حضرت طفیل بن عمرودوسی رضی اللہ عنہ سلسلہ نمبر ۲


حضرت طفیل بن عمرودوسی رضی اللہ عنہ 

سلسلہ نمبر ۲

صحابۂ رسول ﷺ کی تڑپا دینے والی زندگیاں 

مؤلف: علامہ عبدالرحمن رافت الباشا 

مترجم: مولانا اقبال احمد قاسمی 

مرتب: عاجز: محمد زکریّا اچلپوری الحسینی  

=•=•=•=•=•=•=•=•=•=•=•=•=•=•=•=

 جناب طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ زمانۂ جاہلیت میں قبیلہ دوس کے سردار عرب کے قابل ذکر اشراف اور معدودے چند اصحاب مروت میں سے تھے۔ وہ بڑے مہمان نواز اور صاحب جودوسخا آدمی تھے۔ مہمانوں کی بکثرت آمد کی وجہ سے ان کے یہاں کھانے کی دیگیں ہمیشہ چولہوں پر چڑھی رہیتں اور ان کے دروازے آنے والے مہمانوں کے استقبال کے لیے ہر وقت کھلے رہتے وہ بھوکوں کو کھانا کھلاتے خوف زدہ لوگوں کو امان دیتے اور پناہ طلب کرنے والوں کو اپنی پناہ میں لیتے۔ ان ساری خوبیوں کے علاوہ وہ نہایت باشعور اور زبردست ادیب بڑے نازک خیال اور حساس شاعر اور کلام و بیان کے حسن و قبح اور صحت و سقم کی تمیز میں غیر معمولی درک رکھنے والے نقاد تھے۔

جناب طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ  اپنے قبیلہ کے علاقہ تہامہ کو چھوڑ کر مکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور کفار قریش کے درمیان حق و باطل کی زبردست کشمش بر پاتھی۔ اور فریقین میں سے ہر ایک اپنے اور اپنی جماعت کے لیے اعوان و انصار فراہم کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 

حق و انصاف کے ہتھیار سے کام لے کر لوگوں کو بندگیٔ رب کی دعوت دے رہے تھے اور کفارقریش ہرقسم کے حربے استعمال کر کے اس دعوت کی مخالفت و مزاحمت میں جٹے ہوئے تھے اور لوگوں کو اس سے باز رکھنے کے لیے ایڑی سے چوٹی تک زور لگا رہے تھے۔

مکہ پہنچ کر جناب طفیل رضی اللہ عنہ  نے محسوس کیا کہ وہ کسی تیاری کے بغیر اس معرکہ میں شامل اور بلا قصد وارادہ اس کی موجوں میں داخل ہوتے جارہے ہیں ۔ نہ تو وہ اس مقصد سے مکہ آئے تھے نہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اور قریش کے مابین برپا اس کشمکش کا انہیں وہم و گمان ہی گزرا تھا اس وجہ سے اس کشمکش

سے وابستہ ان کی ناقابل فراموش اور عجیب و غریب داستان سننے سے تعلق رکھتی ہے۔ جناب طفل بن عمرو رضی اللہ عنہ  اس داستان کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ۔

جب میں مکہ پہنچا تو مجھے دیکھتے ہی سرداران قریش میری طرف لپکے اور انہوں نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ میرا استقبال کیا اور مجھے بڑی عزت وتکریم سے نوازا پھر ان کے بڑے بڑے سردار اور سربرآوردہ لوگ میرے گرد جمع ہو گئے اور مجھ سے کہنے لگے طفیل! تم ہمارے شہر میں آئے ہو اوریہ شخص جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے اس نے ہمارا سارا معاملہ خراب کر کے رکھ دیا ہے اس نے ہماری جمعیت کو منتشر اور ہماری جماعت کو پراگندہ کر دیا ہے۔ ہم لوگوں کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں تم کو اور تمہاری قیادت و سرداری کو بھی وہی خطرہ نہ لا حق ہو جائے جس سے ہم لوگ دوچار ہیں ۔ اس لئے تمہارے حق میں یہی بہتر ہے کہ تم نہ تو اس شخص سے کوئی بات کرنا نہ اس کی کوئی بات سننا کیونکہ اس کی باتیں بڑی جادو اثر ہیں اس کی زبان میں بلا کی تاثیر ہے۔ یہ شخص اپنی ان باتوں کے زریعہ سے باپ بیٹے، بھائی بھائی اور شوہر بیوی میں تفریق کردیتا ہے۔ جناب طفیل رضی اللہ عنہ  اپنی کہانی کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں:

’اللہ  کی قسم ! وہ لوگ مسلسل اس شخص کی عجیب و غریب باتیں مجھے سناتے رہے اور اس کے حیرت انگیز کارناموں سے میری ذات اور میری قوم کے متعلق مجھ کو خوفزدہ کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے اس بات کا عزم مصمم کر لیا کہ میں نہ اس شخص سے ملوں گا نہ اس سے کلام کروں گا نہ اس کی کوئی بات سنوں گا اور جب میں خانہ کعبہ کے طواف اور اس میں رکھے ہوئے ان بتوں سے برکت حاصل کرنے کے لیے مسجد حرام میں گیا جن کی ہم تعظیم  وتوقیر کرتے تھے تو اس خوف سے کہ کہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی کوئی بات میرے کانوں میں نہ پڑ جائے میں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی۔ مسجد میں داخل ہوا تو میں نے محمد صلی اللہ علیہ 

کو کعبہ کے پاس کھڑے ہو کر نماز پڑھنے میں مشغول پایا۔ ان کا طریقہ عبادت ہمارے طریقہ عبادت سے مختلف تھا۔ وہ منظر مجھے بہت اچھا لگا اور ان کے عبادت کے اس طریقہ کو دیکھ کر میں فرط مسرت سے جھوم اٹھا اور غیر ارادی طور پر بتدریج ان سے قریب ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ ان کے بالکل نزدیک پہنچ گیا اور اللہ کو یہی منظورتھا کہ ان کی زبان سے نکلنے والےکچھ الفاظ میرے کانوں تک پہنچیں۔ چنانچہ میں نے ان سے ایک بہترین کلام سنا اور اپنے دل میں کہا۔ طفیل تمہاری ماں تمہارے سوگ میں بیٹھے۔ (مطلب تم پر افسوس) تم ایک سمجھدار اور صاحب بصیرت شاعر ہو کلام کا حسن و قبح تم پر مخفی نہیں ہے۔ آخر اس شخص کی باتیں سننے میں کیا چیز تمہارے آڑے آ رہی ہے۔ اگر اس کی باتیں اچھی ہوں گی تو قبول کر لینا اور اگر بری ہوں گی تو انہیں چھوڑ دینا‘‘ جناب طفیل رضی اللہ عنہ  کہانی کی اگلی کڑی اس سے جوڑتے ہوئے کہتے ہیں:

یہ سوچ کر میں وہیں رک گیا۔ جب رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نماز سے فارغ ہو کر اپنے گھر کی طرف لوٹے تو میں بھی ان کے پیچھے پیچھے ہو لیا اور جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو میں بھی ان کے پیچھے اندر چلا گیا اور ان سے کہا کہ اے محمد ؟ آپ کی قوم کے لوگوں نے مجھ کو آپ سے دور رکھنے کے لیے آپ کے متعلق مجھ سے بہت سی ایسی باتیں کہی ہیں وہ مسلسل مجھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دین سے ڈراتے رہے حتی کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی باتیں نہ سننے کا پختہ ارادہ کر لیا اور اپنے کان روئی سے بند کر لیے تا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم 

کی کوئی بات میرے کانوں میں نہ پڑ جائے لیکن یہ اللہ کی مرضی تھی کہ اس نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی باتیں سنائیں اور وہ مجھے بہت پسند آئیں۔ آپ اپنا دین مجھے بتائے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی دعوت میرے سامنے پیش کی اور مجھے دو سورتیں سورہ اخلاص اور سورہ فلق پڑھ کر سنائیں۔ اللہ کی قسم ! اس سے پہلے میں نے اس کلام سے بہتر کوئی کام نہیں سنا تھا نہ ان کی باتوں سے بہتر کوئی بات دیکھی تھی ۔ میں نے اسی وقت اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور کلمہ شہادت پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہو

گیا ۔

 جناب طفیل رضی اللہ عنہ اب داستان کے اس موڑ سے آگے بڑھتے ہیں:

پھر میں بہت دنوں تک مکے میں ٹھہرا رہا۔ اس مدت میں میں نے اسلام کی تعلیمات کو حاصل کیا اور جنتاممکن ہوا قرآن حفظ کیا۔ پھر جب میں نے اپنے قبیلے کی طرف لوٹنے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم   میں اپنی قوم کا سردار ہوں ۔ وہاں میری بات مانی جاتی ہیں اب میں واپس جا کر انہیں اسلام کی دعوت دینا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  الله تعالی سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے کوئی ایسی نشانی عطا فرمادے جو میری دعوت کے لیے ممدو معاون ثابت ہو۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی :اللهم اجعل له أية 

"اے اللہ! طفیل کو کوئی نشانی مرحمت فرمادے۔“ اس کے بعد میں اپنے قبیلے کی طرف چل پڑا یہاں تک کہ جب میں ان کی بستی کے قریب ایک اونچی جگہ پہنچا تو میری دونوں آنکھوں کے درمیان چراغ جیسی ایک روشنی پیدا ہوئی۔ یہ دیکھ کر میں نے دعا کی کہ اے اللہ اس کو چہرے کے علاوہ کی دوسری جگہ منتقل کر دے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ اس کو دیکھ کر سمجھیں گے کہ کوئی سزا ہے جو مجھے اپنے آباء و اجدادکا دین چھوڑنے کے جرم میں ملی ہے۔ تب وہ روشنی وہاں سے منتقل ہو کر میری لاٹھی کے سرے پر آ گئی اور جب میں پہاڑ کی بلندی سے نیچے اتر رہا تھا تو میری لاٹھی  کے سرے پر چمکتی ہوئی وہ روشنی لوگوں کو ایک معلق دل کی طرح نظر آ رہی تھی۔ جب نیچے اتر کر اپنے قبیلے میں پہنچا تو میرے والد صاحب جو بہت ضعیف ہو چکے تھے۔ میرے پاس آئے میں نے ان سے کہا کہ ابا ! مجھ سےپرے ہٹے اب آپ سے میرا کوئی تعلق نہیں رہا۔ (والد صاحب نے کہا) نہ میں آپ کا ہوں نہ آپ میرے۔

بیٹے یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟“ 

میں مسلمان ہو چکا ہوں اور میں نےمحمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے دین کی پیروی اختیار کر لی ہے۔

بیٹے! تم نے جو دین اختیار کیا ہے میں بھی اس کو اپناتا ہوں ۔ انہوں نے فرمایا۔

میں نے عرض کیا۔ تب آپ جا کر پہلے غسل کر لیجئے اور اپنے کپڑے پاک کر کے تشریف لائے تا کہ میں آپ کو وہ دین سکھا دوں جس کو میں نے اختیار کیا ہے۔ 

پھر وہ اٹھے جا کر غسل کیا اور اپنے کپڑے  پاک کر کے میرے پاس آئے ۔ میں نے ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی اور انہوں نے بخوشی اسے قبول کرلیا۔ پھر میری بیوی میرے

پاس آئی۔ میں نے اس سے کہا کہ مجھ سے دور ہو۔ اب میرا اور تمہارا کوئی تعلق نہیں۔

 بیوی نے بڑی حیرت سے پوچھا۔ میرے والدین آپ پر فدا ہوں یہ کیوں؟ 

میں نے کہا کہ اسلام نے میرے اور تمہارے درمیان جدائی کی وسیع خلیج حائل کر دی ہے میں نے اسلام قبول کر کے دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم 

کی پیروی اختیار کرلی ہے۔ اس نے کہا کہ جو دین آپ کا ہے وہی دین میرا بھی ہے۔

میں نے اس سے کہا کہ جاؤ جا کر ذوشری  کے چشمے میں غسل کر کے پاک ہولو ۔ ( ذوشری قبیلہ دوس کے بت کا نام تھا جس کے پاس وہ چشمہ تھا جو پہاڑ کی بلندی سے گرتا تھا)۔ اس نے کہا

کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔ کیا آپ کو ذوشری  کی طرف سے بچوں کوکسی نقصان کا اندیشہ ہے کہ مجھے اس چشمے میں غسل کرنے کے لیے بھیج رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ تباہی ہو تمہارے اور ذوشری کے لیے میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ لوگوں کی نظروں سے دور جا کر وہاں غسل کر لو میں تم کو اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ وہ حقیر و بے جان پتھر ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

اس کے بعد وہ گئی غسل کیا اور پھر میرے پاس آئی تو میں نے اس کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی جس کو اس نے بلا چوں و چرا قبول کرلیا۔(۲)

 پھر میں نے اپنے قبیلے کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی مگر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  کے سوا سب نے اس کو قبول کرنے میں دیر کی ۔ جناب طفیل رضی اللہ عنہ  دلچسپ کہانی کو نئے موڑ پر لاتے ہیں۔

پھر میں ابوہریر رضی اللہ عنہ  کو ساتھ لے کر مکہ آیا۔ جب بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم  میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دریافت فرمایا۔ طفیل تمہارے پیچھے تمہارے قبیلے کا کیا حال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ان کے دلوں پر دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں جوحق کے دیدار میں مانع ہیں ۔ وہ لوگ کفر شدید میں مبتلا ہیں۔ ان کے اوپر سرکشی اور نافرمانی کی کیفیت مسلط ہے۔ یہ سن کر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  اٹھ کھڑے ہوئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے وضو کیا اور اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھادیئے۔

جناب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس حالت میں دیکھ کر مجھے اندیشہ لاحق  ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  میرے قبیلے والوں کے حق میں بددعا فرمائیں گے اور وہ تباہ و برباد ہو جائیں گے۔ تو بے ساختہ میری زبان سے نکل گیا: آہ میری قوم!

لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بد دعا کرنے کے بجائے فرما رہے تھے

 اللهم اهد دوسا اللهم اهد دوسا اللهم اھد دوسا

"اے الله! قبیلہ دوس کو ہدایت دے اے اللہ قبیلہ دوس کو ہدایت دے اے اللہ قبیلہ  دوس کو ہدایت دے۔ (۳)

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے طفیل کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرمایا کہ اپنے قبیلہ میں جاؤ ان کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ اور ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرو۔

پھر میں مستقل طور پر قبیلہ دوس کے علاقے میں رہ کر انہیں اسلام کی طرف دعوت دیتا رہا حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے آئے اور یکے بعد دیگرے بدر احد اور خندق کے معرکے گزر گئے اور جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت میرے ساتھ قبیلہ دوس کے اسّی گھرانے تھے جو اسلام قبول کر کے اس کی تعلیمات سے آراستہ ہو

چکے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہم لوگوں سے مل کر بہت خوش ہوئے اور مسلمانوں کے ساتھ خیبر کے مال غنیمت میں سے ہم لوگوں کو بھی حصہ عنایت فرمایا۔ ہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہم لوگوں کو ہر غزوہ میں اپنے لشکر کے میمنہ پر مقرر فرمائیے اور ہمارا شعار

مبرور مقرر فرما دیجئے۔

جناب طفیل رضی اللہ عنہ  اپنی داستان کے آخری حصے کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اس کے بعد میں برابر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ساتھ رہا یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکے پر فتح عنایت فرمائی۔ فتح مکہ کے بعد میں نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  آپ مجھے عمرو بن حممہ کے بت ذوالکفین کو جلانے کی مہم پربھیج دیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے اس کی اجازت دے دی۔ میں اپنے قبیلے کا ایک دستہ لے کر روانہ ہوا جب اس کے پاس پہنچ کر اسے نذرآتش کرنا چاہا تو بہت سے مرد عورتیں اور بچے میرے گردجمع ہو گئے ۔ وہ اس بات کے منتظر تھے کہ اگر میں نے ذولکفین کو کوئی نقصان پہنچایا تو آسمان سے بجلی گر کر مجھے ہلاک کر دے گی۔ لیکن میں اس کے پرستاروں کے سامنے ہی اس کی طرف بڑھا اور یہ کہتے ہوئے اس کو نذر آتش کردیا

یا ذا الكفين لست من عباد کا

 میلادنا اقدم من میلادکا

انی حشوت النار فی فواد کا

 زولکفین!میں تیرے پرستاروں میں سے نہیں۔ ہماری پیدائش تیری پیدائش

سے مقدم ہے۔ میں نے تیرے دل میں آگ بھردی ہے۔ 

اور اس بات کے آگ میں بھسم ہو جانے کے ساتھ ہی قبیلہ دوس میں شرک کے باقی مانده آثار بھی جل کر خاکستر ہو گئے اور پورا قبیلہ مشرف بہ اسلام ہوگیا۔ (۴)

جناب طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ  اس کے بعد ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے رفیق اعلی سے جا ملے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے رفیق جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو جناب طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ  نے اپنے آپ کو اپنی تلوار کو اور اپنے لڑکے کو خلیفہ کی اطاعت کے لیے وقف کردیا اور جب مرتدین اور مدعیان نبوت کے ساتھ جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا تو جناب طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ  مسیلمہ کذاب سے جنگ کے لیے جانے والی فوج کے ہراول میں شامل ہو گئے۔ یمامہ جاتے ہوئے راستے میں انہوں نے ایک خواب دیکھا۔ انہوں نے اپنے رفقاء سفر سے کہا کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔ تم اس کی تعبیر بیان کرو ۔ ساتھیوں نے خواب

کی تفصیل دریافت کی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ میرا سر مونڈ دیا گیا ہے میرے منہ سے ایک پرندہ نکلا، ایک عورت نے مجھے اپنے پیٹ میں داخل کرلیا اور یہ کہ میرا بیٹا عمرو بڑی تیزی سے میرے پیچھے آرہا ہے مگر میرے اور اس کے درمیان ایک رکاوٹ کھڑی کردی گئی اور وہ میرے ساتھ اس میں داخل ہونے سے رہ گیا۔

ساتھیوں نے کہا آپ کا یہ خواب بہت اچھا ہے۔ جناب طفیل رضی اللہ عنہ  نے کہا میں نے اپنے طور پراس خواب کی تعبیر کی ہے

سر مونڈے جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کاٹا جائے گا اور پرندہ جو منہ کے راستے سے نکلا تو اس سے مراد میری روح ہے اور عورت جس نے مجھے اپنے پیٹ میں داخل کیا اس سے مرادمیری قبر ہے جس میں میں دفن کیا جاؤں گا امید

ہے کہ مجھے شہادت نصیب ہوگی اور میرے بیٹے کا میرا پیچھا کرنے کا یہ مطلب ہے کہ وہ بھی شہادت کی طلب میں میرا ساتھ دے گا مگر وہ اسے کچھ

دنوں کے بعد حاصل کرلے گا معرکہ یمامہ میں صحابی جلیل جناب طفیل بن عمرورضی اللہ عنہ  نے زبردست داد شجاعت دی یہاں تک کہ وہ زخمی ہو کر گر گئے اور زخموں کی تاب نہ لا کرنعمت شہادت سے بہرہ ور ہوئے مگر ان کے صاحبزادے عمرو بن طفیل رضی اللہ عنہ برابر جنگ میں مصروف رہے یہاں تک کہ زخموں سے نڈھال ہو گئے ۔ ان کا دایاں ہاتھ کٹ کر گر گیا اور وہ اپنے والد اور اپنے کٹے ہوئے ہاتھ کو یمامہ کی سرزمین پر چھوڑ کر مدینہ واپس آگئے۔

جناب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  کے دور خلافت میں ایک بار جناب عمرو بن طفیل رضی اللہ عنہ  ان کی خدمت میں باریاب ہوئے۔ اسی وقت جناب عمر رضی اللہ عنہ کے لیے کھانا لا یا گیا مجلس میں کچھ اور لوگ بھی ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے سب کو کھانے کے لیے بلایا مگر جناب عمرو بن طفیل رضی اللہ عنہ کھانے میں شریک نہیں ہوئے وہ کنارے ہٹ گئے تھے جناب عمررضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ کیا بات ہے تم کھانے میں شریک کیوں نہیں ہوئے؟ شاید تم اپنے کٹے ہوئے ہاتھ پر ندامت محسوس کررہے ہو اور کھانے میں شریک ہونے سے جھجکتے  ہو۔ انہوں نے کہا: جی ہاں امیر المومنین! یہ سن کر جناب عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم جب تک تم اپنا کٹا ہوا ہاتھ اس کھانے میں نہیں ڈالو گے میں اس کو چکھ نہیں سکتا۔ اللہ کی قسم ! اہل مجلس میں تمہارے سوا کوئی نہیں جس کا کوئی عضو جنت میں داخل ہو۔

جناب عمرو بن طفیل رضی اللہ عنہ جب سے اپنے والد محترم سے جدا ہوئے تھے برابر اس خواب کی عملی تعمیر کی جستجو میں لگے رہے۔ یہاں تک کہ جب جنگ یرموک کا موقع آیا تو اس میں بڑے شوق سے شریک ہوئے اور بڑی بے جگری سے لڑے یہاں تک کہ اس دولت شہادت سے سرفراز ہو گئے جس کی تمنا ان کے والد نے ان کے دل میں پیدا کی تھی ۔ الله تعالی طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ  پر رحم  فرمائے ۔ وہ شہید ہیں اور شہید کے باپ ہیں۔

=•=•=•=•=•=•=•=•=•=•=•=•=•=•=•=

(١) زاد المعاد بحوالہ رحمتہ لعالمین صلی اللہ علیہ وسلم  جلد ١صفحہ ١١٢_  سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم مؤلفہ امام ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ جلد١۔٣٦٠ 

(۲) ملاحظہ ہو : الرحیق المختوم صفحہ ۱۹٢، ۱۹۳ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم  مؤلفہ امام ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ.جلد ۔ ٣٦١،  ٣٦٢ 

(۳) صحیح بخاری کتاب المغازی (حدیث /٢٩٣٤) 

(۴) سیرت النبی صلی اللہ  علیہ وسلم مؤلفہ امام ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ  جلدا_۳۶٢ 

 

نوٹ:  کسی بھی قسم کی غلطی نظر آئے تو ہمیں ضرور اطلاع کریں۔ 

ناشر: eSabaq.com

eSabaq.in@gmail.com
zakariyyaachalpuri9008@gmail.com

 

تبصرہ کریں

تبصرہ

No comments yet.