سلسلہ نمبر ۱۳
جناب سلمان فارسی رضی اللہ عنہ
عربی کتاب: صور من حیاۃ الصحابہ
مؤلف: علامہ عبدالرحمن رافت الباشا
اردو کتاب: صحابۂ رسول ﷺ کی تڑپا دینے والی زندگیاں
جدید تخریج شدہ
جناب سلمان فارسی رضی اللہ عنہ
یہ کہانی ایک ایسے انسان کی کہانی ہے جو عرصہ دراز تک حقیقت کی تلاش و جستجو میں اس کے پیچھے بھاگتا رہا اور طویل مدت تک اللہ تعالی کی حصول کے لئے سرگرداں و پریشاں رہا، یہ قصہ جناب سلمان فارسی کا قصہ ہے اللہ تعالی ان سے راضی ہو اور انہیں راضی کرے آمین
یہ بات ہم انہیں پر چھوڑتے ہیں کہ وہ اپنے اس قصے کے واقعات و حوادث کو اپنی زبان سے بیان کریں کیوں کہ اس معاملے میں ان کا شعور نہایت گہرا اور ان کا بیان زیاد مبنی بر صداقت ہے، جناب سلمان رضی اللہ عنہ اپنی کہانی کا آغاز کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔ "میں اصفہان کی ایک بستی ’’جيان‘‘ کا رہنے والا ایک ایرانی نوجوان تھا میرے
والد اس گاؤں کے زمیندار اس کے باشندوں میں سب سے زیادہ مالدار اور سماجی لحاظ سے سب سے بلند مقام و مرتبہ کے مالک تھے وہ میرے روزِ پیدائشی سے میرے ساتھ بہت زیادہ محبت رکھتے تھے اور ان کی محبت مرور ایام کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہی اور اس میں شب وروز درجہ بدرجہ اضافہ ہوتا رہا یہاں تک کہ مجھے نقصان پہنچنے کے خیالی خطرات کے پیش نظر انہوں نے لڑکیوں کی طرح میرے گھر سے نکلنے پر سخت پابندی عائد کر دی میں نے اپنے آبائی مذہب مجوسیت کا علم حاصل کرنے اور اس کے احکام وفرائض پرعمل کرنے میں بہت زیادہ محنت اور دلچسپی سے کام لیا اور ترقی کر کے آتش کدہ کا سردار ہو گیا اور شب و روز اس کو دہکانے اور روشن رکھنے کی زمہ داری میرے سپردکر دی گئی۔
میرے والد کے پاس کافی زمین تھی جس سے بڑی مقدار میں غلہ حاصل ہوتا تھا زمین کا انتظام اور فصلوں کی دیکھ بھال وہ بذات خود کرتے تھے، ایک بار کسی مصروفیت کی وجہ سے وہ گاؤں نہیں جا سکے اس لئے مجھ سے کہا کہ بیٹے !تم دیکھ رہے ہو کہ اپنی مصروفیت کے سبب سے میں کھیت پرنہیں جاسکتا آج میری جگہ تم وہاں چلے جاؤ اور اس کی نگرانی کرو‘‘ والد صاحب کی ہدایت کے مطابق میں کھیت پر جانے کے ارادے سے گھر سے نکلا راستے میں میرا گزر عیسائیوں کے ایک گرجا کی طرف سے ہوا اس وقت گرجا میں نماز ہورہی تھی ان کی آواز کانوں میں پڑی تو میری توجہ ان کی طرف مبذول ہوگئی چونکہ میرے والد نے گھر سے نکلنے اور لوگوں کے ساتھ ربط تعلق قائم کرنے پر پابندی لگا دی تھی اس لئے میں نصاری اور دیگر اہل مذاہب کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا، چنانچہ جب میں نے ان کی آواز سنی تو یہ دیکھنے کے لئے کہ وہ کیا کررہے ہیں گرجا میں داخل ہوگیا، جب میں نے غور سے دیکھا تو ان کی عبادت اور نماز کا یہ انداز مجھے بہت پسند آیا اور میرے اندر ان کے مذہب سے رغبت پیدا ہوگئی میں نے دل میں کہا کہ ان کا مذہب ہمارے مذہب سے بہتر ہے پھر میں غروبِ آفتاب تک ان کے ساتھ رہا میں نے ان سے دریافت کیا کہ اس دین کی اصل کہاں ہے؟ انہوں نے بتایا کہ اس کی اصل شام میں ہے، جب رات کو گھر واپس آیا تو میرے والد مجھ سے ملے اور انہوں نے میری کارگزاریوں کی روداد پوچھی، میں نے کہا کہ ابا جان! میرا گزر کچھ لوگوں کی طرف ہوا جو کنیسہ میں نماز پڑھ رہے تھے مجھے ان کا طریقہ عبادت بہت پسند آیا اور میں غروب آفتاب تک ان کی صحبت میں رکا رہا،“ میرے اس عمل سے والد صاحب بہت گھبرائے اور انہوں نے کہا کہ بیٹے ! اس دین میں کوئی خیر نہیں تمہارا اور تمہارے آبا و اجداد کا دین اس سے بہتر ہے، میں نے کہا کہ ہرگز نہیں، اللہ کی قسم ان کا دین ہمارے دین سے اچھا ہے، میری بات سن کر والد صاحب کو اس بات کا اندیشہ پیدا ہوگیا کہ کہیں میں اپنے دین سے پھر نہ جاؤں، چنانچہ انہوں نے مجھے گھر میں قید کر کے میرے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیں۔
موقع پا کر میں نے نصاری کے یہاں پیغام بھیجا کہ اگر شام جانے والا کوئی قافلہ تمہارے پاس پہنچنے تو مجھے آگاہ کرنا، خوش قسمتی سے چند ہی روز کے بعد شام جانے والا ایک قافلہ ان کے پاس پہنچ گیا اور انہوں نے مجھے اس کی اطلاع کر دی، میں نے کوشش کر کے اپنے آپ کو بیڑیوں سے آزاد کیا اور چپکے سے ان کے ساتھ شام پہنچ گیا، وہاں پہنچ کر میں نے دریافت کیا کہ دین مسیحت کا سب سے افضل آ دمی کون ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ وہ پادری جوگرجا کا متولی و منتظم ہے اس وقت کا سب سے افضل اور بہتر نصرانی ہے، چنانچہ میں نے اس کی خدمت میں
حاضر ہو کر عرض کیا:
"میں نصرانیت کی طرف مائل ہوں، چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس رہوں آپ کی خدمت کروں، آپ سے اس کی تعلیم حاصل کروں اور آپ کے ساتھ نماز پڑھوں، اس نے میری درخواست قبول کرلی اور مجھے اپنے ساتھ قیام کی اجازت دے دی، چنانچہ میں اس کے ساتھ گرجا میں رہنے اور اس کی خدمت کرنے لگا لیکن چند ہی روز رہنے کے بعد مجھے معلوم ہوگیا کہ اپنے اخلاق و عادات اور اپنی سیرت و کردار کے اعتبار سے وہ کوئی اچھا آدمی نہیں ہے، وہ اپنے متبعین کو صدقہ و خیرات کا حکم دیتا اور ثواب کی خوشخبری سناتا، جب اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے لوگ اسے مال دیتے تو وہ سب کچھ اپنے لئے جمع کر لیتا فقراء و مساکین کو اس میں سے کچھ بھی نہ دیتا، یہاں تک کہ دھیرے دھیرے اس کے پاس کافی دولت جمع ہوگئی اور اس کے یہاں سونے سے بھرے ہوئے سات گھڑے اکٹھا ہو گئے، اس کا یہ رویہ دیکھ کر مجھے اس سے شدید نفرت ہوگئی، کچھ دنوں کے بعد جب اس کا انتقال ہو گیا اور نصرانی اس کی تجہیز وتکفین کے لئے جمع ہوئے تو میں نے ان کو بتایا کہ یہ بہت برا تھا تم لوگوں کو صدقہ و خیرات کا حکم دیتا مگر تمہاری دی ہوئی پوری کی پوری رقم اپنی ذات کے لئے جمع کر لیتا تھا، اس میں سے محتاجوں اور ضرورت مندوں کو ایک حبہ تک نہیں دیتا تھا، انہوں نے کہا کہ تم کو کیسے معلوم ہوا؟ (تمہارے پاس کیا ثبوت ہے؟) میں نے کہا: میں تم کو اس کا خزانہ دکھاتا ہوں‘‘ اور میں نے وہ جگہ دکھا دی، انہوں نے وہاں سے سات گھڑے نکالے جو سونے چاندی سے پر تھے، یہ دیکھ کر انہوں نے کہا:
اللہ کی قسم ہم اس کو ہرگز دفن نہیں کریں گے، پھر انہوں نے اس کی لاش کو صلیب پر لگا کر اس پر خوب پتھروں کی بارش کی۔
اس کے چند روز بعد انہوں نے اس جگہ ایک دوسرے کو مقرر کر دیا اور میں اس کی صحبت میں رہنے لگا، میں نے دنیا میں کسی ایسے شخص کونہیں دیکھا جو اس سے زیادہ دنیا سے بے نیاز آخرت کا مشتاق اور عبادت کا پابند ہو، میں اس سے بہت زیادہ محبت کرنے لگا اور ایک مدت تک اس کی عبادت و تقوی سے مستفید ہوتا رہا جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو میں نے اس سے غرض کیا:
محترم! میرے لئے آپ کی کیا وصیت ہے؟ آپ مجھے اپنے بعد کس کی صحبت اختیارکرنے کی نصیحت فرمائیں گے؟
اس نے جواب دیا: بیٹے اپنے علم کی حد تک میں صرف ایک شخص کو جانتا ہوں جو اس دین پر قائم ہے جس پر میں تھا وہ فلاں شخص ہے جو موصل میں رہتا ہے، اس نے صحیح دین میں کوئی تحریف نہیں کی حق اب صرف اسی کے پاس ہے۔
جب میرے مرشد کا انتقال ہوگیا تو میں موصل پہنچا اور اس شخص کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کو اپنی پوری کہانی سے آگاہ کر دیا، میں نے اسے بتایا کہ فلاں بزرگ نے اپنی موت کے وقت مجھے آپ کی صحبت اختیار کرنے کی وصیت کی تھی، انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ اب صرف آپ ہی اس دین پر قائم ہیں جس پر وہ خود تھے، میری بات سن کر انہوں نے مجھے اپنے پاس ٹھرنے کی اجازت دے دی اور میں وہاں رہنے لگا، میں نے ان کو بہترین حالت پر پایا لیکن بدقسمتی سے میں زیادہ دنوں تک ان کی صحبت سے استفادہ نہ کر سکا، ان کی موت کا پروانہ بہت جلد آ گیا جب ان کے انتقال کی گھڑی قریب آ گئی تو میں نے عرض کیا:
محترم! آپ کا آخری وقت آگیا ہے اور آپ میرے مسئلے سے بخوبی واقف ہیں، اب آپ کی طرف سے میرے لئے کیا وصیت ہے مجھے کس کے پاس جانے کی ہدایت فرمائیں گے؟ میری بات سن کر انہوں نے فرمایا
” بیٹے ! اللہ کی قسم مجھے نہیں معلوم کہ ”نصیبیں “ (علاقہ کا نام) کے فلاں شخص کے سوا کوئی دوسرا آدمی اس دین پر باقی ہے جس پر ہم لوگ ہیں، بس تم وہیں جاؤ اور اسی کی صحبت اختیار کرو۔“
اس بزرگ کی تجہیز وتکفین کے بعد میں نصیبین والے بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں اپنے حالات اور اپنے مرشد کی ہدایت سے آگاہ کیا، انہوں نے مجھے اپنے ساتھ رکھنے پر رضامندی ظاہر کی اور میں ان کے پاس مقیم ہو گیا، میں نے دیکھا کہ وہ اسی حق پر قائم ہیں جس پر پہلے دونوں بزرگ تھے لیکن مجھے ان کی صحبت میں رہتے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ان کا . وقت بھی پورا ہو گیا، جب ان کی موت کا وقت قریب آ گیا تو میں نے ان سے کہا:
آپ کو میرے بارے میں سب کچھ معلوم ہے آپ جانتے ہیں کہ میرا مقصد کیا ہے جس کے لئے میں در در کی خاک چھانتا پھر رہا ہوں اب اپنے بعد آپ مجھے کس کے پاس جانے کی ہدایت فرمائیں گے؟ انہوں نے جواب دیا:
"بیٹے! میری معلومات کی حد تک اب روئے زمین پر صرف ایک شخص رہ گیا ہے جو اس دین حق پر قائم ہے، وہ فلاں شخص ہے جو عموریہ میں رہتا ہے میرے بعد تم اسی کے پاس چلے جانا۔‘‘
میں ان کی ہدایت کے مطابق عموریہ پہنچا، تمام حالات و واقعات سے انہیں باخبر کیا اور بزرگ کی وصیت کا ذکر کرتے ہوئے ان کی خدمت میں قیام کی اجازت طلب کی، انہوں نے اجازت دے دی اور میں ان کے ساتھ رہنے لگا، الله کی قسم! وہ مذکورہ بزرگوں کے طریقے پر قائم تھے، میں ان کی صحبت سے مستفید ہونے لگا، ان کے یہاں رہتے ہوئے میں نے کچھ گائیں اور بکریاں پال لیں، جب ان کی موت کا وقت آپہنچا تو میں نے ان سے کہا:
آپ میرے معاملے سے اچھی طرح واقف ہیں، آپ اب مجھے کس چیز کی وصیت فرمائیں گے اور مجھے کیا حکم دیں گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ” بیٹے ! الله کی قسم! میرے علم کی حد تک روئے زمین پر اب ایسا کوئی شخص نہیں بچا جو اس دین پر قائم ہو جس پرہم تھے، لیکن وہ وقت قریب آ گیا ہے جب سرزمین عرب میں ایک نبی دین ابرا ہیمی (علیہ السلام ) کے ساتھ مبعوث ہوگا، پھر وہ اپنے وطن سے کھجوروں والی زمین کی طرف ہجرت کرے گا جو حرتین(کالی کنکریوں والی سرزمین) کے درمیان واقع ہے۔ اس کی چند واضح نشانیاں ہیں، وہ ہدیہ قبول کرے گا صدقہ نہیں کھائے گا اور اس کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی، اگر ہو سکے تو تم اسی علاقے چلے جاؤ
ان کے انتقال کے بعد کچھ دنوں تک میں عموریہ میں مقیم رہا، ایک دن ادھر سے کچھ عرب تاجروں کا گزر ہوا جو قبیلہ بنی کلب سے تعلق رکھتے تھے، میں نے ان سے کہا کہ اگر تم لوگ مجھے اپنے ساتھ عرب لیتے چلو تو میں تمہیں اپنی ساری گائیں اور بکریاں دے دوں گا، وہ تیار ہو گئے اور میں نے اپنے جانور ان کے حوالے کر دیئے، جب قافلہ مدینہ اور شام کے درمیان واقع ایک مقام وادی القری‘ پر پہنچا تو انہوں نے میرے ساتھ غداری کی اور مجھے غلام بنا کر ایک یہودی
کے ہاتھ فروخت کر دیا، اب میں ایک غلام کی حیثیت سے اس کی خدمت کرنے لگا، کچھ عرصہ بعد بنو قریظہ کا ایک یہودی اس کے یہاں آیا اور مجھے خرید کر اپنے ساتھ یثرب لے گیا، میں نے وہاں کھجوروں کے پیڑ دیکھے جن کا ذکر عموریہ والے بزرگ نے کیا تھا، اس کی بیان کردہ علامتوں کی مدد سے میں نے مدین کو پہچان لیا، اب میں اپنے نئے یہودی آقا کے ساتھ مدینہ میں رہنے لگا،
اس وقت تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکہ ہی میں تھے اور اپنی قوم میں دینِ اسلام کی تبلیغ کا فریضہ انجام دے رہے تھے، اس دوران میں اپنی غلامی کی مصروفیات اور بہت زیادہ کام کے سبب ان کے متعلق کچھ معلومات حاصل نہیں کر سکا پھر آپ ﷺ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آگئے ۔ ایک روز میں اپنے آقا کے باغ میں ایک کھجور پر چڑھا ہوا کچھ کام کر رہا تھا، میرا آقا اسی درخت کے نیچے بیٹھا تھا، اتنے میں اس کے قبیلے کا کوئی شخص آیا اور کہنے لگا
الله تعالی بنوقبیلہ(اوس و خزرج قبیلے) کو ہلاک کرے وہ سب قبا میں ایک شخص کے گرد جمع ہیں جو آج ہی مکہ سے ان کے یہاں پہنچا ہے اورخود کو نبی بتارہا ہے‘‘
یہ سنتے ہی میرے اوپر بخار کی سی کیفیت طاری ہوگئی اور میرا پورا جسم کانپنے لگا، مجھے ایسا لگا کہ میں اپنے آقا کے اوپر گر پڑوں گا، میں جلدی جلدی درخت سے اترا اور اس آدمی سے پوچھنے لگا: ابھی تم کیا کہہ رہے تھے اور وہ بات مجھے دوبارہ بتاؤ
اس پر میرا آقا غضبناک ہوگیا اور اس نے مجھے ایک گھونسہ مار کر کہا:
تمہیں اس سے کیا مطلب؟ چلو جا کر اپنا کام کرو“
شام کو کچھ کھجوریں ساتھ لے کر جو میں نے جمع کر رکھی تھیں رسول اللہ ﷺ کی قیام گاہ کی طرف روانہ ہوا اور ان کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے عرض کیا:
مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ ایک نیک آدمی ہیں اور آپ کے کچھ غریب الوطن اور ضرورت مند ساتھی ہیں، یہ صدقے کی تھوڑی سی کھجوریں ہیں، میرے خیال میں آپ لوگ اس کے سب سے زیادہ مستحق ہیں،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ کھاؤ مگر خود اس میں سے کچھ نہیں کھایا، یہ دیکھ کر میں نے اپنے دل میں کہا: یہ پہلی علامت ہے۔
اس کے بعد میں واپس چلا آیا اور پھر کھجوریں جمع کرتا رہا اور جب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قبا سے مدینے آئے تو میں نے دوبارہ حاضر خدمت ہو کر عرض کیا:
اس روز میں نے دیکھا کہ آپ نے صدقے کی کھجوریں نہیں کھائیں، اس لئے آج تھوڑی سی کھجوریں ہدیہ خدمت میں پیش کر رہا ہوں،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کھجوروں میں سے خود بھی کھایا اپنے ساتھیوں کو بھی شریک کیا، یہ دیکھ کر میں نے اپنے دل میں کہا: ” یہ دوسری نشانی ہے۔
تیسری بار جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بقیع میں تشریف فرما تھے، وہاں آپ اپنے کسی صحابی کی تدفین میں شریک تھے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھے ہوئے دیکھا، اس وقت آپ کے جسم پر دو چادریں تھیں، میں نے قریب پہنچ کر سلام کیا اور گھوم کر پشت کی جانب آ گیا کہ شاید میں وہ خاتم نبوت دیکھ سکوں جس کو عموریہ میں میرے مرشد نے بتایا تھا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی پشت مبارک کی طرف نظر اٹھائے ہوئے دیکھا تو میرا مقصد سمجھ گئے اور پشت پر سے چادر سرکا دی، میں نے خاتمِ نبوت کو دیکھا اسے پہچانا اور جھک کر اسے بے ساختہ چومنے لگا، اس وقت میری آنکھوں سے خوشی کے آنسو جاری تھے، یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا بات ہے؟‘‘
اور میں نے اپنی پوری اب تک کی کہانی بیان کر دی جس کو سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے اور اس بات سے خوش ہوئے کہ آپ کے اصحاب نے میری زبان سے میری تلاش حق کی داستان سن لی، ان لوگوں نے بھی اس پر انتہائی حیرت و تعجب کا اظہار کیا اور بے حد خوش ہوئے۔ (۱)
سلام ہو سلمان فارسی رضی اللہ عنہ پر جس روز وہ تلاش حق کی راہ میں در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور سلام ہو ان پر جس روز وہ حق سے آگاہ ہوۓ اور سلام ہو ان پر جس روز وہ فوت ہوئے اور جس روز زندہ کر کے دوبارہ اٹھائے جائیں گے ۔ آمین
____________________________
(۱) سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم امام ابن کثیر۱ :۱۹۶-۱۹۹
نوٹ: کسی بھی قسم کی غلطی نظر آئے تو ہمیں ضرور اطلاع کریں۔
ناشر: eSabaq.com
eSabaq.in@gmail.com
zakariyyaachalpuri9008@gmail.com
No comments yet.