ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سلسلہ نمبر ٦


ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سلسلہ نمبر٦

صور من حیاۃ الصحابہ ؓ 

صحابۂ رسول ﷺ کی تڑپا دینے والی زندگیاں
مؤلف: علامہ عبدالرحمن رافت الباشا
مترجم: مولانا اقبال احمد قاسمی
مرتب: عاجز: محمد زکریّا اچلپوری الحسینی
✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا
غیر معمولی شرف وفضیلت کی حامل خاتون تھیں۔ ان کے والد کا شمار قبیلہ بنی مخزوم کے مشہور اور اہم سرداروں اور عرب کے خاص اصحاب جودوسخا میں ہوتا تھا وہ اپنی سخاوت وفیاضی کی وجہ سے زادالراکب“ کے لقب سے مشہور تھے ۔ کیونکہ ان کے علاقے کا ارادہ کرنے والے قافلے اور ان کی معیت میں سفر کرنے والے مسافر بھی اپنے ساتھ زاد راه لے کر چلنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے جو بالکل آغاز دعوت کے زمانے میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ۔ ان سے پہلے صرف جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان چند لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا جن کی تعداد دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے بھی کم تھی۔ ان کا نام ہند بنت ابی امیہ تھا لیکن ان کی کنیت ام سلمہ ان کے نام سے زیادہ مشہورتھی۔
وہ اپنے شوہر جناب ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی اسلام لائیں ۔ وہ دائرۂ اسلام میں داخل ہونے والی دوسری خاتون تھیں۔ یہ شرف ان سے پہلے صرف امی خدیجہ رضی اللہ عنہا کو حاصل تھا۔ جیسے ہی ان کے اور ان کے شوہر کے مسلمان ہونے کی خبر قریش کوملی وہ غصے سے آگ بگولہ ہو گئے ان کے اندر ایک ہیجان برپا ہو گیا اور انہوں نے ان دونوں کو ایسی اذیت ناک اور عبرت انگیز سزائیں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا جو مضبوط چٹانوں کو ہلا دینے کے لئے کافی تھیں ۔ لیکن انہوں نے ان سزاوں کے سامنے نہ تو کسی ضعف و کمزوری کا اظہار کیا نہ ہمت ہاری ، نہ کسی قسم کے تردد وتذبذب میں مبتلا ہو ئے. جب اذیت رسائی کا یہ سلسلہ سخت سے سخت تر ہوتا چلا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کی اجازت دے دی ۔ تو یہ دونوں ہجرت کرنے والے قافلہ مہاجرین‘‘ میں پیش پیش تھے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہر اجنبی دیار اور انجانے علاقے کی طرف چل پڑے اور اپنے پیچھے مکہ میں اپنا عالی شان مکان اپنا بلند مقام اور اپنی خاندانی شرافت چھوڑ گئے۔ وہ اپنے اس عمل کے ذریعہ سے اللہ تعالی سے اجر و ثواب کے خواہاں اور اس کی رضا و خوشنودی کے طالب تھے۔
اگر چہ جناب ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہر کو نجاشی (بادشاه حبشہ) کی حمایت و سرپرستی میں نہایت سکون و اطمینان کی زندگی نصیب ہوئی تھی مگر اس کے باوجود شہر مکہ واپس جانے اور سر چشمہ ہدایت (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دیدار کی آرزو ان کے دلوں کو ہر وقت مضطرب اور بے چین رکھتی تھی ۔ اور پھر جب سرزمین حبشہ میں مقیم مہاجرین کے پاس مسلسل اس طرح کی خبریں آنے لگیں کہ مکہ میں مسلمانوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوگیا ہے۔
جناب حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبد المطلب اور جناب عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے مسلمان ہو جانے کی وجہ سے مسلمانوں کی طاقت کافی بڑھ گئی ہے اور قریش کی اذیت رسانیوں اور ان کے ظلم و ستم کا زور بڑی حد تک ٹوٹ چکا ہے۔ تو ان میں سے کچھ لوگوں نے مکہ واپس جانے کا ارادہ کر لیا۔ دیار حرم میں پہنچنے کا شوق اور بارگا و رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری کا اشتیاق انہیں کھینچے لئے جارہا تھا۔ چنانچہ واپسی کے اس سفر میں بھی ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہر سب سے آگے تھے لیکن واپس آنے والوں پر بہت جلد یہ بات منکشف ہوگئی کہ ان کے پاس اس سلسلے میں جو خبریں پہنچی تھیں ان میں بہت زیادہ مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا تھا اور مسلمانوں نے جناب حمزہ رضی اللہ عنہ اور جناب عمر رضی اللہ عنہ
کے اسلام لانے کے بعد جو تھوڑی سی پیش قدمی کی تھی، قریش کی طرف سے اس کی شدید مزاحمت
ہوئی ہے۔
اس کے بعد مشرکین نے مسلمانوں کو ستانے اور ان کو خوف زدہ کرنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے اور ان کے ظلم وستم کی چکی پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ چلنے لگی۔ اس لئے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہجرت کر کے مدینہ چلے جانے کی اجازت مرحمت فرما دی ۔ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہر نے قریش کی اذیتوں سے نجات حاصل کرنے اور اپنے دین
کی حفاظت کے خیال سے جلد از جلد ہجرت کر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ مگر یہ کام ان کے لئے اتنا آسان نہ تھا جتنا وہ گمان کرتے تھے۔ اپنے اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ان کو ایسے سخت اور المناک حالات سے گزرنا پڑا جن کے سامنے تمام سختیاں ہیچ نظر آتی ہیں ۔ ہم ہجرت کی یہ المناک داستان کو ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی زبانی بیان کرتے ہیں کیونکہ اس سلسلے میں ان کا مشاہدہ بہت گہرا اور ان کی تصویرکشی زیادہ مکمل ہے۔
وہ بیان کرتی ہیں کہ:
جب ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی ٹھانی تو انہوں نے میرے لئے سواری کا اونٹ تیار کیا۔ مجھے اس پر سوار کیا اور میرے بچے مسلمہ کو میری گود میں ڈالا اور کسی چیز کی طرف مڑ کر دیکھے بغیر اونٹ کی نکیل پکڑ کر روانہ ہوگئے ۔ لیکن قبل اس کے کہ ہم مکہ سے باہر نکلے میرے قبیلہ (بنی مخزوم) کے کچھ لوگوں نے ہم کو جاتے ہوئے دیکھ لیا۔ وہ سارا راستہ روک کر کھڑے ہو گئے اور ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے کہ تم اپنے متعلق جو چاہو فیصلہ کرومگر تمہاری بیوی سے تمہیں کیا سروکار ؟ یہ ہماری بیٹی ہے۔ ہم تم کو ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ اس کو اپنے ساتھ لئے ہوئے در در کی ٹھوکریں کھاتے پھرو۔ پھر وہ ان کے اوپر جھپٹ پڑے اور مجھے زبردستی ان سے چھین کر الگ کر دیا۔ جب میرے شوہر ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے قبیلے (بنوعبدالاسد) کے لوگوں نے یہ دیکھا کہ میرے قبیلہ والوں نے مجھے اور میرے بچے کو ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے چھین لیا ہے تو وہ نہایت غضبناک ہوئے اور کہنے لگے کہ اللہ کی قسم جب تم نے اپنے خاندان کی لڑکی کو ہمارے قبیلہ کے آدمی سے چھین لیا تو ہم بھی بچے کو اس کے پاس نہیں رہنے دیں گے۔ وہ ہمارے خاندان کا بچہ ہے اور ہم اس کے زیادہ حق دار ہیں ۔ پھر میری آنکھوں کے سامنے ہی وہ میرے بچے سلمہ رضی اللہ عنہ کو اپنی طرف کھینچنے لگے۔ اس کھینچا تانی میں اس کا ہاتھ بھی اکھڑ گیا اور وہ اس کو چھین کر لے گئے اس وقت مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے میرا وجودٹکرے ٹکرے ہوکر بکھر گیا ہے اور میں اکیلی رہ گئی ہوں۔ ایک طرف میرے شوہر اپنے دین اور اپنی جان کی حفاظت کے لئے مدینہ چلے گئے ۔ دوسری طرف میرے بچے کو بنوعبدالاسد نے جبرا مجھ سے چھین لیا اور میرے قبیلہ بنومخزوم نے زبردستی مجھے اپنے پاس روک لیا۔ اس طرح ذراسی دیر میں مجھے میرے شوہر اور میرے بچے کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا گیا۔ پھر ام سلمہ رضی اللہ عنہا اپنی داستان کا اگلا حصہ بیان کرتی ہیں
اس کے بعد سے میرا روز مرہ کا یہ معمول ہو گیا کہ صبح سویرے مکہ کے باہر ان کی طرف نکل جاتی اور اس جگہ جا کر بیٹھ جاتی جہاں میرے ساتھ یہ المیہ پیش آیا تھا۔ میں ان بیتی ہوئی گھڑیوں کو یاد کرتی رہی جب میرے شوہر اور بچے کے درمیان جدائی کی دیوار حائل کر دی گئی تھی۔ میں برابر روتی رہتی یہاں تک کہ رات کے سائے گہرے ہو جاتے ۔ میری یہ حالت ایک سال یا اس کے لگ بھگ رہی۔ آخر کار میرے چچا کے اولاد میں سے ایک شخص کا گزر میری طرف سے ہوا اس کو میرے اس حالِ زار پر ترس آیا اور اس
نے میرے قبیلہ والوں سے کہا کہ تم لوگ اس غریب کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ تم نے اس کو اس کے شوہر اور بچے سے جدا کر کے اس کے اوپر بڑا ظلم کیا ہے۔ وہ برابر ان کو میرے حق میں ہموار کرتا اور ان کے جذبہ شفقت کو ابھارتا رہا حتی کہ وہ اس حد تک نرم ہو گئے کہ انہوں نے مجھے اپنے شوہر کے پاس چلے جانے کی اجازت دے دی ۔ لیکن میرے لئے یہ کیونکر ممکن تھا کہ میں اپنے لخت جگر کو مکہ میں بنی عبدالاسد کے یہاں چھوڑ
کر خود اپنے شوہر کے پاس مدینہ چلی جاتی اور اس صورت میں جب کہ میں خود دار الہجرت (مدینہ ) میں ہوں اور میرا کم سن بچہ مکہ میں اس حال میں پڑا ہوا کہ اس کے متعلق مجھے کوئی خبر نہ ملے، کیسےممکن تھا کہ میری مامتا کی آگ ٹھنڈی ہو اور میری آنکھوں سے امڈتے ہوئے آنسووں کا سیلاب تھم سکے۔ بعض لوگوں نے جب مجھ کو اس طرح رنج وغم جھیلتے اور تکلیف و ملال سے بوچھل ہوتے دیکھا تو ان کو میری حالت پر رحم آیا اور انہوں نے بنی عبدالاسد سے بات کر کے ان کو میرے ساتھ نرم رویہ اپنانے پر آمادہ کر لیا۔
چنانچہ انہوں نے میرے بچےسلمہ کو مجھے واپس کر دیا۔ اب میں نے مکہ میں ٹھہر کر مدینہ جانے والے کسی ہم سفر کے انتظار میں وقت گنوانا اور اپنی روانگی میں مزید تاخیر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ اس اثناء میں کہیں کوئی ایسا حادثہ نہ پیش آ جائے جو مجھے میرے شوہر کے پاس پہنچنے سے روک دے۔ اس لئے میں نے
جھٹ پٹ اپنی سواری کے اونٹ کو تیار کیا بچے کو گود میں لیا اور اپنے شوہر سے ملنے کے لئے مدینہ کی طرف چل پڑی۔ جب میں تنعیم کے مقام پر پہنچی تو میری ملاقات (۱) عثان بن طلحہ سے ہوئی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا:”زادالراكب (سفر کی حالت میں لوگوں کے کھانے کا اپنے جیب سے انتظام کرنے والا)
کی بیٹی! کہاں جارہی ہو؟“
میں نے جواب دیا: اپنے شوہر کے پاس مدینہ جارہی ہوں ۔
انہوں نے دریافت کیا:
کیا تمہارے ساتھ کوئی اور نہیں ہے؟
میں نے جواب دیا: نہیں! الله تعالی اور میرے اس بچے کے سوا میرے ساتھ دوسرا کوئی نہیں ہے؟
اللہ کی قسم! جب تک تم مدینہ پہنچ جاؤ میں تمہیں تنہا نہیں چھوڑوں گا۔“ یہ کہ کرانہوں نے میرے اونٹ کی نکیل تھام لی اور مجھے ساتھ لے کر روانہ ہو گئے ۔ اللہ کی قسم! اس سے پہلے مجھے کسی ایسے عرب کی صحبت نصیب نہیں ہوئی تھی جو ان سے زیادہ رحم دل اور شریف ہو۔ ان کا حال یہ تھا جب وہ کسی منزل پر پہنچتے تو وہ اونٹ کو بٹھاتے اور خود مجھ سے دور ہٹ جاتے۔ جب میں اونٹ سے نیچے اتر کر زمین پر ٹھیک سے کھڑی ہو جاتی تو وہ ان کے پاس آتے کجاده اتار کر زمین پر رکھ دیتے اور اونٹ کو لے جا کر کسی درخت سے باندھ دیتے۔ پھر مجھ سے دور کسی سائے میں لیٹ جاتے۔ جب روانگی کا وقت ہو جاتا تو وہ اٹھ کر اونٹ کے پاس آتے اس کو تیار کر کے میرے قریب لانے اور مجھے اس پر سوار ہونے کی اجازت دیتے ہوئے دور ہٹ جاتے۔ جب میں سوار ہو کر اطمینان سے بیٹھ جاتی تو آتے اور اس کی نکیل پکڑ کر آگے آگے چل پڑتے۔ مدینہ پہنچنے تک راستہ بھر میرے ساتھ ان کا یہی رویہ رہا۔ جب ان کی نظر بنی عوف بن عمرو کی بستی قباء پر پڑی تو بولے کہ تمہارے شوہر اسی بستی میں ہیں ۔ الله کا نام لے کر چلی جاؤ۔“ یہ کہتے ہوئے وہ واپسی کے لئے مکہ کی طرف مڑ گئے ۔ بچھڑے ہوئے ایک طویل عرصے کی جدائی کے بعد دوبارہ ہم ایک دوسرے سے ملے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی آنکھیں اپنے شوہر کے دیدار سے ٹھندی ہوئی اور جناب ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے دل کو اپنی بیوی اور بچے کو پاکر قرار وسکون نصیب ہوا۔ اس کے بعد واقعات اور حوادث تیزی سے گزرتے رہے۔ یہ غزوۂ بدر ہے جس میں ابوسلمہ رضی اللہ عنہ بھی شریک ہوئے اور فتح یاب و کامیاب ہو کر مسلمانوں کے ساتھ واپس آئے۔ اور یہ ہے معرکہ احد جنگ بدر کے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اس غزوہ میں بھی ایک بہادر کی طرح شریک ہوئے اور اس میں اپنی جرأت وشجاعت
کے نہ مٹنے والے نقوش چھوڑ آئے۔ جنگ سے واپس آئے تو ان کا جسم زخموں سے چور تھا۔ وہ برابر زخموں کا علاج کرتے رہے اور بظاہر ایسا معلوم ہونے لگا کہ وہ زخم بھر ہو چکے ہیں ۔ مگر حقیقت میں ایسانہیں تھا۔ وہ زخم بظاہر تو بھر گئے تھے مگر اندر اندر خراب ہو گئے تھے۔ ایک دن اچانک پھٹ گئے اور ابوسلمہ رضی اللہ عنہ بستر سے لگ گئے۔ اسی زمانے میں جب وہ اپنے زخموں کے ساتھ کشمکش میں مصروف تھے ایک دن اپنی بیوی سے بولے کہ ام سلمہ ؓ: میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو یہ فرماتے سناہے
لايصيب احدا مصيبة فيسترجع عند ذالك يقول اللهم عندك احتسب مصیبتی هذا اللهم اخلفني خيرا منها الا اعطاه الله عزوجل (۲)
جوشخص کسی مصیبت میں مبتلا ہونے کے وقت انا لله وانا اليه راجعون پڑھے اور دعا کرے کہ اے اللہ! میں تجھ سے ہی اس مصیبت کا اجر چاہتا ہوں۔ الہی تو مجھے اسکا بہترین نعم البدل عطا فرما تو الله تعالی اس کے لئے گیا گزرے کی تلافی کی بہترین صورت پیدا فرمادیتا ہے۔“
ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کئی روز تک بستر علالت پر پڑے رہے۔ اسی دوران ایک دن صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے میں داخل ہوئے اور ابھی اچھی طرح ان کو دیکھ بھی نہیں سکے تھے کہ انہوں نے زندگی کو خیر باد کہہ دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے ان کی آنکھوں کو بند کیا اور آسمان کی طرف نظریں اٹھاتے ہوئے ان کے لئے دعا کی.
اللهم اغفر لابی سلمة وارفع درجته في المقربین واخلفه فی عقبه فی الغابرين واغفرلنا وله يا رب العالمين وافسح له في قبره ونور له فيه۔
"اے اللہ ! ابوسلمہ کی مغفرت فرما دے۔ مقر بین میں ان کو بلند مرتبہ عطا کر اور ان کے پس ماندگان میں ان کا قائم مقام ہو جا۔ رب العالمین! ہماری اور ان کی مغفرت فرما ان کی قبر کو کشادہ اور منور کر “
ادھر جب ام سلمہ رضی اللہ عنہ کو وہ دعایادآئی جو جناب ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بتائی تھی تو انہوں نے کہا۔
اللهم عندك احتسب مصيبتي هذه لیکن ان کا دل اللهم اخلفني فيها خيرا منها کہنے پر آمادہ نہ ہورہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں کہہ رہی تھیں کہ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے بہتر کون ہو سکتا ہے جونعم البدل کے طور پر طلب کیا جائے لیکن کچھ دیر بعد انہوں نے دعا مکمل کردی۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی اس مصیبت پر مسلمانوں نے غیر معمولی صدمہ افسوس کا اظہار کیا انہیں ’’ایم العرب“(۳) کے لقب سے نوازا۔ کیونکہ مد ینہ میں ان کے ننھے ننھے بچوں کے سوا ان کے اہل قبیلہ وخاندان میں سے ان کا کوئی قریبی سرپرست اور ہمدردنہ تھا۔
مہاجرین و انصار دونوں نے بیک وقت اپنے اوپر ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے حق کومحسوس کیا ان کی عدت وفات گزرتے ہی جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو نکاح کا پیغام دیا مگر انہوں نے ان کا پیغام منظورنہیں کیا۔ پھر جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ نکاح کی پیش کش کی مگر انہوں نے جناب عمر رضی اللہ عنہ کے پیغام کو بھی اسی طرح رد کر دیا جس طرح وہ جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیغام کو نامنظور کر چکی تھیں۔ پھر جب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے پیغام دیا تو ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے اندر تین ایسی خصلتیں ہیں جو شاید آپ کو پسند نہ آئیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ میں انتہائی غیرت مند اور خود دار عورت ہوں مجھے اندیشہ
ہے کہ میری کوئی بات آپ کی طبع مبارک کو ناگوار گزر جائے گی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ناراض ہو جائیں تو اس کی وجہ سے اللہ تعالی مجھے سزا دے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں ایک سن رسیدہ عورت ہوں۔ اور تیسری یہ کہ میں بال بچوں والی عورت ہوں۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ باتیں سن کر ارشادفر مایا کہ: ۔
یہ جو تم نے اپنی غیرت مندی اور خودداری کی بات کہی ہے تو میں اس کے لئے اللہ تعالی سے دعا کروں گا کہ تمہارے اندر سے اس کو دور کر دے اور جہاں تک سن رسیدگی کی بات ہے تو اس میں میری حالت تم سے مختلف نہیں اور یہ جو تم نے بال بچوں کا ذکر کیا ہے تو اس کے لئے کسی فکر کی ضرورت نہیں ۔ تمہارے بچے میرے بچے ہیں۔“ (۴)
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کرلیا اور ان کی وہ دعا مجسم قبولیت بن کر سامنے آ گئی جو انہوں نے اپنے شوہر کے انتقال کے وقت کی تھی اور اللہ تعالی نے ان کو ابوسلمہ رضی اللہ عنہ كانعم البدل عطا فرمادیا۔ اور اس وقت سے ہند بنت ابی امیہ مخزومی صرف سلمہ رضی اللہ عنہ کی ماں نہیں رہ گئیں بلکہ تمام مسلمانوں کی ماں ہوگئیں۔
الله تعالى ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے چہرے کو جنت میں تروتازہ اور بارونق رکھے ان سے راضی رہے اور ان کو راضی رکھے۔ آمین

✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿

(١) عثمان رضی اللہ عنہ زمانہ جاہلیت میں خانہ کعبہ کے کلید بردار تھے صلح ہدیبیہ کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ساتھ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے فتح مکہ میں شریک ہوئے اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر بیت اللہ کی کنجی ان کے حوالے کی۔

(۲) مسند احمد بحوالہ سیرت النی صلی اللہ علیہ وسلم ا مام ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ (٣/ ١٣١)

(۳) اکیلے رہ جانا، بیوہ رہ جانا

(۴) صحیح مسلم کتاب الجنائز میں اس سے ملتی چھلتی ایک حدیث ہے جو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی سے مروی ہے

نوٹ:  کسی بھی قسم کی غلطی نظر آئے تو ہمیں ضرور اطلاع کریں۔ 

 

ناشر: eSabaq.com

eSabaq.in@gmail.com
zakariyyaachalpuri9008@gmail.com

تبصرہ کریں

تبصرہ

No comments yet.