افیون گانجا وغیرہ کی تجارت کا حکم

*⚖سوال و جواب⚖*

*مسئلہ نمبر 1120*

(کتاب البیوع باب المتفرقات)

*افیون گانجا وغیرہ کی تجارت کا حکم*

*سوال:* حضرات مفتیان کرام کیا فرماتے ہیں مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک مسلمان کے لئے افیون اور گانجا (یعنی نشہ والی اشیاء) بیچنا کیسا ہے؟ اور کیا گانجا اور افیون مال ہے یا نہیں ؟ اگر کسی مسلمان سے یہ چیزیں ضائع ہوجائیں تو کیا اسکا ضامن مسلمان ہوگا یا نہیں؟ شریعت وسنت کی روشنی میں تشفی بخش مدلل جواب عنایت فرماکر شکریہ کا موقع فراہم کریں عین کرم ہوگا (المستفتی مولانا اسماعیل جوگیشوری بمبئی، 11 اپریل بروز ہفتہ 2020)

*بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم*

*الجواب وباللہ التوفیق*

افیون اور گانجا نشہ آور چیزیں ہیں اس لئے ان کا استعمال نشہ کے طور پر حرام ہے اور نشہ کرنے والوں سے اس کی خرید وفروخت بھی جائز نہیں ہے، لیکن چونکہ فی نفسہ یہ چیزیں ناپاک نہیں ہوتی ہیں اور دوا وغیرہ میں ان کا جائز استعمال بھی موجود ہے اس لئے یہ چیزیں بذات خود مال میں داخل ہیں، اس لئے نشہ کے علاوہ دوا وغیرہ میں اس کا استعمال اور خرید و فروخت درست ہوگا، اور مال ہونے کی بناء پر اگر کوئی شخص ضائع کرتا ہے تو اس پر تاوان واجب ہوگا، البتہ اس کی تجارت کی اجازت ہر کس و ناکس کو نہیں ہوگی کیونکہ ایک تو لوگ اس کا غلط استعمال کرتے ہیں دوسرے حکومت کی جانب سے بھی اس کی خرید وفروخت پر ممانعت ہے اور اس طرح کی نشہ آور اور مضر صحت چیزوں میں حکومتی قوانین کی پابندی لازم ہے اور ان کی خلاف ورزی جائز نہیں(١) افیون اور گانجا وغیرہ کے سلسلے میں مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی علیہ الرحمہ لکھتےتے ہیں:

''افیون ،چرس ،بھنگ یہ تمام چیزیں پاک ہیں اوران کادوامیں خارجی استعمال جائزہے،نشہ کی غرض سے ان کواستعمال کرناناجائزہے۔مگران سب کی تجارت بوجہ فی الجملہ مباح الاستعمال ہونے کے مباح ہے،تجارت توشراب اورخنزیرکی حرام ہے کہ ان کااستعمال خارجی بھی ناجائزہے۔''(٢)

مفتی محمود صاحب گنگوھی علیہ الرحمہ اس بارے میں رقمطراز ہیں:

"افیون کی آمدنی سے جوزمین خریدکراس میں کاشت کرتے ہیں اس کاشت کی آمدنی کوحرام نہیں کہاجائے گا،ایسی آمدنی سے چندہ لینابھی درست ہے اوران کے یہاں کھاناپینابھی درست ہے"(٣)

فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

*????والدليل على ما قلنا????*

(١) قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ ". (صحيح البخاري حديث نمبر ٦١٢٤ كِتَابٌ : الْأَدَبُ | بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا ")

و قد صرح في المجموع بأن البنج و الحشيش طاهران مسكران. (حاشية البجيرمي على الخطيب الشربيني 148/1 كتاب الطهارة)

و خرج بزيادته على أصله مائع غيره كالحشيش و البنج و الأفيون فإنه و إن اسكر طاهر كما صرح به في الدقائق. و ما وقع في بعض شروح الحاوي من نجاسة الحشيشة غلط. (نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج ١٤١/١ كتاب الطهارة)

لأن طاعة الإمام فيما ليس بمعصية فرض. (الدر المختار مع رد المحتار ٤١٦/٦ زكريا)

(٢) کفایت المفتی 9/129، ط: دارالاشاعت ۔ (٣) فتاویٰ محمودیہ، عنوان :افیون کی تجارت اوراس کی آمدنی کاحکم،16/123،دارالاشاعت)

*كتبه العبد محمد زبير الندوي* دار الافتاء و التحقیق مدرسہ ہدایت العلوم بہرائچ یوپی انڈیا مؤرخہ 18/8/1441 رابطہ 9029189288

*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔