر رہ جائے گا۔*
اس پس منظر میں ہمیں ایک طرف قانونی طور پر اردو کو بچانے کی کوشش کرنی چاہیے اور دوسری طرف اپنے طور پر بھی اپنی زبان کی حفاظت کا سروسامان کرنا چاہیے، اس کی بہترین مثال یہودی ہیں،جنھوں نے ہزاروں سال اقتدارسے محروم رہنے کے باوجود اپنی زبان’’عبرانی‘‘ کو محفوظ رکھا اور جب اسرائیل قائم ہوا تویہ اسرائیل کی سرکاری زبان بن گئی۔ اس سلسلے میں درج ذیل امور پر توجہ دینی چاہئے:
۱- مسلمان اپنی گھریلوزبان کے طور پر اردو ہی کا استعمال کریں؛ تاکہ نئی نسل کم سے کم بولی کی حد تک اردو زبان سے ضرور واقف رہے۔
۲- آپسی خط و کتابت میں اردو کا استعمال کریں۔
۳- اپنی دکانوں اور آفسوں وغیرہ کے سائن بورڈ میں اردو کو شامل کریں۔
۴- اپنے گھروں میں اردو اخبارات و رسائل جاری کریں اور انہیں پڑھنے کی عادت ڈالیں۔
۵- ہر بچہ کو مکتب میں یا گھر میں اردو بولنا اور لکھنا ضرور سکھائیں۔
۶- مسلمان اپنے زیر انتظام تعلیمی اداروں میں – چاہے اس کا میڈیم انگلش ہو – بطور ایک زبان کے اردو پڑھائیں۔
۷- اردو کتابیں خریدیں، اپنے گھروں میں لاکر رکھیں اور اردو کتابیں خرید کر پڑھنے کی عادت ڈالیں۔
۸- اردو زبان میں تقریر، تحریر، بیت بازی،حمد، نعت اور غزل کے مقابلے رکھوائیں اور اس پر انعام دیں۔
*اگر ہم یہ اور اس طرح کی تدبیروں پر عمل کریں تو ہم خود اپنی کوششوں سے اپنی زبان کو زندہ رکھ سکتے ہیں اور اپنی نسلوں کا رشتہ اسلامی لٹریچر کی وسیع دنیا کے ساتھ استوار کر سکتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی شدید ضرورت ہے کہ ہندی اور مقامی زبانوں میں منتخب اسلامی لٹریچر کو تیزی سے منتقل کیا جائے، فارسی زبان کوئی اسلامی زبان نہیں ہے، یہ آتش پرستوں کی زبان تھی؛ لیکن جب مسلمان اس خطہ میں پہنچے تو انہوں نے اِس زبان پر اتنی محنت کی کہ یہ مسلمانوں کی زبان بن گئی، یہاں تک کہ آج مسلمان شعراء اور مصنفین کے بغیر فارسی زبان و ادب کا تصور نہیں کیا جاسکتا، اس پر توجہ کی بہت شدید ضرورت ہے؛ تاکہ ہمارے جو بچے اردو نہیں پڑھ سکتے، وہ دین سے نا واقف نہ رہیں، اور اس لئے بھی کہ ہم تمام قوموں کی مشترک زبان ہی کے ذریعہ برادران وطن تک پہنچ سکتے ہیں اور ان تک اسلام کا پیغام پہنچا سکتے ہیں۔" (شمع فروزاں- ٤/٩/٢٠٢٠)*
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
06/09/2020
No comments yet.