جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ


سلسلہ نمبر ۱۲
جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

عربی کتاب: صور من حیاۃ الصحابہ
مؤلف: علامہ عبدالرحمن رافت الباشا

اردو کتاب: صحابۂ رسول ﷺ کی تڑپا دینے والی زندگیاں
جدید تخریج شدہ

مترجم: مولانا اقبال احمد قاسمی
مرتب: عاجز: محمد زکریّا اچلپوری الحسینی

 

جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

اس وقت وہ ایک کم سن اور قریب البلوغ لڑ کے تھے وہ روزانہ مکہ کے ایک رئیس عقبہ بن معید کی بکریوں کو لے کر انہیں چرانے کے لئے انسانی آبادی سے دور مکے کی پہاڑیوں اور وادیوں کی طرف نکل جایا کرتے تھے۔ ان کا نام عبد الله اور ان کے والد کا نام مسعود تھا لیکن عام طور سے لوگ انہیں ” ابن عبد‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔
کم سن عبداللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں اکثر سنا کرتا تھا جو قریش میں اپنی نبوت کا اعلان کر چکے تھے مگر ایک تو اپنی کم عمری اور دوسرے آبادی سے دور انسانی سوسائٹی سے الگ تھلک ہونے کی وجہ سے اس پر خاطر خواہ توجہ نہیں کر پاتا تھا، اس کا تو روز کا معمول تھا کہ صبح منہ اندھیرے عقبہ ابن معیط کی بکریوں کے ساتھ نکل جاتا اور اس وقت واپس آتا جب رات کی تاریکی پورے طور پر فضاء کو اپنی سیاه چادر میں چھپا لیتی تھی۔
ایک روز عبدالله بن مسعود دور فاصلے پر ادھیڑ عمر کے دو آدمیوں کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا جو تکان سے چور اور تھکاوٹ سے نڈھال ہونے کی وجہ سے بہت آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور شدت پیاس کے مارے ان کے ہونٹ اور حلق سوکھ کر کانٹا ہورہے تھے، وہ دونوں اس کے تقریب پہنچ کر رکے اسے سلام کیا اور بولے:
لڑکے ہمارے لئے ان بکریوں کا دودھ دوھو جس سے ہم اپنی پیاس بجھا سکیں اور اپنی رگوں کو تر کرسکیں،
میں ایسا کرنے سے معذور ہوں، میں ان بکریوں کا دودھ آپ کو پیش نہیں کر سکتا کیونکہ میری نہیں ہیں بلکہ میری امانت میں ہیں۔ میں ان کا مالک نہیں امین ہوں۔“
لڑکے کا جواب سن کر ان دونوں نے کسی قسم کی ناگواری یاناراضگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ ان کے چہروں سے ظاہر ہورہا تھا کہ انہوں نے اس جواب کو پسند کیا ہے۔ پھر ان میں سے ایک آدمی نے کہا:
”اچھا۔ کسی ایسی بکری کی نشان دہی کرو جس نے کبھی بچہ نہ دیا ہو ‘‘لڑکے نے اپنے قریب ہی کھڑی ایک چھوٹی سی بکری کی طرف اشارہ کر دیا، وہ آدمی اس کے قریب گیا، اسے پکڑا اور الله کا نام لے کر اس کے تھن پر ہاتھ پھیرنے لگا، لڑکے نے حیرت کے ساتھ دیکھا اور اپنے دل میں کہا کہ ایسا کیونکر ہوسکتا ہے کہ ایسی بکریاں جو کبھی گابھن نہ ہوئی ہوں دودھ دینے لگیں،! لیکن دیکھتے ہی دیکھتے بکری کا تھن پھول کر بڑا ہوگیا اور اس میں سے تیزی کے ساتھ دودھ بہنے لگا دوسرے آدمی نے زمین پر پڑا ہوا ایک پیالہ نما گہرا سا پتھر اٹھا کر اسے دودھ سے بھر لیا، پھر اس دودھ کو ان دونوں نے پیا اور لڑکے کو بھی پلایا، عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ اپنی آنکھوں کے سامنے آنے والے اس واقعے پر مجھے یقین نہیں آرہا تھا، جب ہم سب لوگ اچھی طرح آسوده ہو گئے تو اس بابرکت شخص نے بکری کے تھن سے کہا: سکٹر جا اور وہ سکڑتے سکڑتے اپنی اصلی حالت پر آ گیا۔ ( ۱ ) اس وقت میں نے اس بابرکت شخص سے کہا: وہ کلمات جو آپ نے ابھی کہے تھے ان میں سے کچھ مجھے بھی سکھا ددیجئے تو اس نےکہا:
انت غلام معلم۔
تم ایک سکھائے پڑھائے لڑ کے ہو‘‘ (۲)
یہ اسلام سے عبد الله بن مسعود کی شناسائی کی کہانی کا آغاز تھا اور وہ مبارک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی جناب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، وہ دونوں حضرات قریش کی شدید ایذا رسانی اور ابتلا آزمائش سے بچنے کے لئے اس روز مکہ کی گھاٹیوں کی طرف نکل آئے تھے، لڑ کے نے جس انداز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اپنی محبت اور تعلق خاطر کا اظہار کیا اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ بہت خوش ہوئے، اس کی احتیاط اور امانت داری کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور اس کے اندر خیر و فلاح کی علامات کو محسوس کرلیا۔

اس واقعہ کے کچھ ہی دنوں بعد عبداللہ بن مسعود نے اسلام قبول کرلیا اور خود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لئے وقف کرتے ہوئے اپنے آپ کو بارگاہ نبوت میں پیش کردیا اور اسی روز سے وسعادت مند اور خوش بخت لڑکا بکریوں کی گلہ بانی سے نکل کر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں منتقل ہو گیا، وہ ہر وقت سفر میں حضر میں گھر کے اندر اور گھر سے باہر سائے کی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہتے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سو جاتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیدار کرتے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرتے تو وہ پردے کا انتظام کرتے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر جانے کا ارادہ کرتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جوتے پہناتے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوتے تو وہ جوتوں کو پائے مبارک
سے نکالتے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عصا اور مسواک کی حفاظت کرتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کمرے میں داخل ہوتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کے قریب و تعلق کا یہ حال تھا کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے انہیں ہر وقت اپنے گھر آنے اور اپنے تمام رازوں سے واقف رہنے کی اجازت دے رکھی تھی اسی وجہ سے و راز دانِ رسول ﷺ‘‘ کہے جاتے تھے۔
جناب عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں آپ کے زیر تربیت پروان چڑھے، انہوں نے اپنی زندگی کو آپ کے اخلاق و عادات کے سانچے میں ڈھال لیا، خود کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات سے متصف کر لیا اور ہر کام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کو اپنا وظیفہ حیات بنا لیا، کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے اخلاق و عادات کے لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے قریب تھے، انہوں نے مدرسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے علوم قرآن کا درس لیا وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے بڑے قاری اس کے معانی کے سب سے بڑے جاننے والے اور شریعت الہی کے سب سے بڑے نکته دان تھے، ایک بار جب جناب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ میدان عرفات میں وقوف فرمائے ہوئے تھے، ایک شخص نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:
امیر المومنین! میں کوفہ سے آیا ہوں، میں نے وہاں ایک شخص کو دیکھا جو قرآن میں دیکھے بغیر زبانی اس کا املا کراتا ہے۔“یہ سن کر انہوں نے خشمگیں لہجے میں پوچھا:
کون ہے وہ شخص؟“. اس اس آنے والے شخص نے ڈرتے ہوئے کہا، عبداللہ بن مسعود
یہ سن کر رفتہ رفتہ ان کے غصے کا اثر زائل ہونے لگا یہاں تک کہ وہ اپنی معمولی اور نارمل حالت پر آ گئے، پھر انہوں نے فرمایا:
اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ ان سے زیادہ کوئی دوسرا شخص بھی اس کا حقدار ہے، اس کے متعلق میں تم سے ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔
ایک رات کا ذکر ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف فرما تھے۔ وہ دونوں حضرات مسلمانوں کے مسائل کے بارے میں بات چیت کر رہے تھے، اس مجلس میں وہ بھی موجود تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نکلے ہم لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے اچانک ہم نے دیکھا کہ کوئی شخص مسجد میں کھڑا نماز پڑھ رہا ہے ہم اسے پہچان نہ سکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کھڑے ہو کر اس کی قرأت سنتے رہے پھر ہماری طرف مڑتے ہوئے بولے:
من سره أن يقرأ القران رطبا كما نزل فليقرأه على قرأة ابن ام عبد
جوشخص قرآن کو اس طرح پڑھنا چاہے جیسا کہ وہ نازل ہوا ہے تو اسے چاہیے کہ ابن ام عبد کی قرأت کے مطابق اسے پڑھے۔“
پھر جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیٹھ کر دعا مانگنے لگے تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کہتے جاتے "سل تعطه، سل تعطه مانگو دیا جائے گا مانگو دیا جائے گا۔
جناب عمررضی اللہ عنہ نے سلسلہ گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: پھر میں نے اپنے دل میں کہا کہ اللہ کی قسم! میں صبح سویرے ان کے پاس جا کر ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کی دعا پر آمین کہنے کی خوشخبری سناؤں گا اور جب سویرے ان کو خوشخبری دینے کے ارادے سے ان کے یہاں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے پہلے ان کو یہ خوشخبری دے چکے ہیں، اللہ کی قسم! میں نے جب بھی کسی خیر میں ابو بکر رضی اللہ عنہ سے مسابقت کی ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ مجھے پیچھے چھوڑ دیا۔
کتابُ اللہ کے علم میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مقام اتنا بلند تھا کہ وہ خود فرماتے ہیں:
قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں قرآن کریم کی جو آیت بھی نازل ہوئی اس کے بارے میں مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ کہاں اور کس کے متعلق نازل ہوئی اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ اس کے متعلق کوئی شخص مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے اور اس کے پاس پہنچنا ممکن ہوتو میں وہاں پہنچ کر اس کے علم سے ضرور استفادہ کروں گا ۔‘‘(۳)
جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے متعلق جو کچھ فرمایا اس میں ذرہ برابر بھی مبالغہ سے کام نہیں لیا گیا۔ جناب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ اپنے ایک سفر کے دوران میں ایک قافلے سے ملتے ہیں رات اندھیری ہے اس نے پورے قافلے کو تاریکی کے پردے میں چھپا رکھا ہے اس قافلے میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی ہیں جناب عمر رضی اللہ عنہ ایک شخص سے کہتے ہیں کہ پوچھو:
آپ لوگ کہاں سے آرہے ہیں؟
جواب) ابن مسعود رضی اللہ عنہ فج عمیق سے
سوال) جناب عمر رضی اللہ عنہ اور کہاں کا ارادہ ہے؟
جواب) ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیت عتیق کا۔
یہ سن کر جناب عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس قافلے میں کوئی صاحب علم ہے اور انہوں نے اپنے آدمی سے کہا کہ پوچھو
قرآن کا کون سا حصہ سب سے عظیم ہے؟
ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا
الله لا اله الا هو الحي القيوم لا تاخذه سنة و لا نوم (البقرة: ۲٥٥)
اللہ وہ زندہ جاوید ہستی ہے جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ نہ سوتا ہے نہ اسے اونگھ لگتی ہے۔“
جناب عمررضی اللہ عنہ نے پھر سوال کیا قرآن کا کون سا حصہ سب سے زیادہ محکم ہے؟
‘ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب دیا
ان الله يأمر بالعدل والاحسان وايتاى ذى القربى (النحل: ٩٠)
جناب عمر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا قرآن کا کون سا ٹکڑا سب سے جامع ہے؟‘‘
ابن مسعود رضی اللہ عنہ جواب دیا
فمن يعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ ومن يعمل مثقال ذرۃ شرایرہ
( الزلزال: ۷-۸)
پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔
جناب عمر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا قرآن کا کون سا حصہ سب سے زیادہ خوفناک ہے؟
ابن مسعود رضی اللہ عنہ جواب دیا
وليس بامانیکم ولا اماني أهل الكتب من يعمل سوءایجزبہ ولا يجد له من دون الله ولیاو لا نصیرا(النساء: ۱۲۳)
انجام کار نہ تمہاری آرزوؤں پر موقوف ہے نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر، جوبھی برائی کرے گا اس کا پھل پائے گا اور اللہ کے مقابلے میں اپنے لئے کوئی حامی و مددگار نہ پا سکے گا۔
جناب عمر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا قرآن کا کون سا حصہ سب سے زیادہ امید افزا ہے؟ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب دیا
قل يعبادى الذين اسرفوا على انفسه‍م لاتقنطوا من رحمة الله ان الله يغفرالذنوب جميعا انه هو الغفور الرحيم 0 (الزمر: ٥٣) ”
(اے نبی!) کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفورالرحیم ہے۔
جناب عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان سے پوچھو کہ کیا تم میں عبد الله بن مسعود ہیں؟‘‘ تو قا فلہ والوں نے جواب دیا کہ ہاں۔“
جناب عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ صرف عالم و قاری اور عابد وزاہد ہی نہیں تھے بلکہ وہ بڑے ہمتی نہایت دور اندیش اور زبردست مجاہد اور میدان جنگ میں پیکر جرات وشجاعت بھی تھے، وہ پہلے مسلمان ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بعد سب سے پہلے مشرکین کے مجمع میں آواز بلند کی قرآن پڑھ کر سنایا۔ ایک روز مسلمان ( جب وہ قليل التعداد اور کمزور تھے) مکہ میں اکٹھا ہوئے اور آپس میں کہنے لگے ” واللہ ! ابھی تک قریش نے بآواز بلندکسی سے قرآن نہیں سنا، کون ہے جو ان کو سنا دے؟‘‘ جناب عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں انہیں قرآن سناؤں گا،“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا:
آپ اس کے لئے مناسب نہیں ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ یہ کام کوئی ایسا شخص انجام دے جس کی پشت پر اس کے قبیلے کی طاقت ہو کہ اگر قریش اس کے ساتھ بری نیت سے پیش آئیں تو اس کا قبیلہ اس کی حمایت کے لئے اٹھ کھڑا ہو ، لیکن جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں یہ کام مجھے ہی کرنے دیجیے، الله تعالی مجھے ان کے شر سے محفوظ رکھے گا اور ان کے مقابلہ میں میری حمایت کرے گا، پھر وہ چاشت کے وقت مسجد حرام میں داخل ہوئے اور مقام ابراہیم کے پاس پہنچ گئے، اس وقت سرداران قریش کعبہ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے، جناب عبداللہ رضی اللہ عنہ نے مقام ابراہیم پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے قرآن کی تلاوت شروع کی
بسم الله الرحمن الرحيم الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ
(۵۵/ الرحمن ۱ – ۵)
اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور بہت ہی زیادہ رحم فرمانے والا ہے، نہایت ہی مہربان، اللہ نے اس قران کی تعلیم دی ہے، اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔“
وہ کتاب الہی کی آیات پڑھتے چلے گئے ۔ آواز سن کر سرداران قریش ان کی طرف متوجہ ہوئے اور بولے:
یا ابن ام عبد کیا پڑھ رہا ہے؟ ارے! اس کا ناس ہو، یہ تو اسی پیغام کا کوئی حصہ پڑھ رہا ہے جس کو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) لائے ہیں ۔ یہ کہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے تیزی سے ان کی طرف لپکے اور ان کے چہرے پر مارنے لگے لیکن انہوں نے تلاوت کا سلسلہ منقطع نہیں کیا، وہ برابر پڑھتے رہے اور وہیں جا کر رکے جہاں تک وہ پہنچنا چاہتے تھے، پھر وہ لوٹ کر اپنے ساتھیوں میں آئے، اس وقت ان کے جسم سے خون بہہ رہا تھا، لوگوں نے ان کو اس حالت میں دیکھ کر کہا: آپ کے متعلق ہم کو اسی بات کا اندیشہ تھا یہ سن کر انہوں نے کہا:
"اللہ کی قسم یہ اللہ کے دشمن آج سے پہلے میری نظر میں اتنے ذلیل وبے وقعت نہ تھے، اگر آپ لوگ چاہیں تو میں کل بھی ان کو اسی طرح قرآن سنا سکتا ہوں، لیکن ساتھیوں نے کہا کہ نہیں بس اتنا کافی ہے آپ نے ان کو وہ چیز سنادی جس کا سننا انہیں گوارا نہیں، ابن مسعود جناب عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت تک زندہ رہے، جب وہ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو جناب عثمان رضی اللہ عنہ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے مزاج پرسی کے بعد انہوں نے دریافت کیا: آپ کو کس چیز کی شکایت ہے؟‘‘
ابن مسعود رضی اللہ عنہ بولے: ”اپنے گناہوں کی ‘‘ پوچھا: کیا خواہش ہے؟ بولے:”اپنے رب کی رحمت کی
پوچھا: کیوں نہ آپ کے وظیفے کی ادائیگی کا حکم جاری کردوں جس کو لینے سے آپ نے پچھلے کئی سالوں سے انکار کر دیا ہے؟ بولے:” مجھے اس کی ضرورت نہیں“
کہنے لگے :”آپ کے بعد آپ کی بچیوں کے کام آئے گا
بولے: کیا آپ کو میری بیٹیوں کے متعلق محتاجی کا اندیشہ ہے؟ میں نے انہیں ہر رات سوره واقعہ پڑھنے کی ہدایت کر دی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:
من قرأ الواقعة كل ليلة لم تصبه فاقة
جوشخص ہر رات کو سورہ واقعہ پڑھ لیا کرے گا وہ فقر و فاقہ سے کبھی دوچار نہ ہوگا۔‘‘
اور جب رات آئی تو جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے رفیق اعلی سے جا ملے اس وقت ان کی زبان مبارک اللہ کے ذکر اور اس کی آیات بینات سے ترتھی۔ انا لله وانا الیہ راجعون ۔ اللہ تعالی ان سے راضی ہو.
آمین یارب العالمین
✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿
۱ ) شرح السنه الاستيعاب كتاب الوفاء بحوالہ مشکوۃ المصابیح المحقق الالباني رحمتہ اللہ علیہ كتاب الفضائل حدیث ۵۹۴۳ مسنداحمد بحوالہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم مؤلفہ امام ابن کثیر (٣: ٤٠٤ ،٤٠٥)

۲ ) مسند احمد بحوالہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم امام ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ (٣: ٤٠٤، ٤٠٥)

۳) صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن حدیث ۵۰۰۲

 

نوٹ:  کسی بھی قسم کی غلطی نظر آئے تو ہمیں ضرور اطلاع کریں۔ 

ناشر: eSabaq.com

eSabaq.in@gmail.com
zakariyyaachalpuri9008@gmail.com

تبصرہ کریں

تبصرہ

No comments yet.