انکرپشن (Encryption) کی تفصیل میں تو زیادہ نہیں جائینگے اس میں صرف سرسری طور پر ان بھائیوں کو بتانا مقصود ہے جو انکرپشن سے بالکل واقف نہیں ہیں۔ انکرپشن یا جس کو عربی میں تشفیر کہتے ہیں اور اردو میں بھی تشفیر لفظ استعمال ہوتا ہے مگر چونکہ یہاں ہمارے معاشرے میں انگریزی الفاظ زیادہ جانے جاتے ہیں اس لئے ہم یہاں انگریزی الفاظ ہی استعمال کرینگے۔
ویب سائٹ میں اردو فونٹ لگانے کا طریقہ جاننے کے لئے یہاں کلک کریں
انکرپشن رازداری کی خاطر معلومات کی ایسےانداز سے اِن کوڈ (Encode)کرنےکوکہاجاتاہےجس میں صرف اورصرف مخصوص فرد یا افراد ہی حقیقی پیغام کوپڑھ سکیں۔انکرپشن کسی بھی شخص کوپیغام یامواد تک رسائی سےنہیں روک سکتی لیکن اگر کوئی ایساشخص اسےپڑھ رہاہےجس کو اس پیغام کی کوڈنگ معلوم نہیں تو وہ پیغام اسےسمجھ میں نہیں آئےگا۔
اس پیغام کوسمجھنےکےلئےضروری ہےکہ اس شخص کوپیغام سمجھنےکاطریقہ کاربھی معلوم ہو۔انکرپشن خفیہ پیغام رسانی کابہت پرانا طریقہ کارہے۔قدیم دور میں پیغامات عام طورالفاظ(Text) کی شکل میں لکھےجاتےتھےاسلئےانکرپشن کےبعدبھی پیغام الفاظ کی شکل میں ہی رہتاتھا۔جدیددورمیں خاص طورپرکمپیوٹرکی ایجاد کے بعد الفاظ کےعلاوہ آڈیو،ویڈیواوردیگرطرح کےڈیٹا پربھی انکرپشن لگاکر اسےمحفوظ بنایا جاسکتا ہے۔
انکرپشن خود سے بھی کی جاسکتی ہے اور کمپیوٹر کے ذریعے بھی، خود سے کرنے کی سب سے پرانی مثال یہ ہے کہ آپ ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف رکھتے ہیں مثلاً: لفظ Cat میں C کی جگہ لکھے G۔۔۔۔۔A کی جگہ لکھے K۔۔۔۔اور T کی جگہ لکھے "R" تو لفظ Cat کو جب انکرپٹ کریں گے تو بن جائےگا "Gkr"
تو بھیجنے والا "Gkr" اپنے میسج میں لکھ کر بھیجے گا،اور وصول کرنے والا اس کو سیدھا کر کہ Cat بنا لے گا۔
اسی طرح سارے حروف تہجی کو الگ الگ ترتیب دینا پھر جہاں آپ نے A لکھنا ہو وہاں آپ K لکھیں اور جس کو پیغام بھیجا ہے اس کو پہلے سے معلوم ہوگا کہ کس حرف کو کس سے بدل کر پھر مجھے میسج کو سیدھا کر کہ پڑھنا ہے۔
یہ طریقہ پہلی جنگ عظیم میں استعمال ہوا تھا اور اس کے بعد دوسری جنگ عظیم میں مشین کے ذریعے سے انکرپشن کی جاتی تھی، اب کمپیوٹر کے ذریعے کی جاتی ہے۔
کمپیوٹر کے ذریعے کی گئی انکرپشن بہت مضبوط اور محفوظ ہوتی ہے اسے آسانی سے توڑا نہیں جاسکتا۔اس مقصد کے لئے انکرپشن الگورتھم استعمال کیے جاتے ہیں۔مختلف قسم کے انکرپشن الگورتھم استعمال ہورہے ہیں۔
انکرپشن کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آپ جس کو میسج یا جو کچھ بھیج رہے وہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ کیا بھیج رہے ہیں۔
جس طرح پچھلے دور میں ہم کسی کو خط بھیجتے تو راستے میں اس کے پڑھے جانے کا خطرہ موجود رہتا، اور اسی طرح ہم لینڈ لائن سے بات کرتے تو کبھی ایکس چینج والوں کی آواز آتی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ ہماری باتیں سن رہے ہیں یا پھر ہم خود شرارت کرتے اور کسی کیبنیٹ میں ٹیلی فون لگا کر لوگوں کے کال سنتے تھے۔
اسی طرح آج کل ٹیکنالوجی کے دور میں بھی یہ ممکن ہے اور انٹرنیٹ پہ جو کچھ آپ بھیج رہے ہوتے ہیں یا ڈاونلوڈ کر رہے ہوتے ہیں یا پھر میسج یاکال کر رہے ہوتے ہیں اگر وہ انکرپٹڈ نہ ہوں تو کوئی تیسرا بندہ یہ معلوم کر سکتا ہے کہ بھیجا ہوا سامان کیا ہیں۔ انٹرنیٹ پر ڈیٹا پیکٹ کی صورت میں ہوتے ہیں جس کو مختلف نیٹ ورکنگ سافٹ وئیر کے ذریعے سے دیکھا جا سکتا ہے کہ اس پیکٹ میں کیا کیا ہے۔
انٹرنیٹ کے درمیان والے بندے اس کو دیکھ سکتے ہیں، مثلاً آپ کا آئی ایس پی یعنی انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر جو آپ کو انٹرنیٹ کی سہولت دے رہا، یا اگر آپ وائی فائی استعمال کر رہے تو اس راوٹر کی ایکسس جس کے پاس ہے وہ بھی دیکھ سکتا ہے، اس کے علاوہ اور کئی درمیانی پوائنٹ ہیں۔
ایک مثال دیتا ہوں مثلاً آپ کوئی ایسی ایپ استعمال کر رہے جو کہ میسجز انکرپٹ کر کے نہیں بھیجتی، تو اب آپ کےوائی فائی راوٹر، آپ کے آئی ایس پی اور آئی ایس پی جہاں سے نیٹ کنیکٹ ہے وہ اور پھر اس ایپ کی کمپنی تک یہ ڈیٹا جاتا ہے اور یہ تمام لوگ اس میسج کو پڑھ سکتے ہیں۔
یہ ایک اینڈ ہوا یعنی ایک طرف، دوسری طرف پہ بھی یہی ہوگا کہ کمپنی سرور سے سیٹلائٹ، سیٹلائٹ سے سامنے والے بندے جس پر میسج بھیجا ہے اس کا آئی ایس پی یہ سب یہ میسج پڑھ سکتے ہیں۔۔ یہ صرف ایک مثال ہے، آج کل تقریباً سارے ہی میسنجز انکرپشن استعمال کرتے ہیں، کچھ اینڈ ٹو اینڈ یعنی ایک بندے سے دوسرے بندے تک انکرپٹڈ ہی رہتے ہیں ، درمیان میں کہیں بھی ڈی کرپٹ نہیں ہوتی ہیں۔ اور کچھ صرف ایک اینڈ سے کمپنی سرور تک اور پھر کمپنی سرور سے سامنے والے تک انکرپٹڈ رہتے ہیں یعنی کمپنی اپنے سرور میں اس کو ڈی کرپٹ کرتا ہے۔
ٹیلی گرام کا عام نارمل چیٹ اس کی مثال ہے۔ یہ انکرپشن کا عمل آٹومیٹک ہوتا ہے یعنی وہ ایپ خود بخود اس آپ کے میسج کو انکرپشن الگورتھم استعمال کر کے کوڈ میں تبدیل کر دیتا ہے۔
✍️: ابو صارم
No comments yet.