حضرت سعید بن عامر جمحی رضی اللہ عنہ سلسلہ نمبر ۱


حضرت سعید بن عامر جمحی رضی اللہ عنہ 

سلسلہ نمبر ۱

اللہ کے نبی ﷺ کے صحابہ کی تڑپا دینے والی زندگیاں ????
مؤلف: علامہ عبدالرحمن رافت الباشا 
مترجم: مولانا اقبال احمد قاسمی 
مرتب: عاجز: محمد زکریّا اچلپوری الحسینی  
=•=•=•=•=•=•=•=•=•=•=•=•=•=•=

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
جناب سعید بن عامر جمحی رضی اللہ  عنہ 
نوجوان سعید بن عامر رضی اللہ عنہ  ہزاروں انسانوں میں سے ایک تھے جو سرداران قریش کی دعوت پر مکہ سے باہر مقام تنعیم پر صحابی رسول جناب خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ  کے قتل کا تماشا دیکھنے کے لیے اکٹھا ہوئے تھے جن کو کفار نے غداری سے گرفتار کیا تھا۔
وہ اپنی بھر پور جوانی اور پرجوش شباب کے بل پر مجمع کو ڈھکیلتے اور اس میں سے اپنے لیے راستہ بناتے ہوئے ابوسفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ جیسے روساء قریش کے پہلو بہ پہلو جا کھڑے ہوئے جواس مجمع  میں نمایاں مقام پر کھڑے تھے۔ اس طرح اسے اس بات کا موقع ملا کہ وہ قریش کے قیدی کو دیکھ سکے جو وہاں پا یہ زنجیر لایا گیا تھا جس کو قریش کی عورتیں، بچے اور جوان ڈھکیلتے ہوئے موت کے میدان کی طرف لارہے تھے تا کہ اسے قتل کر کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم  سے انتقام لے سکیں اور غزوه بدر میں مارے جانے والے اپنے اعزہ واقارب کا بدلہ چکا سکیں۔
جب یہ زبردست ہجوم اپنے قیدی کو لیے ہوئے اس جگہ پہنچ گیا جو اس کے قتل کے لیے بنائی گئی تھی تو نوجوان سعید بن عامر ایک جگہ رک کر ہجوم کے درمیان سے جناب خبیب رضی اللہ عنہ  کو دیکھنے لگے انہوں نے دیکھا کہ خبیب کوتخت دار کی طرف لے جایا جارہا ہے۔ اس نے عورتوں اور بچوں کی چیخ پکار اور شوروغل کے درمیان سے ابھرتی ہوئی خبیب رضی اللہ عنہ کی وہ باوقار اور پرسکون آوازسنی جو ان کے پردہ سماعت سے ٹکرائی تھی۔
اگرتم لوگ چاہوتو قتل سے پہلے مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کا موقع دے دو ۔“ پھر سعید نے دیکھے کہ خبیب رضی اللہ عنہ  بن عدی نے قبلہ رو ہو کر دو رکعتیں پڑھیں ۔ آہ! کیسی حسین اورکتنی مکمل  تھیں وہ دو رکعتیں۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ خبیب رضی اللہ عنہ نے زعماء قریش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
واللہ! اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم میرے متعلق اس بدگمانی میں مبتلا ہو جاؤ گے کہ میں موت سے ڈر کر نماز کو طول دے رہا ہوں تو میں اور لمبی اور اطمینان کے ساتھ نماز پڑھتا۔ (١) 
(١)صحیح  بخاری کتاب المغازی (حدیث/٤٠٨٦)

پھر سعید نے بچشم سر اپنی قوم کے لوگوں کو دیکھے کہ وہ زندہ ہی خبیب رضی اللہ عنہ  کا مثلہ کر رہے ہیں ان کے اعضاء جسم کو یکے بعد دیگرے کاٹ رہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتے جاتے تھے:
کیا تم یہ بات پسند کرو گے کہ اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  تمہاری جگہ یہاں ہوتے اورتم اس تکلیف سے نجات پاجاتے۔‘‘
تو خبیب رضی اللہ عنہ  نے جواب دیا ( اور اس وقت ان کے جسم سے بے تحاشا خون بہہ رہا تھا) ”اللہ کی قسم! مجھے تو اتنا بھی گوارا نہیں کہ میں امن و اطمینان کے ساتھ اپنے اہل وعیال میں رہوں اور اللہ کے نبی ﷺ کے پاؤں کے تلوے میں ایک کا نٹابھی چبھ جائے ۔‘‘(٢) 
(٢) (سیرت ابن ہشام مترجم -صفحہ٤٠)

اور یہ سنتے ہی لوگوں نے اپنے ہاتھوں کو فضا میں بلند کرتے ہوئے چیخنا شروع کر دیا۔
’’مارڈالو اسے، قتل کردو اسے۔
پھرسعید بن عامر کی آنکھوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ خبیب رضی اللہ  عنہ  نے تخت دار سے اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا: اللهم احصهم عددا. و اقتلهم بددا ولا تغادر منهم احدا۔
اے اللہ! انہیں ایک ایک کر کے گن لے۔ انہیں منتشر کر کے ہلاک کر اور ان میں سے کسی کو نہ چھوڑ ‘(٣)

(٣)صحیح بخاری ،کتاب المغازی (حدیث۴۰۸۲٦)

پھر انہوں نے آخری سانس لیا اور روح پاک اپنے رب کے حضور پہنچ گئی۔ اس وقت ان کے جسم پرتلواروں اور نیزوں کے ان گنت زخم تھے۔
اس کے بعد قریش مکہ لوٹ آئے اور بڑے بڑے واقعات و حادثات کے ہجوم میں خبیب رضی اللہ عنہ  اور ان کے قتل کا واقعہ ان کے ذہنوں سے اوجھل ہو گیا۔ لیکن نوجوان سعید بن عامرجمحی خبیب رضی اللہ عنہ  کی مظلومیت اور ان کے درد ناک قتل  کے اس دل خراش منظر کو اپنے لوح ذہن سے ایک لمحہ کے لیے محو نہ کر سکا وہ سوتے تو خواب میں ان کو دیکھتے اور عالم بیداری میں اپنے خیالات میں ان کو موجود پاتے۔ یہ منظر ہر وقت اس کی نگاہوں کے سامنے رہتا کہ خبیب رضی اللہ عنہ  تختۂ دار کے سامنے بڑے سکون و اطمینان کے ساتھ کھڑے دو رکعتیں ادا کر رہے ہیں ۔ اور ان کے پردہ سماعت سے ہر وقت ان کی وہ درد بھری آواز ٹکراتی رہتی۔ جب وہ قریش کے لیے بد دعا کر رہے تھے اور ان کو ہر وقت اس بات کا ڈر لگا رہتا کہ کہیں آسمان سے کوئی بجلی یا کوئی چٹان گر کر انہیں ہلاک نہ کردے۔ پھر خبيب رضی اللہ عنہ  نے سعید کو وہ باتیں بتا دیں جو پہلے سے ان کے علم میں نہ تھیں۔ خبیب رضی اللہ عنہ  نے انہیں بتایا کہ حقیقی زندگی یہی ہے کہ آدمی ہمیشہ سچےعقیدے کے ساتھ چمٹا رہے اور زندگی کی آخری سانس تک اللہ کی راہ میں جدوجہد کرتا رہے۔ خبیب رضی اللہ عنہ نے سعید کو یہ بھی بتا دیا کہ ایمان راسخ کیسے کیسے حیرت انگیز کارنامے انجام دیتا ہے اور اس سے کتنے محیر العقول افعال ظہور پذیر ہوتے ہیں ۔ خبیب رضی اللہ عنہ  نے سعید کو ایک اور بڑی اہمت حقیقت سے آگاہ کیا کہ وہ شخص جس کے ساتھی اس سے اس طرح ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں۔ واقعی برحق رسول اور سچا نبی  ہے اور اسے آسمانی مدد حاصل ہے۔
اور اس وقت اللہ تعالی نے سعید بن عامر کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیا۔ وہ قریش کی ایک مجلس  میں پہنچے اور وہاں کھڑے ہو کر انہوں نے قریش اور ان کے کالے کرتوتوں سے اپنی بے تعلق ونفرت اور ان کے معبودان باطل سے اپنی بے زاری و برأت اور اپنے دخول اسلام کا برملا اورکھلم کھلا اعلان کر دیا۔
اس کے بعد جناب سعید بن عامر رضی اللہ عنہ  مدینہ ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے اور مستقل طور پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی صحبت اختیار کرلی ۔ اور غزوہ خیبر اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہمرِکاب رہے اور جب نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے رب کے جوار رحمت میں منتقل ہو گئے تو جناب سعید بن عامر رضی اللہ عنہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دونوں خلفاء جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں میں شمشیر برہنہ بن گئے اور انہوں نے اپنی تمام جسمانی اور نفسانی خواہشات کو الله تعالی کی مرضیات کے تابع کر کے اپنی زندگی کو اس مومن صادق کی زندگی کا نادر اور بے مثال نمونہ بنا کر پیش کیا جس دنیوی عیش وعشرت کےعوض آخرت کی ابدی ولافانی کامیابی وفائزالمرامی کاسودا کرلیاہو. 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ دونوں جانشین ان کی نصیحتوں کو بہت غور سے سنتے اور ان کی باتوں پر پورا پورا دھیان دیتے تھے۔ ایک بار وہ جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کے دور خلافت کے ابتدائی ایام میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نصیحت کرتے ہوئے ان سے کہا:
جناب عمر ( رضی اللہ عنہ ) میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ رعایا کے بارے میں ہمیشہ اللہ تعالی سے ڈرتے رہیے اور اللہ تعالی کے معاملہ میں لوگوں کا کوئی خوف نہ کیجئے۔ اور آپ کے اندر قول وعمل کا تضاد نہ پایا جائے بہترین قول وہی ہے جس کی تصدیق عمل سے ہوتی ہو۔“ انہوں نے سلسلہ گفتگو کوآگے بڑھاتے ہوئے فرمایا:
جناب عمر (رضی اللہ عنہ )! دور و نزدیک کے ان تمام مسلمانوں پر ہمیشہ اپنی توجہ مرکوز رکھیے جن کی ذمہ داری اللہ تعالی نے آپ پر ڈالی ہے اور ان کے لیے وہی باتیں پسند کیجیے جو آپ خود اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لیے پسند کرتے ہیں اورحق کی راہ میں بڑے سے بڑے خطرے کی بھی پرواہ نہ کیجئے  اور اللہ کےبارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کو خاطر میں نہ لا ئیے“ 
جناب سعید( رضی اللہ عنہ )!یہ سب کسی کے بس کی بات ہے؟
جناب عمر رضی اللہ عنہ  نے ان کی یہ باتیں سن کر فرمایا:
یہ آپ جیسے شخص کے بس کی بات ہے جس کو الله تعالی نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا زمہ دار بنایا ہے جس کے اور اللہ کے درمیان کوئی دوسرا حائل نہیں ہے۔ جناب سعید رضی اللہ عنہ  نے کہا۔
اس گفتگو کے بعد خلیفہ رضی اللہ عنہ  نے جناب سعید بن عامر رضی اللہ عنہ  سے حکومت کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں تعاون کی خواہش ظاہر کی اورفرمایا
جناب سعید ( رضی اللہ عنہ ) میں آپ کو حمص کا گورنر بنا رہا ہوں ۔
عمر (رضی اللہ عنہ ) میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، مجھے آزمائش میں نہ ڈالیے۔‘‘ جناب (سعید رضی اللہ عنہ نے جوابا عرض کیا.)
ان کا یہ جواب سن کر جناب عمر رضی اللہ عنہ  نے قدرے خفگی کا اظہارکرتے ہوئے فرمایا:
اللہ تعالی تمہارا بھلا کرے تم لوگ حکومت کی بھاری ذمہ داریاں میرے سرڈال کر خود اس سے کنارہ کش ہو جانا چاہتے ہو ۔ اللہ کی قسم ! میں تم کو ہرگزنہیں چھوڑسکتا.
پھر جناب عمر رضی اللہ عنہ  نے حمص کی گورنری ان کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا:
میں تمہارے لیے تنخواہ نہ مقرر کر دوں؟‘‘
امیر المومنین! مجھے اس کی ضرورت نہیں ۔ بیت المال سے جو وظیفہ مجھے ملتا ہے وہ میری ضروریات سے فاضل ہے جناب سعید رضی اللہ عنہ  نے کہا۔ اور وہ حمص  کے لیے روانہ ہو گئے۔
اس کے کچھ ہی دنوں کے بعد اہل حمص کے کچھ قابل اعتماد لوگوں پر مشتمل ایک وفد جناب عمر رضی اللہ عنہ  کی خدمت میں باریاب ہوا۔ جناب عمر رضی اللہ عنہ  نے ان سے فرمایا کہ مجھے اپنے یہاں کے فقراء اور حاجت مندوں کے نام لکھ کر دو تا کہ میں ان کی ضروریات کی تکمیل کا کوئی بندوبست
کر دوں تعمیل حکم میں انہوں نے خلیفہ کے سامنے جو فہرست پیش کی اس میں تھا۔ فلاں ابن فلاں اور فلاں ابن فلاں اور سعید بن عامر۔
سعید بن عامر؟ کون سعید بن عامر ؟‘‘جناب عمر رضی اللہ عنہ  نے حیرت سے پوچھا۔ ہمارے گورنر ارکان وفد نے جواب دیا۔ تمہارا گورنر؟ کیا تمہارا گورنرفقیر ہے؟‘‘ جناب عمر رضی اللہ عنہ  نے مزید حیرت سے پوچھا۔
جی ہاں امیر المومنین! اللہ کی قسم! کتنے ہی دن ایسے گزر جاتے ہیں کہ ان کے گھر میں آگ نہیں جلتی۔ وفد نے مزید وضاحت کی۔
یہ سن کر جناب عمر رضی اللہ عنہ  رو پڑے۔ وہ دیر تک روتے رہے حتی کہ ان کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی، پھر وہ اٹھے اور ایک ہزار دینارایک تھیلی میں رکھ کر اسے ارکان وفد کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا:
"سعید سے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ امیر المومنین نے یہ مال آپ کے لیے بھیجا ہے تا کہ آپ اس سے اپنی ضرورتیں پوری کریں ۔ وفد کے لوگ دیناروں کی وہ تھیلی لے کر جناب سعید رضی اللہ عنہ  کی خدمت میں پہنچے اور اسے ان کے سامنے پیش کر دیا۔ انہوں نے اس تھیلی اور اس میں رکھے ہوئے دیناروں کو اپنے سے دور ہٹاتے ہوئے فرمایا: اناللہ وانا الیہ راجعون جیسے ان کے اوپر کوئی بڑی مصیبت نازل ہوگئی ہو۔ آواز سن کر ان کی بیوی گھبرائی ہوئی ان کے پاس آئیں اور بولیں:
سعید ! کیا بات ہے؟
کیا امیرالمومنین کا انتقال ہوگیا؟‘‘
نہیں !اس سے بھی بڑا حادثہ پیش آیا ہے۔ جناب سعید رضی اللہ عنہ  کہا۔
کیا کسی جنگ میں مسلمانوں کو شکست ہوگئی ہے؟‘ اہلیہ نے سوال کیا۔
نہیں اس سے بھی بڑی افتاد پڑی ہے؟‘جناب سعید رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔
اس سے بڑی افتاد کیا ہوسکتی ہے؟‘‘ بیوی نے پھر پوچھا۔
دنیا میرے
گھر میں داخل ہوگئی ہے تا کہ میری آخرت کو تباہ کر دے۔“ جناب سعید رضی اللہ عنہ  نے تشویشناک لہجے میں جواب دیا۔
اس سے چھٹکارا حاصل کر لو۔ بیوی نے ہمدردانہ مشورہ دیا۔
ابھی تک وہ دیناروں کے متعلق کچھ نہیں جانتی تھیں)۔
کیاتم اس معاملے میں میری مدد کرسکتی ہو؟ جناب سعید رضی اللہ عنہ  نے پوچھا۔ 
ہاں! کیوں نہیں ۔ بیوی نے جواب دیا۔
پھر جناب سعید رضی اللہ عنہ  نے تمام دیناروں کو بہت سی چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں رکھ کر انہیں غریب اور حاجت مند مسلمانوں میں تقسیم کروا دیا۔
اس بات کو ابھی کچھ زیادہ دن نہیں ہوئے تھے کہ جناب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  شام کے دورے پر وہاں کے حالات معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے۔ اس دورے میں جب آپ حمص پہنچے  (اس زمانے میں حمص کو کویفہ بھی کہا جاتا تھا اس لیے کہ وہاں کے باشندے بھی اہل کوفہ کی طرح اپنے مال اور حکام کی بہ کثرت شکایتیں کرنے میں مشہور تھے ) تو جب اہل حمص خلیفہ سے سلام و ملاقات کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو خلیفہ نے ان سے دریافت کیا کہ تم نے اپنے ص 15
اس نئے امیر کو کیسا پایا؟ جواب میں انہوں نے امیر المومنین کے سامنے جناب سعید بن عامر رضی اللہ عنہ 
کی چار شکایتیں پیش کیں جن میں سے ہر ایک شکایت دوسرے سے بڑی تھی جناب عمر رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ:.
”میں نے ان کو اور سعید ( رضی اللہ عنہ ) کو ایک جگہ اکٹھا کیا اور اللہ تعالی سے دعا کی کہ وہ سعید (رضی اللہ عنہ) کے متعلق میرے حسن ظن کو صدمہ نہ پہنچاۓ کیونکہ میں ان کے متعلق بہت زیادہ خوش گمان تھا۔ جب شکایت کرنے والے اور ان کے امیر سعید بن عامر میرے پاس یکجا ہو گئے تو میں نے دریافت کیا کہ تم کو اپنے امیر سے کیا شکایت ہے؟‘‘
جب تک خوب دن نہیں چڑھ آتایہ اپنے گھر سے باہر نہیں نکلتے معترضین نے کہا۔
میں نے سعید سے دریافت کیا کہ سعید (رضی اللہ عنہ )!تم اس شکایت کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ سعید رضی اللہ عنہ  تھوڑی دیر خاموش رہے پھر بولے: اللہ کی قسم! میں اس بات کو ظاہرنہیں کرنا چاہتا تھا مگر اس کو ظاہر کئے بغیر چارہ نہیں ہے بات یہ ہے کہ میرے گھر میں کوئی خادمہ نہیں ۔ اس لیے ذرا سویرے اٹھتا ہوں تو پہلے آ ٹا گوندھتا ہوں پھر تھوڑی دیر انتظار کرتا ہوں تا کہ اس کا خمیر اٹھ جائے۔ پھر روٹیاں پکاتا ہوں۔ اس کے بعد وضو کر کے لوگوں کی ضرورت کے لیے باہر نکلتا ہوں۔
میں نے اہل حمص سے پوچھا کہ تمہاری دوسری شکایت کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ رات کے وقت کسی کا جواب نہیں دیتے میں نے پوچھا سعید اس شکایت کے متعلق تم کیا کہنا چاہتے ہو تو انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم ! میں اس بات کو بھی ظاہر کرنا پسند نہیں کرتا تھا میں نے دن کے اوقات ان لوگوں کے لیے اور رات کے اوقات اپنے رب کے لیےمخصوص کر رکھے ہیں۔
میں نے معترضین سے کہا: اب تم اپنی تیسری شکایت بیان کرو۔ انہوں نے کہا کہ یہ مہینے میں ایک بار دن بھر گھر سے باہرنہیں نکلتے۔ میں نے دریافت کیا کہ ”سعید!تم اس شکایت کا کیا جواب دیتے ہو؟“ سعید رضی اللہ عنہ  نے کہا:
امیر المؤمنین!میرے پاس کوئی خادم نہیں اور جسم کے کپڑوں کے سوا میرے پاس اور کوئی کپڑا نہیں ۔ میں ان کو مہینے میں صرف ایک بار دھوتا ہوں اور ان کے خشک ہونے کا انتظار کرتا ہوں اور سوکھنے کے بعد دن کے آخری حصے میں انہیں پہن کر باہرآ تاہوں۔
میں نے معترضین سے کہا کہ اب تم اپنی آخری شکایت بیان کرو ۔ انہوں نے کہا کہ ان کو ره رہ کر غشی کے دورے پڑتے ہیں اور یہ اپنے گردوپیش سے بے خبر ہو جاتے ہیں۔
میں نے کہا: "سعید ( رضی اللہ عنہ  )! تمہارے پاس اس شکایت کا کیا جواب ہے؟ انہوں نے جواب دیا: "میں خبیب بن عدی کے قتل کے وقت موقع پر موجود تھا اور اس وقت میں مشرک تھا۔ میں نے قریش کو دیکھا کہ وہ ان کے جسم کا ایک ایک عضو کا ٹتے جاتے اور ساتھ ہی یہ کہتے جاتے کہ کیا تم یہ پسند کر تے ہو کہ آج تمہاری جگہ پر محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  ہوتے اورتم اس تکلیف سے نجات پا جاتے؟
تو وہ جواب دیتے کہ اللہ کی قسم! مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ میں اطمینان و سکون کے ساتھ اپنے اہل وعیال میں رہوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے تلووں میں ایک پھانس بھی لگ جائے۔
(حوالہ:سیرت ابن ہشام مترجم _صفحہ ٤٠١)

اللہ کی قسم !جب مجھ کو وہ منظر یاد آتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی یاد آتا ہے کہ میں نے اس وقت ان کی مدد کیوں نہ کی تو مجھے اس بات کا شدید خطرہ لاحق ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالی میری اس کوتاہی کو ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ اور اسی وقت میرے اوپر غشی طاری ہو جاتی ہے۔ یہ سن کر میں نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے سعید ( رضی اللہ عنہ  ) کے متعلق میرے حسن ظن کوصدمہ نہیں پہنچنے دیا۔
اس کے بعد جناب عمر رضی اللہ عنہ  نے ان کے لیے ایک ہزار دینار بھیجے تا کہ ان سے وہ اپنی ضروریات پوری کریں۔ جب ان کی اہلیہ نے ان دیناروں کو دیکھا تو بولیں کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہم کو آپ کی خدمات سے بے نیاز کر دیا۔ اب آپ اس رقم سے ہمارے لیے ایک غلام اور ایک خادمہ خرید دیجئے ۔ یہ سن کر جناب سعید رضی اللہ عنہ  نے کہا:
کیا تم کو اس سے بہتر چیز کی خواہش نہیں؟ اس سے بہتر؟ اس سے بہتر کیا چیز ہے؟ (اہلیہ نے پوچھا۔) 
یہ رقم ہم اس کے پاس جمع کر دیں جو اسے ہم کو اس وقت واپس کردے جب ہم اس کے زیادہ ضرورت مند ہوں۔ (جناب سعید رضی اللہ عنہ  نے بات سمجھائی۔) 
اس کی کیا صورت ہوئی؟ (اہلیہ نے وضاحت چاہی۔) جناب سعید رضی اللہ عنہ  نے کہا کہ ہم یہ رقم الله تعالی کو قرض حسن دے دیں“ اہلیہ نے کہا: ہاں یہ بہتر ہے اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔“
پھر جناب سعید نے اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے ان تمام دیناروں کو بہت سی تھیلیوں میں رکھ کر اپنے گھر کے ایک آدمی سے کہا کہ انہیں فلاں قبیلے کی بیواؤں، فلاں قبیلے کے یتموں فلاں قبیلے کے مسکینوں اور فلاں قبیلے کے حاجت مندوں میں تقسیم کر دو۔
اللہ تعالی جناب سعید بن عامرجمحی رضی اللہ عنہ  سے راضی ہو (آمین یارب العالمین ) وہ ان لوگوں میں سے تھے جو خودمحتاج اور ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے۔     (دوسری قسط جلد ہی ان شاءالله) 

 

نوٹ:  کسی بھی قسم کی غلطی نظر آئے تو ہمیں ضرور اطلاع کریں۔ 

ناشر: eSabaq.com

eSabaq.in@gmail.com
zakariyyaachalpuri9008@gmail.com

تبصرہ کریں

تبصرہ

No comments yet.