سلسلہ نمبر ۹
جناب عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ
عربی کتاب: صور من حیاۃ الصحابہ
مؤلف: علامہ عبدالرحمن رافت الباشا
اردو کتاب: صحابۂ رسول ﷺ کی تڑپا دینے والی زندگیاں
جدید تخریج شدہ
مترجم: مولانا اقبال احمد قاسمی
مرتب: عاجز: محمد زکریّا اچلپوری الحسینی
سلسلہ نمبر ۹
جناب عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ
عمرو بن جموح کا شمار دور جاہلیت میں یثرب کے زعما میں ہوتا تھا۔ وہ قبیلہ بنو سلمہ کے ہردل عزیز سردار مدینے کے مشہور صاحب جودوسخا اور اصحاب ثروت میں سے تھے، زمانہ جاہلیت میں اشراف کی یہ امتیازی شان سمجھی جاتی تھی کہ ان میں سے ہر ایک اپنے لئے خاص طور سے الگ الگ بت اپنے گھر میں رکھتا تھا کہ ہر صبح وشام اس سے برکت حاصل کرے۔
موسم حج میں اس کی خوشنودی حاصل کرے اور اظہار عقیدت کے طور پر اس کے لئے جانور زبح کرے اور مصیبت اور پریشانی کی گھٹن گھڑیوں میں اس سے امن و پناہ کی درخواست کرے۔ اس وقت کے رواج کے مطابق عمرو بن جموح کے پاس بھی ایک بت تھا جس کا نام ”مناۃ تھا۔ اس کو انہوں نے بہت قیمتی اورنفیس لکڑی سے بنایا تھا۔ عمرو بن جموح اس سے بہت زیادہ عقیدت رکھتے اس کے رکھ رکھاؤ کا بڑا اہتمام کرتے اس کی دیکھ ریکھ کے لئے برابر فکر مندر ہتے اور ہمیشہ اس کونفیس ترین خوشبو سے معطر کئے رکھتے تھے۔
آفتاب اسلام کی شعائیں جس وقت مبشر اول جناب مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ سے یثرب کے ایک ایک گھر پر ضوفگن ہورہی تھیں، عمرو بن جموح کی عمر ساٹھ سے متجاوز ہو چکی تھی اور اس وقت ان کے تینوں بیٹے معاز معوز خلاد رضی اللہ عنہم اور ان کے ایک ہم جولی معاز رضی اللہ عنہ بن جبل ان کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے، اس کے علاوہ ان تینوں بیٹوں کے ساتھ ان کی ماں ہند بھی دائرہ اسلام میں داخل ہو چکی تھیں لیکن عمرو بن جموح اس سے بالکل بے خبر تھے۔
عمرو بن جموح کی بیوی نے دیکھا کہ اہل یثرب کی بڑی اکثریت نے اسلام قبول کرلیا ہے اور ان کے شوہر اور معدودے چند لوگوں کے سوا قبائل کے سر برآورد سرداروں میں سے کوئی بھی اب شرک پر باقی نہیں رہ گیا۔ ہند اپنے شوہر سے بہت زیادہ محبت کرتی اور ان کا بہت زیادہ احترام
کرتی تھیں اور ان کے متعلق اس سے بات سے ڈرتی تھیں کہ اگر انہوں نے کفرکونہیں چھوڑا اور اسی حال میں ان کو موت آ گئی تو جہنم کے حق قرار پائیں گے ۔ ادھر عمرو بن جموح اپنے لڑکوں کے متعلق پرخطرہ محسوس کررہے تھے کہ کہیں لوگ آباء واجداد کے دین کو چھوڑ کر اس دائی اسلام مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی پیروی نہ اختیار کر لیں جس نے قلیل مدت میں بہت سے لوگوں کو ان کے دین سے پھیر کرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں داخل کر لیا ہے۔ اس خطرے کومحسوس کرتے ہوئے انہوں نے اپنی بیوی سے کہا:”ہند ! دیکھو اس بات کا خیال رکھنا کہ جب تک ہم کسی فیصلے پر نہ پہنچ جائیں تمہارے لڑکے اس شخص سے ملنے نہ پائیں۔
میں اس کا خیال رکھوں گی۔ ہند نے کہا لیکن کیا آپ پسند کریں گے کہ اپنے بیٹے معاذ سے وہ باتیں سن لیں جواس شخص سے سن کر بیان کر رہا ہے۔“
تمہارا بھلا ہو کیا وہ میری لاعلمی میں اپنے دین سے پھر گیا ہے؟‘‘ عمرو بن جموح نے پوچھا۔ نیک بیوی کو ان کے اوپر ترس آیا اور انہوں نے جواب دیا:
نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ وہ اس دائی کی مجلس میں شامل ہوا تھا اور وہاں اس نے اس کی کچھ باتیں سن لی ہیں۔‘‘
عمرو نے کہا: ”اس کو میرے پاس بلاؤ
اور جب معاز ان کے پاس پنچے تو انہوں نے کہا کہ یہ شخص جو کچھ کہتا ہے اس میں سے کچھ باتیں مجھے سناؤ یہ سن کر بیٹے نے باپ کو کلام الہی کے یہ دل نشین بول پڑھ کر سنائے۔
بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العالمين
الرحمن الرحيم
ملك يوم الدين
اياك نعبدو واياك نستعين
اهدنا الصراط المستقيم
صراط الذين انعمت عليهم
غير المغضوب عليهم ولا الضالين
(الفاتحہ : ١ -٧)
شروع کرتا ہوں اس اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ ساری تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں جو تمام عالم کا رب ہے۔ جو رحمان و رحیم اور روز وجزا کا مالک ہے۔ اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ اے اللہ ! صراط مستقیم کی طرف ہماری رہنمائی فرما۔ ان لوگوں کے راستے کی طرف جن پرتو نے انعام فرمایا جو نہ تیرے غضب کے مستحق ہیں نہ گم کردہ راہ “
عمرو بڑے غور وانہماک کے ساتھ اپنے بیٹے کی زبان سے ادا ہونے والے ان دلنشین بولوں کو سنتے رہے پھر انہوں نے سراٹھایا اور بیٹے سے مخاطب ہوئے: کتنا خوب صورت اور حسین ہے یہ کلام ۔ کیا اس کا سارا کلام ایساہی ہے؟
اس کا کلام اس سے بھی خوبصورت ہے۔‘ معاز نے کہا: ”ابا جان! کیا آپ اس کی بیعت کرنا پسند کریں گے؟ آپ کا پورا قبیلہ اس کی بیعت کر چکا ہے۔
یہ سن کر بڑے میاں تھوڑی دیر تک خاموش رہے۔ پھر بولے ”مناۃ‘‘ سے مشورہ کئے بغیر میں ایسا نہیں کرسکتا۔ دیکھتا ہوں کہ وہ مجھے کیا رائے دیتا ہے؟‘‘
ابا جان! مناة اس سلسلے میں آپ کو کیا مشورہ دے سکتا ہے۔ وہ تو لکڑی کا ایک بے جان ٹکڑا ہے۔ سننے سمجھنے اور بولنے کی صلاحیت سے محروم ‘‘نوجوان معاذ نے حقیقت کی نشاندہی کی۔
میں کہہ چکا ہوں کہ اس سے رائے لئے بغیر میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ بڑے میاں نے غصے سے تیز ہوتے ہوئے کہا۔
اس کے بعد عمرو بن جموح وہاں سے اٹھ کر مناۃ کے پاس پہنچے۔ (اہل جاہلیت کا معمول تھا کہ جب وہ کسی بت سے بات کرنا چاہتے تھے تو اس کے پیچھے کی بوڑھی عورت کو کھڑا کر دیتے اور وہ ان کے زعم باطل کے مطابق جو بات اس بڑھیا کے دل میں ڈالتا وہی کہتی تھی) اور اس کے سامنے اپنے سیدھے اور تندرست پاؤں کے بل پر کھڑے ہو گئے ۔ ان کا ایک پاؤں لنگڑا تھا۔ پہلے تو انہوں نے بت کی بہترین حمد وثناء کی۔ پھر بولے:
مناۃ! تجھے یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ دائی جو مکے سے ہمارے یہاں پہنچا ہے وہ تیرے علاوہ کسی اور کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا۔ وہ صرف اس لئے یہاں آیا ہے کہ ہم کو تیری عبادت سے روک دے اور میں اس کی اچھی باتیں سن چکنے کے باوجود ان کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں، جب تک تم سے مشورہ کر لوں تو تم مجھے اس سلسلے میں مناسب مشورہ دو
لیکن جب مناۃ نے ان کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تو عمرو نے کہا کہ شاید تم ناراض ہو گئے ہو اور میں کوئی ایسا کام نہیں کروں گا جوتمہارے لئے باعث ازیت ہو۔ خیر کوئی بات نہیں ۔ میں تم کو چند روز کی مہلت دیتا ہوں تا کہ تمهاراغصہ دور ہوجائے.. "
عمرو بن جموح کےلڑکےمناۃ کے ساتھ اپنے باپ کی غیر معمولی تعلق خاطر کو اچھی طرح جاتے تھے۔ ان کو یہ بات بھی خوب معلوم تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ان کے لئے ایک جزولازم بن چکا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ان کو اس بات کا اندازہ بھی ہوگیا تھا کہ ان کے دل میں اس کی عقیدت و نیاز مندی کی بنیاد ومتزلزل ہورہی ہے۔ اب یہ ان کا کام ہے کہ اس کی عقیدت کو ان کے دل سے پورے طور پر نکال دیں۔ ان کو ایمان کی طرف لانے کی ہی ایک شکل تھی
عمرو بن جموح کے لڑکے رات کی تاریکی میں اپنے دوست معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے ساتھ مناة کے پاس پہنچے اور اس کو اس کی جگہ سے اٹھا کر بنوسلمہ کے اس گڑھے پر لے گئے جس میں وہ کوڑا کرکٹ اور گندگی ڈالتے تھے۔ لڑکے اس کو گڑھے میں پھینک کر گھر لوٹ آئے اور اس کارروائی کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی ۔ صبح کو جب عمرو اپنے بت کے پاس اظہار عقیدت کے لئے پہنچے تو اسے اپنی جگہ سے غائب پایا۔ یہ دیکھ کر انہوں نے گھر والوں سے کہا:
تم لوگوں کا برا ہو۔ آج رات میرے معبود کے ساتھ کس نے زیادتی کی ہے، لیکن کسی نے ان کی اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ گھر کے اندر اور باہر اس کو تلاش کرتے پھرے، وہ شدت غضب میں چیخ چیخ کر گھر والوں کو دھمکی دیتے رہے اور آخر کافی تلاش کرنے کے بعد وہ ان کو گڑھے میں منہ کے بل اوندھا پڑا ہوا مل گیا ۔ انہوں نے اسے وہاں سے نکالا اسے دھوکر صاف کیا اور خوشبو لگا کر دوبارہ اس کی جگہ پر رکھتے ہوئے بولے:
اللہ کی قسم ! اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ تمہارے ساتھ کس نے یہ حرکت کی ہے تو میں اسے سخت سزا دوں گا ۔“
دوسری رات بھی لڑکوں نے مناۃ کے ساتھ وہی حرکت کی جو پچھلی رات کر چکے تھے۔صبح کو جب بڑے میاں نے اسے تلاش کیا تو اسی گڑھے میں گندگی میں ملوث پایا۔ آج بھی انہوں نے اس کو وہاں سے باہر نکال کر دھویا اور خوشبولگا کر اس کی جگہ پر رکھ دیا۔
لڑکے ہر رات اس کے ساتھ یہی سلوک کرتے رہے یہاں تک کہ جب عمرو بن جموح ان کی اس حرکت سے بالکل تنگ آگئے تو رات سونے سے پہلے اس کے پاس گئے اور اپنی تلوار اس کی گردن میں لٹکاتے ہوئے بولے:
اے مناۃ ! اللہ کی قسم ! مجھے نہیں معلوم کہ تیرے ساتھ یہ حرکت کون کرتا ہے اگر تیرے اندر ذرا بھی خیرہو تو اپنا دفاع کر یہ تلوار تیرے پاس ہے۔ یہ کہہ کر وہ اپنی خواب گاہ میں چلے گئے اور جب لڑکوں کو اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ بڑے میاں گہری نیند میں پہنچ کر گردوپیش سے بے خبر ہو چکے ہیں تو وہ جھٹ پٹ بت کے پاس پہنچے انہوں نے اس کی گردن میں پڑی ہوئی تلوار نکال لی اور اس کو گھر کے باہر لے گئے ۔ اب کی بار انہوں نے ایک مردہ کتے کو اس کے ساتھ باندھ دیا اور دونوں کو بنو سلمہ کے اسی گڑھے میں پھینک دیا جس میں گندگی اور غلاظت بھری ہوئی تھی ۔ صبح کو جب بڑے میاں سو کر اٹھے اور بت کو اپنی جگہ موجود نہیں پایا تو اس کی تلاش میں نکلے اور حسب معمول اس کو اسی گڑھے میں اس حال میں منہ کے بل پڑا ہوا پایا کہ اس کے ساتھ ایک مردہ کتا بندھا ہوا تھا اور تلوار اس سے چھین لی گئی تھی۔ اب کی بار انہوں نے اس کو گڑھے سے نہیں نکالا بلکہ جہاں انہوں نے اسے پھینکا تھا وہیں چھوڑ دیا اور بولے
والله لو كنت الھالم تكن انت وكلب وسط بئر في قرن
اللہ کی قسم ! اگر تو واقعی معبود ہوتا تو تو کتے کے ساتھ بندھا ہوا گڑھے میں نہ پڑا ہوتا“ پھر اس کے بعد انہیں اللہ کے دین میں داخل ہوتے دیر نہ لگی۔(١)
جب جناب عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ نے حلاوت ایمان کا مزہ چکھ لیا تو اپنی عمر کے اس ایک ایک لمحے پر پریشانی اور ندامت کا اظہار کرنے لگے جو شرک کی حالت میں گزرا تھا ایمان لانے کے بعد وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ نئے دین کی طرف متوجہ ہو گئے اور اپنے نفس اپنے مال اور اپنی اولاد کو اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کے لئے وقف کردیا۔
جناب عمرو بن جموح کے مشرف بہ اسلام ہونے کے کچھ عرصے کے بعد احد کا معرکہ پیش آیا۔ انہوں نے اپنے تینوں بیٹوں کو دشمنان الہی سے مقابلہ کی تیاریاں کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ انھیں صبح و شام بپھرے ہوئے شیروں کی طرح آتے جاتے دیکھتے۔ ان کے چہرے دولتِ شہادت اور رضا الہی کے حصول کے شوق میں جگمگارہے تھے۔ اس صورت حال نے ان کے اندر بھی جوش و حمیت کو ابھار دیا اور انہوں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی زیر قیادت اپنے بیٹوں کے ساتھ جہاد میں شریک ہونے کا تہیہ کر لیا۔ لیکن ان کے لڑکے ان کو اس ارادے سے باز رکھنے پر متفق الرائے ہو گئے ۔ کیونکہ وہ ایک سن رسیدہ بوڑھے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے پاؤں میں شدید لنگ تھا اور اسی حالت میں الله تعالی نے انہیں شرکت جہاد سے معذور قرار دیا تھا۔ ان کے بیٹوں نے ان سے کہا کہ ابا جان! اللہ تعالی نے آپ کو معذور قرار دیا ہے۔‘ جناب عمرو رضی اللہ عنہ ان کی اس بات سے سخت ناراض ہوئے اور ان کی شکایت کرنے کے لئے بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
میرے یہ بیٹے مجھے اس خیر سے باز رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ میں لنگڑا ہوں اور معذور ہونے کی وجہ سے جہاد میں شریک ہونا میرے لئے ضروری نہیں۔ اللہ کی قسم ! مجھے امید ہے کہ میں اپنی اس ٹانگ سے جنت میں داخل ہوں گا۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا یہ ذوق و شوق دیکھا تو ان کے لڑکوں سے فرمایا کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو ممکن ہے کہ اللہ تعالی ان کو شہادت عطا فرمائے ۔ چنانچہ ان کے لڑکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق خاموش ہو گئے۔
جب مجاہدین کی روانگی کا وقت آیا تو جناب عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ سے ملے اور ان سے اس طرح رخصت ہوئے جیسے انہیں واپس نہیں آنا اس کے بعد انہوں نے قبلہ رو ہو کر اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھادیئے اور دعا کی۔
اللهم ارزقني الشهادة ولا تردني الى اهلی خایبا
اے اللہ! مجھے شہادت کی دولت نصیب فرما۔ اے اللہ! مجھے نا کام اور نامراد اور شہادت سے محروم کر کے واپس نہ کر۔“
پھر وہ اس شان سے میدان جہاد کی طرف روانہ ہوئے کہ ان کے تینوں لڑکے اور ان کے قبیلہ بنو سلمہ کی ایک کثیر تعداد نے انہیں اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا اور جب معرکہ کارزار گرم ہوا اور مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر منتشر ہو گئے تو یہ عجیب منظر دیکھنے میں آیا کہ جناب عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ اپنی تندرست ٹانگ سے کودتے ہوئے مسلمانوں کی اس اگلی جماعت میں شامل ہو گئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے آگے بڑھی تھی۔ اس وقت تمنائے شہادت لفظوں کی شکل میں ان کے لبوں پر چل رہی تھی۔
اني لمشتاق إلى الجنة اني لمشتاق الى الجنة
میں جنت کا مشتاق ہوں میں جنت کا مشتاق ہوں۔
اس وقت ان کے ایک صاحبزادے جناب خلاد رضی اللہ عنہ عقب سے ان کی حفاظت کر رہے تھے۔ وہ دونوں باپ بیٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے مشرکین سے برابر لڑتے رہے یہاں تک کہ دونوں میدان جنگ میں شہید ہو کر گر پڑے اور دونوں کی شہادت کے درمیان چند لمحات سے زیادہ کا وقفہ حائل نہ تھا۔ (۲)
جب جنگ ختم ہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہداء احد کی تجہیز وتکفین کے لئے کھڑے ہوئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ انہیں ان کے خون اور زخموں سمیت ہی دفن کر دو میں ان کا گواہ ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مسلمان اللہ کی راہ میں زخمی ہوگا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ زخموں سے اس کا خون جاری ہوگا اس خون کا رنگ زعفرانی اور اس کی خوشبو مشک کی خوشبو کی طرح ہوگی ۔‘ پھر فرمایا:” عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کو عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی دفن کرنا۔ یہ دونوں اس دنیا میں ایک دوسرے کے نہایت گہرے اورمخلص دوست تھے۔ (۳)
اللہ تعالی جناب عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ شہداء احد سے راضی ہو اور ان کی قبروں کو نور سے بھر دے۔ آمین یارب العالمین
=========================
(۱) عمرو بن جموح کے قبول اسلام کا واقعہ مختصرا سیرة ابن ہشامی ص ۲۲۱
۲۲۲ پر مذکور ہے۔ نیز دیکھئے سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم – امام ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ (١: ٤٣٩١ ،٤٤٠)
(۲)صحیح بخاری کتاب الجهادمحدیث ۲۷۹۷۔ کتاب الذبائح حدیث ٥۵۳۳صحیح مسلم کتاب الجہادحدیث ٣٥٤١سنن ترمزی ابواب داؤد کتاب الجهاد حدیث ١٦٥٦،سنن ترمذی ابواب فضائل الجهاد حدیث ۱٦٥٦
(۳)سیرۃابن ہشام ۳۸۶۔ سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم مولفه امام ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ ٢ص ٦٦
نوٹ: کسی بھی قسم کی غلطی نظر آئے تو ہمیں ضرور اطلاع کریں۔
ناشر: eSabaq.com
eSabaq.in@gmail.com
zakariyyaachalpuri9008@gmail.com
No comments yet.