جناب عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ


سلسلہ نمبر ۱۴
عربی کتاب: صور من حیاۃ الصحابہ
مؤلف: علامہ عبدالرحمن رافت الباشا

اردو کتاب: صحابۂ رسول ﷺ کی تڑپا دینے والی زندگیاں
جدید تخریج شدہ

مترجم: مولانا اقبال احمد قاسمی
مرتب: عاجز: محمد زکریّا اچلپوری الحسینی

 

سلسلہ نمبر ۱۴
جناب عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ

اس وقت وہ اپنی عمر کی تیسری دہائی میں تھے جب نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے حق و ہدایت کی دعوت کا برملا اظہار کیا تھا وہ حسب و نسب کے اعتبار سے قریش کے معزز ترین خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور دولت وثروت کے لحاظ سے ان میں سب سے فائق تھے، اگر ان کا باپ آڑے نہ آتا تو وہ اس لائق تھے کہ اپنے ہم عمر سعد بن ابی وقاص اور مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی طرح بہت پہلے مشرف بہ اسلام ہو چکے ہوتے۔
قارئین کرام کو معلوم ہے کہ ان کا باپ کون تھا؟ وہ مکہ کا سب سے سرکش اور جابرشخص شرک و کفر کا قافلہ سالار اور مسلمانوں کی ابتلا و آزمائش کا سب سے بڑا ذمہ دار تھا، جس کی مکاری اور چالبازی کے ذریعہ سے اللہ تعالی نے اہل ایمان و یقین کو پرکھا اور وہ اس معیار پر کھرے اترے، اس کے متعلق بس اتنا جان لینا کافی ہے کہ وہ ابوجہل“ (جاہلوں کا باپ) تھا۔
یہ تو ان کا باپ تھا اور وہ خود عکرمہ ابن ابی جہل مخزومی ہیں ، عکرمہ کا شمار قریش کے چند بڑے سرداروں و رائیسوں اور اس کے نامور شہسواروں میں ہوتا تھا۔ عکرمہ ابن ابی جہل نے خود کو اس حال میں پایا کہ وہ اپنے باپ کی مرضی کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے پر مجبور ہے۔ چنانچہ اس نے ان کے ساتھ سخت عداوت کا رویہ اختیار کیا۔ انکے ساتھیوں کو دردناک سزائیں اور اہل اسلام پر ایسی لرزہ خیز تکلیفیں نازل کیں کہ اس کے باپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں۔
جب اس کے باپ نے معرکہ بدر میں لشکر شرک کی قیادت کی اور لات و عزی کی قسمیں کھا کھا کر اعلان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو شکست دیئے بغیر وہ مکہ واپس نہیں جائے گا، اس نے بدر کے مقام پر پڑاؤ ڈال کر وہاں تین دن قیام کیا، اس دوران میں وہ اونٹ ذبح کر کے ان کا گوشت کھاتا اور شراب پیتا رہا، اس کی دل بستگی کے لئے دف بجا بجا کر لونڈیاں اسے گانے سناتی رہیں، جس وقت ابوجہل اس معرکے کی قیادت کر رہا تھا اس کا بیٹا اس کا قابل اعتماد دست و بازو تھا لیکن لات و عزی نے نہ اس کی پکارسنی نہ اس کی مدد کو آئے کیونکہ وہ بت سننے سے معزور اور مدد کرنے سے عاجز تھے، تو وہ ذلت کی موت مارا گیا اور اس کے بیٹے نے دیکھا کہ مسلمانوں کے پیاسے نیزے اس کے خون سے اپنی پیاس بجھا ر ہے ہیں، اس نے اپنے کانوں سے اس کے حلق سے نکلنے والی آخری چیخ سنی تھی.
عکرمہ بدر کے میدان میں قریش کے اس عظیم سردار کی لاش چھوڑ کر مکہ لوٹ آیا، مسلمانوں کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کھانے کے بعد اس کے لئے ممکن ہی نہ رہا کہ وہ اپنے باپ کی لاش اٹھا کر لاتا اور اسے مکہ میں دفن کرتا، راہ فرار اختیار کرتے ہوئے وہ مجبوراً اسے مسلمانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ آیا اور مسلمانوں نے دوسرے مقتولین کے ساتھ اسے بھی بدر کے کنوئیں میں پھینک کر اس پر ریت ڈال دیا اور اسی روز سے اسلام کے ساتھ عکرمہ کے رویئے نے دوسری صورت اختیار کرلی، پہلے تو وہ اپنے باپ کی حمایت میں اسلام کا مخالف تھا مگر آج سے اس
کے انتقام کے لئے اس سے برسر پیکار ہوگیا اور یہیں سے عکرمہ اور اس کے دوسرے ہم خیال مشرکین قریش جن کے آباء جنگِ بدر میں مارے گئے تھے اور وہ ان کے انتقام کی آگ میں جل رہے تھے اہل مکہ کے سینوں میں محمد نام کے خلاف عداوت کی آگ اور انتقام کے شعلے بھڑکانے میں لگ گئے جس کے نتیجے میں احد کا خون ریز معرکہ پیش آیا،
جنگِ بدر میں اپنی شکست کا بدلہ اور اپنے مقتولین کا انتقام لینے کے لئے قریش کا جولشکرِ جرار مکہ سے روانہ ہوا، عکرمہ اس میں شریک ہو گیا، اس نے اپنی بیوی ام حکیم کو بھی ساتھ لیا تا کہ وہ ان عورتوں کے ساتھ شامل ہوکر صفوں کے پیچھے کھڑی ہوجائے اور جب جانباز ان قریش میں شکست کے آثار نظر آئیں تو وہ دف بجا بجا کر انہیں قتال پر ابھار کریں اور ان کو میدانِ جنگ میں ثابت قدم رکھنے کی کوشش کریں۔
قریش نے اپنی فوج کے گھوڑ سوار دستے کی قیادت کے لئے اس کے میمنہ (جگہ کا نام) پر خالد بن ولید اور میسرہ برعکرمہ بن ابی جہل کومتعین کیا، اس روز ان دونوں سالاروں نے جرأت و شجاعت اور مردانگی و جوانمردی کے ایسے جوہر دکھائے کہ قریش کا پلہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب پر بھاری ہوگیا اور اس کے نتیجے میں وہ فتح و کامرانی سے ہمکنار ہوئے جس پر ابوسفیان کی فرط مسرت سے چیخ نکل گئی کہ یہ جنگ بدر کابدلہ ہے۔ (۱)
غزوہ خندق کے موقع پر مشرکین نے مدینہ کا محاصرہ کر رکھا تھا، جب محاصرے نے کافی طول کھینچا تو عکرمہ کی قوت برداشت جواب دے گئی، وہ محاصرے کی طوالت سے بددل ہوگیا۔ آخر اس نے خندق کے ایک تنگ حصے کو تا کا اور اپنا گھوڑا کدا کر اس پار جا پہنچا، کچھ جری سواروں
نے اس کی اقتداء کی اور وہ بھی اس کے پیچھے خندق عبور کر کے دوسری جانب پہنچ گئے، ان میں سے عمرو بن عبدود عامری مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا لیکن عکرمہ نے راہ فرار اختیار کی اور وہ اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگیا۔
اور فتح مکہ کے موقع پر جب قریش نے دیکھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کے راستے ان کو مخالفت نہیں ہے تو انہوں نے طے کیا کہ ان کے راستے سے ہٹ جائیں، یہ فیصلہ انہوں نے اس لئے کیا کہ ان کو یہ بات معلوم ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی فوج کے سالاروں کو یہ حکم دے رکھا ہے کہ وہ مکہ کے عام باشندوں سے کسی قسم کا تعرض نہ کریں، وہ صرف انہی لوگوں سے جنگ کریں جو ان سے لڑیں، لیکن عکرمہ اور اس کے کچھ ہم خیال ساتھی قریش کے اس فیصلے کے برخلاف جنگ کا ارادہ لئے مکہ سے نکل پڑے اور مسلمانوں کے لشکر جرار کے سامنے جاڈٹے، لیکن جناب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ایک معمولی جھڑپ کے بعد انہیں شکست دے کر بھاگنے پر مجبور کر دیا، اس جھڑپ میں ان کے چند آدمی مارے گئے اور باقی میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ اور بھاگنے والوں میں عکرمہ ابن ابی جہل بھی تھا۔ اس وقت وہ سخت حیرانی و وحشت سے دو چار تھا، اہل مکہ کے مسلمانوں کے سامنے شرم سار ہو جانے کے بعد اس کے لئے وہاں کوئی جائے پناہ نہیں رہ گئی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے ان تمام جرائم کو معاف کر دیا تھا جو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں کئے تھے، البتہ اس عام معافی سے چند مجرموں کومستثنی قرار دیا گیا اور نام لے لے کر حکم دیا گیا کہ انہیں قتل کردیا جائے خواہ وہ غلاف کعبہ میں چھپے ہوئے ہی کیوں نہ ملیں، ان لوگوں میں عکرمہ ابن ابی جہل کا نام سرفہرست تھا، اس لئے اپنی جان کے خوف سے وہ چھپ کر مکہ سے نکلا اور یمن کی طرف چل پڑا کیونکہ اس کے علاوہ اسے کسی دوسری جگہ پناہ ملنے کی امید نہ تھی عکرمہ کی بیوی ام حکیم اور ہند بنت عتبہ اور دوسری عورتوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے کے ارادے سے آپ کی قیام گاہ پر پہنچیں، اس وقت دو ازواج مطہرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ زہراء اور خاندان عبد المطلب کی چند خواتین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھیں، اس موقع پر ہند نے اپنا چہرہ نقاب میں چھپا رکھا تھا، اس نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا:
"اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اپنے پسندیدہ دین کو غالب کر دیا، میں آپ کے ساتھ اپنی نسبی اور خاندانی قرابت کا واسطہ دے کر آپ سے خیر اور حسن سلوک کی خواستگار ہوں، میں آپ کی تصدیق کرنے والی ایک مسلمان عورت ہوں، پھر اس نے اپنے چہرے سے نقاب سرکاتے ہوئے کہا: اللہ کے رسول! میں عتبہ کی بیٹی ہند ہوں ۔‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:
میں تمہیں مرحبا کہتا ہوں اور تمہارا خیر مقدم کرتا ہوں،“ اس نے پھر کہا:
اللہ کی قسم !اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آج سے پہلے روئے زمین پر کوئی ایسا گھر نہ تھا جس کی ذلت و رسوائی مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی ذلت و رسوائی سے زیادہ پسند ہو مگر اب یہ حال ہے کہ دنیا کا کوئی گھر میرے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ معزز نہیں ہے (۲)
اس کے بعد عکرمہ کی بیوی ام حکیم کھڑی ہوئی، اس نے پہلے تو اپنے اسلام کا اظہار کیا، پھر یوں گویا ہوئی
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! عکرمہ اس خوف سے بھاگ گئے ہیں کہ آپ انہیں قتل کر دیں گے، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ انہیں امان بخش دیں اللہ آپ کو امان دے گا
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی درخواست سن کر ارشادفرمایا: عکرمہ بن ابی جہل کو امان دی جاتی ہے۔
شوہر کی جاں بخشی کا اعلان سن کر ام حکیم رضی اللہ عنہ اسی وقت اپنے رومی غلام کو ساتھ لے کر ان کی تلاش میں نکل پڑیں، جب وہ چلتے چلتے دور نکل گئے تو دوران سفر میں غلام کی نیت خراب ہوئی اور اس نے ان کے اوپر ڈورے ڈالنا شروع کر دیئے، وہ اسے امید دلاتی اور ٹالتی ہوئی عرب کے ایک قبیلہ میں پہنچ گئیں، وہاں پہنچ کر اہل قبیلہ سے مددکی طالب ہوئیں، اہل قبیلہ نے غلام کو اپنے پاس قید کر دیا اور ام حکیم رضی اللہ عنہ نے تن تنہا اپنا سفر جاری رکھا اور آخر کار تهامہ کے علاقے میں سمندر کے کنارے عکرمہ کو پا گئیں، اس وقت وہ ایک مسلمان مَلاح سے گفتگو کر رہا تھا کہ وہ اسے اس پار پہنچا دے، مگر مَلاح اس بات پر مصر تھا کہ پہلےتم اخلاص کا اظہار کرو تب میں تم کو اس پار لے جاوں گا ، عکرمہ نے پوچھا کہ میں اخلاص کا اظہار کس طرح کروں؟ تو اس نے کہا کہ کہو: |
اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمد رسول الله۔
عکرمہ نے جواب دیا کہ اسی سے بھاگ کر تو میں یہاں آیا ہو “ ابھی ان دونوں کی گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ ام حکیم رضی اللہ عنہا نے عکرمہ کے پاس پہنچ گئیں اور اس سے بولیں:
میرے ابن عم ! میں تمہارے پاس سب سے افضل سب سے نیک اور سب سے اچھے انسان کی طرف سے آئی ہوں، میں تمہارے پاس محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف
سے آئی ہوں، میں نے اُن سے تمہاری جان بخشی کا وعدہ لے لیا ہے، تم اپنی جان کو ہلاکت میں نہ ڈالو،“ عکرمہ نے پوچھا کہ کیا تم نے خود ان سے بات کی ہے؟
اس نے جواب دیا:”ہاں! میں نے خود بات کی ہے اور انہوں نے تم کو امان دی ہے، وہ برابر اسے اس کی جان بخشی کا یقین دلاتی رہیں یہاں تک کہ وہ مطمئن اور ان کے ساتھ واپسی پر رضا مند ہوگیا، دوران راہ میں اس نے غلام کی اس خباثتِ نفس کا ذکر کیا جو اس نے سفر کے دوران میں کی تھی، عکرمہ نے مسلمان ہونے سے پہلے وہاں پہنچ کر اسے قتل کر دیا۔
دورانِ سفر میں جب وہ دونوں ایک منزل پر رکے تو عکرمہ نے بیوی سے ہمبستری کی خواہش ظاہر کی لیکن انہوں نے سختی سے انکار کرتے ہوئے کہا: میں ایک مسلمان عورت ہوں اور تم ابھی مشرک ہو۔
عکرمہ نے اس بات پر تعجب کا اظہارکرتے ہوئے کہا: وہ بات جو تمہیں میرے ساتھ خلوت سے روک دے یقیا کوئی نہایت ہی بڑی بات ہوگی
جب عکرمہ مکہ کے قریب پہنچا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا:
سيأتيكم عكرمة بن ابی جهل مومنا مهاجرا فلا تسبوا أباه فان سب الميت يوذي الحي ولا يبلغ المیت۔
عکرمہ ابن ابی جہل بہت جلد ایک مومن ومہاجر کی حیثیت سے تمہارے پاس پہنچنے والا ہے، اس کے باپ کو برا مت کہنا مردے کو برا کہنے سے زندہ کو اذیت پہنچتی ہے اور میت کو اس کی خبر بھی نہیں ہوتی۔
اس کے تھوڑی ہی دیر بعد عکرمہ اپنی بیوی ام حکیم رضی اللہ عنہ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پہنچ گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھتے ہی فرط مسرت سے اچھل پڑے اور چادر کے بغیر ہی اس کے استقبال کے لئے لپکے، پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ پرآ کر بیٹھ گئے تو عکرمہ نے کھڑے کھڑے عرض کیا:
محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ام حکیم نے مجھے بتایا ہے کہ آپ نے مجھے امان دے دی ہے،“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:”اس نے صحیح کہا ہے، تم مامون ہو،
اس نے دوبارہ سوال کیا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم !) آپ مجھے کس بات کی دعوت دیتے ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارکان اسلام گناتے ہوئے فرمایا:
میں تمہیں اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ تم گواہی دو کہ الله تعالی کے سوا کوئی دوسرا لائقِ عبادت و پرستش نہیں اور اس بات کی کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اور اس بات کی کہ تم زکوة دو،
اللہ کی قسم آپ نے حق کی دعوت دی اور خیر کا حکم دیا……..والله ! آپ اس دعوت کے پہلے بھی ہم میں سب سے سچے اور نیکو کار تھے، یہ کہہ کر اس نے بیعت کے لئے اپنا ہاتھ بڑھا دیا اور کلمہ شہادت پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ (۳)
اسلام لانے کے بعد جناب عکرمہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی :”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے سب سے اچھی چیز بتادیجئے تا کہ میں اسے برابر پڑھا کروں۔“
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:
اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمدا عبده و رسوله پڑھا کرو عکرمہ بولے:”اس کے بعد کیا؟‘‘
فرمایا: کہو کہ میں الله تعالی اور حاضرین کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں مسلم ہوں مجاہد ہوں اور مہاجر ہوں، اورعکرمہ رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ دیا۔
اس وقت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ آج تم جو چیز بھی مجھ سے مانگو گے وہ تمہیں عطا کروں گا،
میں چاہتا ہوں کہ میں نے آپ کے ساتھ جتنی بھی عداوت کی جہاں کہیں بھی آپ کے مد مقابل ہوا اور آپ کے خلاف جو بات بھی خواہ آپ کے روبرو یا پس پشت کی ہو ان سب سے میرے لئے مغفرت کی دعا فرمائیں، عکرمہ رضی اللہ عنہ نے سوال کے لیے زبان کھولی۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا کی: اللهم اغفرله كل عداوة عادا فيها وكل مسیر سار فيه الى موضع یرید به اطفاء نورك واغفر له ما نال من عرضي في وجهی او انا غائب عنه.
اے اللہ! ہراس عداوت سے عکرمہ کی مغفرت فرما جو اس نے میرے ساتھ کی اور معاف فرما دے اس کی ہر اس سرگرمی کو جس کے ذریعہ سے اس نے تیرے نور کو بجھانے کی کوشش کی اور درگز رفرما اس کی ہر اس حرکت کو جو اس نے میری آبرو سے کھیلتے ہوئے میرے سامنے یا میری عدم موجودگی میں کی ہو،“ اس دعا کوسن کر جناب عکرمہ رضی اللہ عنہ کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا اور انہوں نے کہا:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم ! آج سے پہلے اللہ کی راہ سے اللہ کے بندگان کو باز رکھنے کے لئے جتنا مال میں خرچ کرتا رہا ہوں اب آج کے بعد سے اللہ کی راہ میں اس سے دوگنا خرچ کروں گا اور آج سے پہلے اللہ کے دین سے روکنے کے لئے جتنی قوت سے لڑتا رہا آج کے بعد سے اس سے دوگنی طاقت کے ساتھ اللہ کی راہ میں لڑوں گا.
اور اس روز سے مسلمانوں کی جماعت میں ایک ایسے شخص کا اضافہ ہوا جو میدان کارزار میں ایک شیردل شهسوار اور سجدوں میں ایک عابد شب زنده دار اور قاری قرآن تھا، وہ قرآن کریم کو اپنے چہرے پر رکھ کر اللہ کے خوف سے روتے ہوئے بڑے والہانہ انداز میں کہتے
کتاب ربی … کلام رہی۔ (یہ میرے رب کی کتاب ہے یہ میرے رب کا کلام ہے)
جناب عکرمہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عہد کیا تھا اسے پورا کر دکھایا، ان کے قبول اسلام کے بعد کفر و اسلام کے مابین جو بھی معرکہ پیش آیا اس میں ذوق وشوق کے ساتھ شریک ہوئے اور مسلمان جب بھی کسی مہم میں نکلے اس میں آگے آگے رہے، معرکہ یرموک میں تو جناب عکرمہ رضی اللہ عنہ میدان قتل کی طرف اس طرح لپکے تھے جیسے کوئی تشنہ لب شدید گرمی میں ٹھنڈے میٹھے پانی کی طرف لپکتا ہے، ایک موقع پر جب مسلمانوں پر دشمن کا دباؤ بہت زیادہ بڑھ
گیا تھا وہ اپنے گھوڑے سے کود پڑے تلوار کی نیام توڑ کر پھینک دی اورننگی تلوار لے کر رومیوں کی صفوں میں گھس گئے، یہ دیکھ کر جناب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فورا ان کے پاس پہنچ کر کہا:
عکرمہ ایسا نہ کیجئے، اپنی جان کو خطرے میں نہ ڈالیے، آپ کا قتل ہوجانا مسلمانوں کے لئے ناقابل برداشت اور ناقابل تلافی سانحہ ہوگا۔“
لیکن جناب عکرمہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ”خالد! ہٹ جاؤ، میرا راستہ نہ روکو، صحبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ اور خدمت اسلام میں تم کو میرے اوپر سبقت حاصل ہے، میں اور میرا باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف تھے اور میں آخر دم تک اس مخالفت پر قائم رہا اس لئے صحبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف میرے حصے میں بڑی تاخیر سے آیا، مجھے چھوڑ دو، آج میں گزشتہ کوتاہیوں اور رومیوں کی تلافی کر لینا چاہتا ہوں ‘ پھر قدرے توقف کے بعد فرمایا:
میں بہت سے مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جم کرلڑا کیا آج ان رومیوں کے مقابلے میں راہ فرار اختیار کر لوں؟ ایسا کبھی نہیں ہو سکے گا، پھر انہوں نے مسلمانوں کو پکارا:”موت پر کون بیعت کرتا ہے؟‘‘
ان کی پکار پرتقریبا چارسو مسلمانوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی، ان بیعت کرنے والوں میں ان کے چچا جناب حارث بن ہشام اور جناب ضرار بن ازور رضی اللہ عنہما بھی شامل تھے۔ ان لوگوں نے جناب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ( قائد لشکر) کے خیمے کے گردوپیش میں سخت خونریز جنگ کی اور دشمن کے بڑھے ہوئے حملوں کا بہترین انداز میں دفاع کیا۔ جب فضائے یرموک پر سے جنگ و قتال کے بادل چھٹے اور مسلمانوں کی عظیم الشان فتح کا آفتاب طلوع ہوا تو یرموک کی زمین پر تین مجاہد زخموں سے چور پڑے ہوئے تھے اور وہ تھے جناب حارث بن ہشام جناب عیاش بن ربیعہ اور جناب عکرمہ بن ابی جہل رضي الله عنهم ورضوا عنہ
شدتِ تشنگی سے بے تاب جناب حارث رضی اللہ عنہ نے پانی مانگا، جب پانی ان کو پیش کیا جارہا تھا جناب عکرمہ رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف دیکھا، جناب حارث نے پہلے ان کو پانی پلانے کا اشارہ کیا اور جب پانی ان کے پاس لے جایا گیا تو جناب عیاش نے اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا، جناب عکرمہ نے اشارہ کیا کہ پہلے ان کی پیاس بجھائی جائے اور جب پانی پلانے والے ان کے قریب گئے تو دیکھا کہ وہ اس سے بے نیاز ہو چکے ہیں، (انتقال فرماگئے) جب وہ پلٹ کر پہلے دونوں صحابیوں کے پاس پہنچے دیکھا کہ وہ لوگ بھی آب کوثر سے اپنی پیاس بجھا چکے ہیں۔ انا للہ واناالیہ راجعون

الله تعالی ان سب لوگوں سے راضی ہو اور انہیں حوض کوثر سے اس طرح سیراب کرے کہ اس کے بعد انہیں تشنگی محسوس نہ ہو اور انہیں جنت الفردوس کی سرسبزی وشادابی مرحمت فرمائے جس سے وہ ہمیشہ مستفید ہوتے رہیں۔ آمین یارب العالمین

✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿
١) سیرت ابن ہشام صفحہ ،۳۸۳۔

(۲ صحیح بخاری ،کتاب مناقب الانصار حدیث۳۸٢٥/صحیح مسلم کتاب الاقضیہ باب قضیہ ہند

۳)سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ا مام ابن کثیر٢ : ٣٩٢ -٣٩٣

 

نوٹ:  کسی بھی قسم کی غلطی نظر آئے تو ہمیں ضرور اطلاع کریں۔ 

ناشر: eSabaq.com

eSabaq.in@gmail.com
zakariyyaachalpuri9008@gmail.com

تبصرہ کریں

تبصرہ

No comments yet.