السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اَلْحَمْدُ لِلہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی، اَمَّا بَعْدُ فَقَالَ اللہُ تَعَالٰی اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ° بسم الله الرحمٰن الرحیم ° لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ • صدق اللہ العظیم (پارہ نمبر ۴ - صفحہ نمبر ۷۲ - سورت نمبر ۳ اٰل عمران ) کیوں نہ ہو ممتاز اسلام دنیا بھر کے دینوں میں وہاں مذہب کتابوں میں یہاں قرآن سینوں میں۔ سامعینِ گرامی کچھ دیر کیلئے حال سے رشتہ توڑ کر بھاگتی دوڑتی گاڑیوں اور ترقی یافتہ دور سے نظر ہٹا کر پندرہ صدیاں پیچھے جائیں تاریخ کے صفحات کھنگالے اور دیکھیے دنیا میں کیا تھا ظلمت ہی ظلمت تھی، اندھیرا ہی اندھیرا تھا، جوروجفا عام تھا، شراب نوشی تھی، زینا کاری معیوب نہ تھی، افراتفری تھی، اضطراب تھا، بے چینی تھی، بدی کا راج تھا کچھ کفر نے شعلے بھڑکائے کچھ ظلم نے فتنے پھیلائے سینوں میں عداوت جاگ اٹھی انسان سے انساں ٹکرائے پامال کیا برباد کیا کمزور کو طاقت والوں نے جب ظلم و ستم حد سے گزرے تشریف محمد لے آئے وہ رب جو فضا میں بار پیدا کرتا ہے، وہ رب جو ظلمت و شب کی بعد نورِ سحر پیدا کرتا ہے، اسے اشرف المخلوقات پر رحم آگیا تو اس نے محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کی صورت میں انسانیت کا دستور دیا، ہدایت کا منشور دیا، راہ جنتی کا نور دیا، قرآن نے شہر بدل دیے، گاؤں بدل دیے، عقائد بدل دیے، راستے بدل دیے، منزل بدل ڈالی، معیشت بدل ڈالی، تجارت بدل ڈالی، معاشرت بدل ڈالی، سخاوت بدل ڈالی، شجاعت بدل ڈالی، ظاہر بدل ڈالا، باطن بدل ڈالا، انسان بدل ڈالا، ڈاکو اور لوٹیرے معصوم ہمدرد بن گئے، ظالم و ستمگر عادل ہمدرد انسان بن گئے، جو زرا تھا وہ گوہر بن گیا، جو مدعو تھا وہ داعی بن گیا، قطرہ تھا دریا بن گیا، پیاسا تھا ساقی بن گیا، لوہا تھا پارس بن گیا، جاھل تھا عالم بن گیا، برا تھا نیک بن گیا، ابوبکر تھا صدیق بن گیا، عمر تھا فاروق بن گیا، عثمان تھا ذنورین بن گیا، علی تھا حیدرِ کرار بن گیا، معاویہ تھا کاتبِ وحی بن گیا، ابوعبیدہ تھا امینُ الامت بن گیا، یہ سب کیسے ہوا ؟ کیونکر ہوا ؟ میں عرض کرو یہ اللہ کے نبی ﷺ کی محنت سے بپا ہوا ہے، یہ قرآن پڑھنے، اس پر عمل کرنے اور سمجھنے سے بپا ہوا ہے، اس لئے میں کہتا ہوں کہ اپنے بچوں کو مدارس بھیجے مکاتیب بھیجے تاکہ وہ قرآن کو سیکھے سمجھے اور اسے اپنی زندگی میں اتارے تاکہ جب وہ بڑے ہو تو ان کی تجارت، معیشت، ان کا رہن سہن قرآن و حدیث کے مطابق ہو ہمارے مکتب ( مکتب کا نام ). میں بھی الحمدللہ قرآن وحدیث کی تعلیم دی جاتی ہے، اپنے بچوں کو اسکولوں اور کالجوں کہ ساتھ ساتھ مکتب کی تعلیم بھی دیں اللہ تعالی ہمارے اساتذہ اور تمام علمائےکرام کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ وہ امتِ مسلمہ کے بچوں اور بڑوں کی فکر میں دن رات لگے ہیں ۔ آمین یارب العالمین دنیا نے دین کو بھلا رکھا ہے غفلت کی نیند میں سلا رکھا ہے اس دور میں خوش نصیب ہیں وہ اکبر جس نے قرآن کو کھلا رکھا ہے۔ وآخردعوانا ان الحمد للہ رب العلمین عاجز: محمد زکریّا اچلپوری الحسینی
No comments yet.