حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ


سلسلہ نمبر ۷
جناب ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ
صور من حیاۃ الصحابہ ؓ
صحابۂ رسول ﷺ کی تڑپا دینے والی زندگیاں
مؤلف: علامہ عبدالرحمن رافت الباشا
مترجم: مولانا اقبال احمد قاسمی
مرتب: عاجز: محمد زکریّا اچلپوری الحسینی
✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۶ ہجری میں دعوت دین کے دائرے کو وسیع کرنے کا ارادہ فرمایا۔ اس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب قوم کے حکمرانوں کو آٹھ دعوتی خطوط لکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حکمرانوں کے پاس یہ خطوط ارسال فرمائے تھے ان میں سے ایک ثمامہ ابن اثال حنفی بھی تھے۔ ثمامہ کو اہم حکمرانوں میں شامل کرنا اور ان کے یہاں دعوتی خطوط روانہ کرنا حیرت انگیز اور قابل تعجب اس لئے نہیں تھا کہ وہ نہایت با اثر اور اہم شخصیت کے مالک تھے۔ وہ دورِ جاہلیت میں عرب کے ایک حکمران بنوحنیفہ کے ایک ذی اثر رئیس اور علاقہ یمامہ کے ان بادشاہوں میں سے تھے جن کی کوئی بات ٹھکرائی نہیں جاتی تھی۔
جب ثمامہ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچا تو اس نے ان کے ساتھ نہایت توہین آمیز اور غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنایا۔ جھوٹے انانیت اور جاہلانہ غرور نے اس کو گناہ پر جمادیا اور اس نے دعوت حق سے اپنے کان بند کر لئے۔ پھر شیطان اس پر سوار ہو گیا اور برابر اسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کر کے ان کی دعوت کو نیست و نابود کر دینے پر ابھارتا رہا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بے خبری کی حالت میں اچانک حملہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تمام کر دینا چاہتا تھا اور اپنے اس ناپاک منصوبے کی تکمیل کے لئے وہ کسی مناسب موقع کا انتظار کرنے لگا اگر اس کے چچانے عین وقت پر اس کو اس منصوبے پرعمل کرنے سے روک نہ دیا ہوتا تو اس کا یہ گھناؤنا جرم شاید پایہ تکمیل کو پہنچ گیا ہوتا۔
مگر الله تعالی نے اپنے نبی کو اس کے شر سے محفوظ رکھا۔ ثمامہ اگر چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادہ سے باز آ گیا لیکن وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو قتل کرنے کے ارادے سے دست بردارنہیں ہوا۔ وہ برابر ان کی تاک میں لگارہا۔ آخر کار وہ چند صحابہ پر قابو پانے میں کامیاب ہوگیا اور ان کو نہایت دردناک طریقے سے قتل کر ڈالا۔ (انا للہ واناالیہ راجعون) اس وجہ سے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے صحابہ میں اس بات کا اعلان فرما دیا کہ وہ جہاں کہیں ملے قتل کردیا جائے صحابہ رضی اللہ عنہم کے قتل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلان کے کچھ ہی دنوں بعد ثمامہ نے عمرہ ادا کرنے کا ارادہ کیا اور اس ارادے سے وہ اپنے علاقے یمامہ سے مکہ کی سمت روانہ ہوا۔ وہاں پہنچ کر وہ کعبہ کا طواف اور اس میں رکھے ہوئے بتوں کے لئے قربانی کا ارادہ رکھتا تھا۔ لیکن اپنے اس سفر کے دوران میں وہ مدینہ کے قریب ایک راستے سے گزرتے ہوئے اچانک ایک ایسی آفت میں پھنس گیا جس کا اسے وہم و گمان تک نہیں تھا۔ ہوا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے کچھ مسلمانوں پر مشتمل ایک فوجی دستے نے جو اس خطرے کے پیش نظر کہ کہیں کوئی شر پسند رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھا کر مدینہ کے باشندوں کو نقصان نہ پہنچا دے ثمامہ کو دیکھا اور اسے گرفتار کرلیا (حالانکہ ان میں سے کوئی بھی اس کو پہچانتا نہ تھا) اور اس کو مدینہ لائے اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا اور اس بات کا انتظار کرنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس اس قیدی کے حالات سے واقفیت حاصل کر کے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ صادر فرمائیں گے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے مسجد کی طرف آئے اور اس میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ثمامہ پر پڑی جوستون سے بندھا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا: ’’
جانتے ہوتم لوگوں نے کسی کو گرفتار کیا ہے؟
صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: نہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم اس سے واقف نہیں ہیں ۔
یہ قبیلہ بنی حنیفہ کا سردار ثمامہ ابن اثال ہے۔ اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس گھر تشریف لے گئے اور گھر والوں سے کہا کہ تمہارے
پاس جو بھی کھانا ہو اسے جمع کر کے ثمامہ بن اثال کے پاس بھیج دو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ میری اونٹنی کا دودھ صبح وشام دوھ کر اس کو پیش کیا جائے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ثمامہ کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے خیال سے اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے پوچھا کہ
ثمامہ ! تمہارا کیا خیال ہے۔ تم ہماری طرف سے کس قسم کے سلوک کی توقع رکھتے ہو۔“
اس نے جواب دیا۔
میں آپ کے متعلق اچھا گمان اور آپ سے اچھے برتاؤ کی امید رکھتا ہوں لیکن اگر آپ میرے قتل کا فیصلہ کرتے ہیں تو ایک ایسے شخص کوقتل کرائیں گے جوقتل کا مجرم ہے اور اگر احسان کر کے مجھے چھوڑ دیں تو ایک احسان کرنے والا اپنا ممنون کرم پائیں گے اور اگر آپ کو مال کی خواہش ہے تو وہ بھی فرمایئے ۔ جتنا مال چاہیں گے دیا جائے گا ۔ اس گفتگو کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ کو اس کے حال پر چھوڑا اور دو روز تک اس سے کوئی روک ٹوک نہیں کیا۔ اس دوران اس کے پاس حسب معمول کھانے پینے کی چیزیں اور اوٹنی کا دودھ برابر پہنچتارہا. دو دن بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر اس کے پاس تشریف لائے اور وہی سوال کیا:
ثمامہ ! تمہارا کیا خیال ہے۔ تم ہم سے کس سلوک کی توقع رکھتے ہو؟“
اس نے جواب دیا:
میرے پاس کہنے کی وہی باتیں ہیں جو اس سے پہلے میں کہہ چکا ہوں۔ اگر آپ میرے اوپر احسان کرتے ہیں تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو اس کی قدر پہچانتا ہے اور اگر میرے قتل کا فیصلہ کرتے ہیں تو آپ کا یہ فیصلہ حق بہ جانب ہوگا کیونکہ میں آپ کے آدمیوں کو قتل کر کے اس کا مستحق قرار پا چکا ہوں اور اگر آپ کو مال کی خواہش ہے تو بتائیے جو چاہیں گے آپ کو پیش کیا جائے گا۔
اس موقع پر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے مزید کچھ نہیں کہا بلکہ اس کو چھوڑ کر چلے گئے ۔ البتہ اگلے روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم
پھر اس کے پاس گئے اور پھر وہی سوال دوہرایا۔ ثمامہ ! تم کو ہماری طرف سے کس برتاو کی امید ہے؟ اور اس نے بھی حسب سابق وہی جواب دیا کہ
اگر آپ میرے اوپر احسان کرتے ہیں تو ایک احسان شناس شخص پر احسان کریں گے اور اگر مجھے قتل کرادیتے ہیں تو میں اس کا مستحق ہوں اور اگر آپ کو مال کی ضرورت ہوتو فرمایئے۔ آپ کا مطلوبہ مال میں آپ کو پیش کردوں گا۔“
اس سوال و جواب کے بعد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے صحابہ کو کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ثمامہ کو رہا کردو‘ اور حسب ارشاد اس کی زنجیریں کھول دی گئیں ۔ رہائی پا کر ثمامہ مسجد سے نکلا اور مدینہ کے باہربقیع کے قریب واقع کھجوروں کے ایک باغ میں گیا جس میں کنواں تھا۔ اپنی سواری کو اسی کنویں کے پاس بٹھا کر اس کے پانی سے خوب اچھی طرح غسل کیا اور پاک صاف ہو کر پھر اسی راستے سے چل کر مسجد میں واپس آ گیا۔ اس نے مسجد میں مسلمانوں کی ایک مجلس کے قریب پہنچ کر بہ آواز بلند کلمہ شہادت پڑھ کر اپنے اسلام کا اعلان کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر بولا :
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم روئے زمین پر کوئی چہرہ میرے نزدیک آپ کے چہرے سے زیادہ مبغوض اور قابل نفرت نہ تھا۔ مگر اب یہ مجھے ہر چہرے سے زیادہ محبوب ہے اور اللہ کی قسم! آپ کے دین سے زیادہ قابل نفرت میرے نزدیک کوئی دین نہ تھا۔ لیکن اب یہ مجھے تمام ادیان سے زیادہ پسندیدہ ہے اور اللہ کی قسم ! آپ کے شہر سے زیادہ ناپسندیدہ میرے نزدیک کوئی دوسرا شہر نہیں تھا مگر اب آپ کا یہ شہر مجھے تمام شہروں سے زیادہ پسند ہے۔“ (۱)
. تھوڑی دیر رک کر پھر بولے:
میں نے آپ کے کچھ ساتھیوں کو قتل کیا ہے۔ اس کی تلافی کے لئے آپ میرے اوپر کیا عائد کرتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ثمامہ !اس سلسلے میں تمہارے اوپر نہ قصاص ہے نہ دیت۔ کیونکہ اسلام نے تمہاری تمام سابقہ زیادتیوں اور غلط کاریوں کو حرف غلط کی طرح مٹادیا ہے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام لانے کی وجہ سے جنت کی خوشخبری دی۔ ان کا چہرہ فرط مسرت سے چمک اٹھا۔ کہنے لگے کہ ”اللہ کی قسم میں نے آپ کے جتنے صحابہ کو قتل کیا ہے اس سے کئی گنا تعداد میں مشرکین کوقتل کروں گا ۔ اور اپنی ذات کو اپنی تلوار کو اور ان لوگوں کو جو میرے ماتحت اور ہم نوا ہیں آپ کی اور آپ کے دین کی نصرت وتائید کے لئے وقف کرتا ہوں۔“
بینا تاخیر پھر کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کے سواروں نے مجھے اس وقت گرفتار کیا تھا جب میں عمرہ کی نیت سے نکلا تھا۔ تو آپ کے خیال میں اب مجھے اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے؟ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشادفرمایا کہ تم مکہ جا کر عمرہ ادا کر لو۔(۲) مگر یہ عمرہ اب تم اللہ اوراس کے رسول کی شریعت کے مطابق ادا کرو گے۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسک حج اور افعال عمرہ کی تعلیم دی۔
جناب ثمامہ ابن اثال رضی اللہ عنہ عمرہ کی ادائیگی کے لئے روانہ ہوئے جب بطن مکہ میں پہنچے تو وہیں کھڑے ہو کر بلند آواز سے تلبیہ پڑھنا شروع کردیا
لبيك اللھم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك (۳)
میں حاضر ہوں اے اللہ! میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ بیشک ساری تعریفیں اور تمام نعمتیں تیرے لئے ہیں اور اقدار تیرا ہے تیرا کوئی شریک نہیں
وہ دنیا کے سب سے پہلے مسلمان تھے جوتلبیہ پڑھتے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے تھے۔ قریش کے لوگ اس ناگہانی اور غیر متوقع آواز کو سن کر سہم گئے اور غضبناک ہو کر دوڑے انہوں نے اپنی تلواریں بے نیام کر لیں۔ اس آواز کی طرف لپکے تا کہ اس شخص پر ٹوٹ پڑیں جوان کے احاطے میں گھس آیا تھا۔ وہ لوگ ثمامہ رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھے تو انہوں نے تلبیہ کی آواز اور تیز کر دی ۔ وہ ان کی طرف نہایت لا پرواہی اور بے خوفی کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔ ایک قریشی جوان نے تیر چلا کر ان کو قتل کرنا چاہا مگر دوسروں نے اس کو یہ کہتے ہوئے ایسا کرنے سے روک دیا کہ تیرا برا ہو۔ جانتا ہے کہ یہ کون ہے؟ یہ یمامہ کا بادشاہ ثمامہ ابن اثال ہے۔ اگر تم نے اس کو کوئی نقصان پہنچایا تو اس کے قبیلے والے ہمارے یہاں غلے کی برآمد روک کر ہم کو بھوکا مار دیں گے۔ پھر وہ لوگ اپنی تلواریں میان میں کر کے جناب ثمامہ رضی اللہ عنہ کے سامنے آئے اور ان سے بولے:
ثمامہ! یہ تم کو کیا ہوگیا ہے؟ کیا تم بے دین ہو گئے؟ اور تم نے اپنا اور اپنے آبا و اجداد کا دین ترک کردیا ہے؟‘‘
جناب ثمامہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا
نہیں میں بے دین نہیں ہوا بلکہ میں نے سب سے اچھے دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی پیروی اختیار کرلی ہے۔
اس کے بعد انہوں نے کہا کہ
اس گھر والے کی قسم ! میرے واپس جانے کے بعد یمامہ کے گیہوں کا ایک دانہ اور وہاں کی پیداوار کا کوئی حصہ اس وقت تک تمہارے یہاں نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ تم سب کے سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہ اختیار کرلو۔‘‘(۴)
جناب ثمامہ رضی اللہ عنہ نے قریش کی آنکھوں کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمرہ کے ارکان ادا کئے۔ انہوں نے غیر اللہ اور بتوں کے لئے نہیں، اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے قربانی کے جانور ذبح کئے اور واپس اپنے وطن گئے۔ واپس آ کر انہوں نے اپنے قبیلہ والوں کو قریش کے یہاں غلے کی سپلائی روک دینے کا حکم دیا۔ قبیلہ والوں نے ان کے اس حکم کی تعمیل کی اور اہل مکہ کے یہاں اپنی پیداوار کی سپلائی بند کر دی۔
اقتصادی پابندی جو ثمامہ ابن اثال رضی اللہ عنہ نے قریش کے خلاف لگائی تھی، بتدریج سخت سے سخت تر ہوتی چلی گئی ۔ اس کے نتیجے میں غلے کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہو گیا لوگوں میں فاقہ کشی عام ہوگئی اور ان کی تکلیف اور پریشانی زیادہ بڑھ گئی اور جب نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان کو اپنے اور بال بچوں کے بھوک سے مر جانے کا شدید خطرہ لاحق ہوگیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھا
ہم آپ کے متعلق پہلے سے یہ بات جانتے ہیں کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور دوسروں کو اس کی تاکید کرتے ہیں۔ مگر اس وقت ہم جس صورت حال کا سامنا کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ آپ نے ہمارے ساتھ قطع رحمی کا طرزِ عمل اختیار کر رکھا ہے۔ ثمامہ ابن اثال نے غلے کی برآمد پر پابندی لگا کر ہمیں سخت تکلیف اور پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو اس کو لکھ دیں کہ وہ غلہ وغیرہ ہماری ضرورت کی چیزوں پر عائد کردہ پابندی ختم کر دیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب ثمامہ رضی اللہ عنہ کولکھ دیا کہ وہ قریش کے خلاف پیداوار کی برآمد پر لگائی ہوئی بندش ختم کر دیں ۔ چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق وہ پابندی اٹھائی اور قریش کے یہاں غلے کی سپلائی جاری کر دی۔
جناب ثمامہ ابن اثال رضی اللہ عنہ زندگی بھر اپنے دین کے وفادار اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئے ہوئے عہد کے پابند رہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور اہل عرب اجتمائی اور انفرادی طور پر اللہ کے دین سے نکلنے لگے اور مسیلمہ کذاب نے بوحنیفہ میں نبوت کا جھوٹا دعوی کر کے انہیں اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دینی شروع کی تو جناب ثمامہ رضی اللہ عنہ اس کے سامنے ڈٹ گئے ۔ انہوں نے اپنی قوم کو سمجھایا
کہ بوحنیفہ کے لوگو ! خبردار! اس گمراہ کن دعوت کو ہرگز قبول نہ کرنا جس میں نور ہدایت کا دور دور تک پتہ نہیں۔ اللہ کی قسم! یہ شقاوت و بدبختی ہے جس کو الله تعالی نے ہم میں سے ان لوگوں پر مسلط کیا ہے جو اسے اختیار کریں اور زبردست امتحان و آزمائش ہے ان لوگوں کے لئے جو اس سے اجتناب کریں۔ انہوں نے مزید فرمایا:
بنوحنیفہ والو! ایک وقت میں دو نبی نہیں ہو سکتے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے آخری نبی ہیں ان کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ نہ ان کی نبوت میں کسی کو شریک کیا گیا ہے۔
حم
تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ
غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ (سورہ٤٠/ المؤمن:آیت ١-٣)

حم اس کتاب کا نزول اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست ہے سب کچھ جاننے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے۔ سخت عذاب دینے والا اور بڑا صاحب فضل ہے۔ کوئی معبود اس کے سوا نہیں۔ اس کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔

پھر فرمایا کہ ہاں الله کا یہ عظیم کلام اور کہاں مسیلہ کذاب کا قول: (یاضفدع نقی ما تنقین لا الشراب تمنعين ولا الماء تكدرين)
”اے مینڈک ! تم جتنا چاہوٹرٹر کر تے رہو۔ اپنی اس ٹر ٹرسے نہ تم پینے سے روک سکتے نہ پانی کو گدلا کرسکتے ہو.
پھر وہ اپنے قبیلے کے ان لوگوں کو لے کر الگ ہو گئے جو اسلام پر ثابت قدم رہ گئے تھے اور اللہ کی راہ میں جہاد اور اس کے دین کو زمین پر غالب کرنے کے لئے مرتدین کے ساتھ جنگ و قتال میں مشغول ہو گئے۔
اللہ تعالی جناب ثمامہ ابن اثال رضی اللہ عنہ کو اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے بہترین جزا دے اور اس جنت سے نوازے جس کا وعدہ متقیوں سے کیا گیا ہے۔ آمین یارب العالمین
✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿

(۱)صحیح بخاری کتاب المغازی، حدیث ٤۳۷۲ صحیح مسلم کتاب الجهادباب ربط الاسیر

(۲)صحیح بخاری کتاب المغازی حدیث۳۷۲ /صحیح مسلم کتاب الجهاد باب رابط الاسیر۔

(۳)یہ تلبیہ لبیک کہنے کے مسنون الفاظ صحیح بخاری،کتاب الحج. حدیث ١٥٤٩ میں موجود ہیں۔

(۴) مگر صحیحین میں صرف اسی قدر ہے کہ جب ثمامه رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ پہنچے تو کسی نے ان سے کہا کہ تم بے دین ہو گئے ہو۔ انہوں نے کہا کہ نہیں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو قبول کر کے مسلم ہو گیا ہوں۔ اللہ کی قسم!اب یمامہ سے تمہارے پاس گیہوں کا ایک دانہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر نہیں آئیگا

 

نوٹ:  کسی بھی قسم کی غلطی نظر آئے تو ہمیں ضرور اطلاع کریں۔ 

ناشر: eSabaq.com

eSabaq.in@gmail.com
zakariyyaachalpuri9008@gmail.com

تبصرہ کریں

تبصرہ

No comments yet.