جناب عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ


جناب عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ سلسلہ نمبر ۱۸

عربی کتاب: صور من حیاۃ الصحابہ
مؤلف: علامہ عبدالرحمن رافت الباشا

اردو کتاب: صحابۂ رسول ﷺ کی تڑپا دینے والی زندگیاں
جدید تخریج شدہ

مترجم: مولانا اقبال احمد قاسمی
مرتب: عاجز: محمد زکریّا اچلپوری الحسینی

جناب عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ
سلسلہ نمبر ۱۸

کون ہے جس سے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سات آسمانوں کی بلندی سے سخت ترین آیات نازل کی گئی؟ وہ کون ہے جس کی شان میں اللہ تعالی کے یہاں سے وحی لے کر جبرائیل آئے تھے؟ وہ مؤذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جناب عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اللہ تعالی ان سے راضی ہو آمین
ابن مکتوم مکہ کے باشندے اور خاندان قریش کے چشم و چراغ تھے رحمی رشتے کے ذریعہ سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جڑے ہوئے تھے وہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا بنت خویلد کے ماموں زاد بھائی تھے ان کے والد کا نام قیس بن زائد اور والدہ کا اسم گرامی عاتکہ بنت عبداللہ تھا جو عموما اپنی کنیت ام مکتوم کے ساتھ مشہور تھیں کیونکہ جناب عبد اللہ رضی اللہ عنہ پیدائشی نابینا تھے
سر زمین عرب جس وقت اسلام کی ضیا پاشیوں سے منور ہوئی جناب حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ موجود تھے اللہ تعالی نے ان کے سینے کو ایمان کے لئے کھول دیا وہ اہل اسلام کے اس گروہ میں شامل ہوگئے جس نے اولین مرحلے میں داعی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار پر لبیک کہا اور انہوں نے ان مصائب وآلام کا نہایت پامردی اور ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کیا جن سے مسلمان دوچار ہوئے انہوں نے اس راہ میں کسی قسم کی قربانی اور فداکاری وجانثاری سے دریغ نہیں کیا انہوں نے اپنے رفقاء کے ساتھ قریش کی اذیتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کی ذیادتیوں کو صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کیا اس راہ میں نہ تو ان کے پائے استقلال میں ذرا برابر لغزش پیدا ہوئی نہ ان کا حوصلہ پست ہوا نہ ان کی قوت ایمانی میں کسی رخ سے کمزوری کے آثار ظاہر ہوئے بلکہ ان مصائب نے ان کے اندر اللہ کے دین سے ربط محکم اس کتاب سے تعلق، اس کی شریعت سے اکتساب فیض اور بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے شوق حاضری کو مزید جلا بخشی
ان کے اندر بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری اور حفظ قرآن کا شوق اس حد تک بڑھا ہوا تھا کہ وہ ہر فرصت کو غنیمت سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھاتے اور ہر موقع کو قیمتی جان کر اس کی طرف تیزی سے لپکتے تھے بلکہ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا تھا کہ اس شوق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسروں کے حصے کا وقت بھی لے لیتے تھے اس زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے بڑے بڑے سرداروں کی طرف بڑی شدّت کے ساتھ متوجہ تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں یہ نیک تمنا ہر وقت سر اٹھاتی رہتی تھی کہ قریش کے سردار بڑے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو جائیں، انہی دنوں کی بات ہے ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم عتبہ ابن ربیعہ اس کے بھائی شیبہ ابن ربیعہ عمر وبن ہشام (ابو جہل) امیہ ابن خلف اور خالد سیف اللہ کے والد ولید بن مغیرہ (۱) سے ملے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ تنہائی میں گفتگو کرکے ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی خواہش تھی کہ وہ لوگ اسلام قبول کرلیں یا کم از کم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اہل ایماں کی اذیت رسانی سے باز آ جائیں۔
ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو کر ہی رہے تھے کہ جناب عبداللہ ابن مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتاب اللہ کی کوئی آیت پڑھنے کے لئے کہتے ہوئے داخل ہوئے
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اس میں سے کچھ سکھا دیجئے جو اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیکھایا ہے
لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی بلکہ اس کے برعکس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ناگواری کے آثار ظاہر ہوئے اور اس امید میں کہ یہ اسلام قبول کرلیں گے اور ان کا اسلام اللہ کے دین کی قوت اور اس کے رسول کی دعوت کی تائید کا ذریعہ بنے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہ دستور ان قریشیوں کی طرف متوجہ رہے۔
رسول اللہ صلی علیہ وسلم ان کی ملاقات سے فارغ ہو کر ابھی گھر جانے کا ارادہ ہی کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر نزول وحی کی کیفیت طاری ہوگئی اور اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی
عَبَسَ وَتَوَلَّى
پیغمبرﷺ نے ترش رُو ہوکر منھ پھیرلیا،
أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى
اس بات سے کہ ان کے پاس ایک نابینا شخص آگیا،
وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى
اور ( اے پیغمبر !) آپ کو کیا خبر کہ شاید وہ سنور جاتا،
أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرَى
یانصیحت کی باتیں سنتا اور نصیحت اس کو فائدہ پہنچاتی،
أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَى
جو شخص بے پروائی برتتا ہے،
فَأَنْتَ لَهُ تَصَدَّى
اس کی طرف تو آپ متوجہ ہوتے ہیں؛
وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّى
حالاں کہ اگر وہ (کفر و شرک کی گندگی سے)پاک صاف نہ ہو تو آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے،
وَأَمَّا مَنْ جَاءَكَ يَسْعَى
اور جو شخص آپ کے پاس دوڑتا ہوا آیا،
وَهُوَ يَخْشَى
اور وہ (خدا کا) خوف بھی رکھتا ہے ،
فَأَنْتَ عَنْهُ تَلَهَّى
تو آپ اس سے بے توجہی برتتے ہیں ،
كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ
ہرگز ایسا نہ کریں ، یہ (قرآن ) تو نصیحت کی چیز ہے ،
فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ
تو جس کا جی چاہے ، اس کو قبول کرے ۔

(عبس: ۱ تا ۱۲)

یہ وہ آیات ہیں جنہیں جبرائیل علیہ السلام نے جناب عبداللہ ابن مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر نازل کیا یہ آیات اپنے نزول سے اب تک تلاوت کی جارہی ہیں اور قیامت تک برابر پڑھی جاتی رہیں گی

اس روز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ کا بہت لحاظ کرنے لگے وہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں قیام کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بڑی خاطر تواضع کرتے وہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنے قریب بٹھاتے ہمیشہ ان کی خیریت دریافت کرتے اود ان کی ضروریات پوری کرتے رہتے تھے اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں یہ عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ ہی تو تھے جن کے بارے میں سات آسمانوں کی بلندی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اظہار خفگی کیا تھا (صحیح یہ ہے کہ امیہ ابن خلف نے تیوری چڑھائی اور ترش روئی اختیار کی تھی اس متکبرانہ انداز سے کہ یہ نابینا اور غریب مسلم یہاں کیوں آگیا ہے۔جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلام نے عبد اللہ ابن مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف صرف توجہ مبذول نہیں فرمائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تیوری چڑھا نے کے حوالے سے اس آیت کے تراجم درست نہیں کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اخلاق سے فروتر بات ہے)

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان پر قریش کا غیظ وغضب حد سے بڑھ گیا اور ان کے ظلم و ستم کی کوئی انتہا نہ رہی تو اللہ تعالی نے مسلمانوں کو ہجرت کی اجازت دے دی اجازت ملتے ہی جناب عبداللہ ابن مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دین کی حفاظت کے لیے ترک وطن کرنے میں بڑی پھرتی سے کام لیا چنانچہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے وہ اور جناب مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ سب سے پہلے مدینہ پہنچے تھے
جناب عبداللہ ابن مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ نے یثرب پہنچتے ہی اپنے رفیق جناب مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ مل کر لوگوں سے ملاقات کرنے انہیں پڑھانے اور دین کی دعوت دینے کا سلسلہ شروع کر یا اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ اور بلال بن رباح رضی اللہ تعالی عنہ کو موذن مقرر کیا تاکہ وہ دن میں پانچ مرتبہ کلمہ توحید کا اعلان کریں انہیں بہترین عمل (نماز) کے لئے بلائیں اور خیر و فلاح پر ابھاریں۔ عموما جناب بلال رضی اللہ تعالی عنہ اذان دیتے اور جناب ابن مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ نماز کے لئے اقامت کہتے تھے کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ اذان جناب ابن مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ دیتے اور اقامت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کہتے تھے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں تو ان دونوں کی شان ہی نرالی ہوتی تھی۔ مدینے کے مسلمان ایک کی اذان پر سحری کھاتے اور دوسرے کی اذان پر اس سے رک جاتے تھے۔ جناب بلال رضی اللہ تعالی عنہ رات کے پچھلے پہر اذان دے کر سوتے ہوئے لوگوں کو نیند سے بیدار کرتے اور جناب ابن مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ طلوع فجر کا انتظام کرتے رہتے اور طلوع صبح صادق کے ساتھ ہی نماز کے لئیے اذان دے دیتے (۲) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ابن مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ کی عزت افزائی اور قدردانی کا یہ حال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عدم موجودگی کے مختلف مواقع پر دسیوں بار ان کو مدینہ پر اپنا نائب مقرر کیا ان میں سے ایک موقع وہ بھی تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے لئے مدینہ چھوڑا تھا۔
غزوہ بدر کے بعد اللہ تعالی نے مجاہدین کی شان کو بڑھاتے ،جہادی سے جی چرانے والوں پر ان کی فضیلت جتاتے ،مجاہدین کو جہاد پر اکساتے اور جہاد میں شرکت نہ کرنے والوں کے روئیے پر اظہار نا گواری کرتے ہوئے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کی چند آیات نازل کیں تو جناب ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ کے دل پر اس کا بہت گہرا اثر پڑا اور اس شرف سے محرومی ان کو بہت شاق گزری اور انہوں نے رسول اللہ صلی علیہ وسلم سے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر میرے پاس استطاعت ہوتی تو میں جہاد میں ضرور شریک ہوتا پھر انہوں نے نہایت رقتِ قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ ان کے اور ان جیسے دوسرے معزور لوگوں کے بارے میں قرآن نازل فرمائے جو اپنی جسمانی معذوریوں کے سبب سے شرکت جہاد سے محروم رہ جاتے ہیں وہ بڑے خشوع و تضرع کے ساتھ دعا مانگتے
اللہم انزل عذری۔۔۔۔۔۔۔اللہم انزل عذری اے اللہ میرے عزر کے متعلق قرآن نازل فرما دے ۔۔۔۔۔اے اللہ !۔۔۔
اور اللہ تعالی نے جلد ہی ان کی اس دعا کو شرف قبولیت سے نواز دیا
کاتب وحی جناب زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہےکہ:
ایک روز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں بیٹھا تھا کہ یکایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سکینت و وقار کی کیفیت طاری ہوگئی اور اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاز نواے مبارک میرے زانو سے ٹکرا گیا جس سے میرے زانو پر زبردست بوجھ پڑنے لگا ایسا بوجھ کہ اس سے زیادہ وزن میں نے اب تک کسی چیز میں محسوس نہیں کیا تھا
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سے یہ کیفیت دور ہوئی تو مجھ سے فرمایا زید لکھو! اور میں نے لکھا
،، لا یستوی القاعدون من المؤمنین والمجاھدون فی سبیل اللہ،،(النساء:۹۵)
مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو گھر میں بیٹھے رہتے ہیں اور جو اللہ کی راہ میں جان مال سے جہاد کرتے ہیں دونوں کی حیثیت یکساں نہیں
تو ابن مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ نے کھڑے ہوکر عرض کیا کہ،، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جولوگ جہاد میں شریک ہونے کے بعد سے محروم ہیں ان کا کیا ہوگا؟ ان کی اس بات کے ختم ہوتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرپھر وہی کیفیت طاری ہوئی اس بار بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زانوائے مبارک میرے زانو پر پڑا اور میں نے وہی وزن محسوس کیا جو پہلی بار کیا تھا پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سے نزول وحی کی کیفیت دور ہوئی تو فرمایا
زید جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھو۔ تو میں نے پڑھا
،، لا یستوی القاعدون من المؤمنین،،
آپ صلی علیہ وسلم نے فرمایا کہ لکھو
،،غیر اولی الضرر،،
کسی معذوری کے بغیر(۳)
اس طرح وہ استثناء نازل ہوا جس کی تمنا جناب ابن مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ اور ان جیسے دوسرے لوگوں کو شرکت جہاد کی پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا تھا اس کا نفس بلند بیں معذوروں کے ساتھ بیٹھ رہنے پر رضامند نہ ہوا انہوں نے جہاد فی سبیل اللہ میں شریک ہونے کا عزم بالجزم کر لیا کیونکہ نفوس عالیہ مہمات امور کو چھوڑ کر چھوٹے چھوٹے کاموں پر قانع نہیں ہوا کرتے چنانچہ اسی روز انہوں نے طے کر لیا کہ وہ کسی غزوہ سے پیچھے نہیں رہیں گے انہوں نے میدان جنگ میں اپنے لیے ڈیوٹی بھی متعین کرلیں تھی۔ وہ کہتے تھے کہ مجھے دو صفوں کے درمیان کھڑا کرکے علم میرے ہاتھ میں دے دو میں اسے بلند رکھوں گا اور اس کی حفاظت کروں گا کیونکہ نا بینا ہونے کی وجہ سے بھاگ نہیں سکتا
جناب عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے ۱۴ ہجری میں ایرانیوں کے ساتھ ایک ایسی فیصلہ کن جنگ کا مزم مصمم کیا جو ان کی حکومت کو زیر و زبر کر دے ان کی سلطنت کا خاتمہ کرکےعسا کر اسلام کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ صاف کردے اس لئے انہوں نے اپنے صوبائی گورنروں کو ہدایت بھیجی
ہر اس شخص کو جلد ازجلد میرے پاس بھیج دو جس کے پاس اسلحہ یا گھوڑا یا قوت یا شجاعت یا جنگی سوجھ بوجھ ہو۔
اور مسلمانوں نے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی اس پکار پر لبیک کہا اوروہ جوق در جوق مرکز خلافت مدینہ کی جانب امڈ پڑے ان لبیک کہنے والوں میں نا بینا مجاہد جناب عبد اللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے جناب عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس لشکر کی قیادت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کے سپرد کی اور انہیں ہدایات و نصائح کے ساتھ رخصت کیا جب یہ لشکر قادسیہ کے مقام پر پہنچ کر خیمہ زن ہوا اور جنگ کا دن آیا تو جناب ابن مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ زرہ پہن کر پورے طور پر تیار ہو کر نکلے اور خود کو مسلمانوں کی علمبرداری اور اس کی حفاظت کرتے ہوئے جان دینے کے لئے پیش کیا دونوں فوجوں میں تین دن سخت خون ریز معرکہ آرائی ہوتی رہی دونوں فریق ایک دوسرے سے اس طرح ٹکرائے کہ جنگوں کی تاریخ سے اس کی مثال بمشکل پیش کی جا سکتی ہےآخرکار تیسرے روز مسلمانوں کی زبردست فتح کے ساتھ اس جنگ کا خاتمہ ہوا اور دنیا کی عظیم ترین سلطنت کا نام و نشان صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ گیا اور کفر و بت پرستی کی سرزمین پر توحید کا جھنڈا لہرانے لگا اس وقت فتح مبین کی قیمت ہزاروں شہداء نے اپنے خون سے ادا کی تھی ان شہیدوں میں جناب عبداللہ بن مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے وہ جنگ میں اس حال میں پڑے ہوئے پائے گئےکہ اپنے خون میں لت پت علم اسلام کو اپنے کندھے سے چمٹائے ہوئے تھے۔
____________________________
(۱) جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف امیہ بن خلف آیا تھا ۔ملاحظہ ہو تفسیر احسن التفاسیر ۷: ۲٦٤
خود آیت یہی واضح کررہی ہے۔

(۲)صحیح بخاری،کتاب الاذان ٦۲۳_٦۲۲
صحیح مسلم کتاب الصیام

(۳) صحیح بخاری کتاب تفسیر حدیث ٤۵۹۲

 

نوٹ:  کسی بھی قسم کی غلطی نظر آئے تو ہمیں ضرور اطلاع کریں۔ 

eSabaq.in@gmail.com
zakariyyaachalpuri9008@gmail.com

تبصرہ کریں

تبصرہ

No comments yet.