جناب زید الخیر رضی اللہ عنہ


سلسلہ نمبر ۱۵
جناب زید الخیر رضی اللہ عنہ

عربی کتاب: صور من حیاۃ الصحابہ
مؤلف: علامہ عبدالرحمن رافت الباشا

اردو کتاب: صحابۂ رسول ﷺ کی تڑپا دینے والی زندگیاں
جدید تخریج شدہ

مترجم: مولانا اقبال احمد قاسمی
مرتب: عاجز: محمد زکریّا اچلپوری الحسینی

 

سلسلہ نمبر ۱۵
جناب زید الخیر رضی اللہ عنہ

انسان فطری طور پر خیر وشر کا سرچشمہ ہے، جو لوگ اپنے دورِ جاہلیت میں بہتر ہوتے ہیں ان لوگوں میں اسلام لانے کے بعد بھی خیر و صلاح کا عنصر غالب ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک جلیل القدر صحابی کی دو تصوریں ہمارے سامنے ہیں، ایک تصویر جاہلیت کے ہاتھوں نے بنائی ہے اور دوسری اسلام کی انگلیوں کی مرہون منت ہے۔
وہ صحابی جناب زیدالخیل رضی اللہ عنہ ہیں، زمانہ جاہلیت میں لوگ انہیں اسی نام سے پکارتے تھے اور اسلام لانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں زید الخیر رضی اللہ عنہ کے نام سے یاد فرمایا۔
عربی ادب کی کتابوں میں ان کی پہلی تصویر کے نقوش ابھارے گئے ہیں۔ امام شیبانی رحمتہ اللہ علیہ نے قبیلہ بنو عامر کے ایک بزرگ کا بیان اِن الفاظ میں نقل کیا ہے
ایک سال ہمارے علاقے میں زبردست قحط اور خشک سالی نے ایسی ہولناکی برپا کی کہ کھیت اور باغ سوکھنے اور جانور ہلاک ہونے لگے، حالات کی سختی سے تنگ آ کر ہمارے قبیلے کا ایک شخص اپنے اہل وعیال کو لے کر حیرہ (عراق کا ایک شہر جونجف اور کوفہ کے درمیان واقع ہے۔
) چلا گیا اور انہیں وہاں چھوڑ کر ان سے رخصت ہوتے ہوئے بولا:
جب تک میں تمہارے پاس لوٹ کر نہ آ جاؤں تم لوگ یہیں میرا انتظار کرنا، پھر اس نے قسم کھائی کہ میں ان کے پاس آؤں گا تو مال و دولت کے ساتھ ورنہ اسی کوشش میں اپنی جان دے دوں گا۔“
پھر اس نے کچھ زادراہ اپنے ساتھ لیا اور پیدل چل پڑا۔ وہ دن بھر چلتا رہا، رات کے سائے گہرے ہونے لگے تو اس نے دیکھا کہ سامنے ایک خیمہ نصب ہے اور اس کے قریب ہی گھوڑے کا ایک بچھیرا بندھا ہوا ہے۔ اسے دیکھ کر اس نے اپنے دل میں کہا:
یہ پہلا مال غنیمت ہے جومیرے ہاتھ لگا ہے۔
پھر وہ بچھیرے کے پاس پہنچا اور اس کی رسی کھول لی۔ اور ابھی اس پر سوار ہونے کا ارادہ ہی کر رہا تھا کہ اس کے کانوں میں آواز آئی:
اسے چھوڑ دو اور جان کی خیر چاہتے ہو تو فورا یہاں سے چلے جاو“ وہ بچھیرے کو چھوڑ کر آگے چل پڑا اور سات روز تک چلتا رہا، چلتے چلتے وہ ایک ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں اونٹوں کا ایک باڑا تھا، باڑے کے قریب ہی بالوں کا ایک بہت بڑا خیمہ اور اس کے اندر چمڑے کا ایک چھوٹا سا گول خیمہ تھا۔ یہ چیزیں اپنے مالک کے صاحب ثروت اور خوش حال ہونے کا پتا دے رہی تھیں۔ اس نے اپنے جی میں کہا کہ اس باڑے میں رہنے والے اونٹ بھی ہوں گے اور اس خیمے میں رہنے والے اس کے مکین بھی، پھر اس نے خیمہ کے اندرونی ماحول پر ایک نظر ڈالی، سورج اب افق مغرب کے آخری سرے پہنچ کر غروب ہونے کی تیاری کر رہا تھا، تو اس نے خیمے کے وسط میں ایک نہایت ضعیف العمرشخص کو دیکھا، وہ اس کے پیچھے جا کر بیٹھ گیا، مگر بوڑھے کو اس کا بالکل علم نہیں ہوا، چندلمحوں کے بعد آفتاب غروب ہوگیا، اور اسے سامنے سے آتا ہوا ایک سوار نظر آیا جو بے مثل قد و قامت اور ڈیل ڈول کا مالک تھا، وہ ایک بلند و بالا گھوڑے پر سوار چلا آرہا تھا اور دو غلام اس کی دونوں جانب پیدل چل رہے تھے، باڑے میں پہنچ کر سب سے پہلے بڑا اونٹ بیٹھا پھر باقی اونٹ بھی اس کے اردگرد بیٹھ گئے۔
سوار نے ایک موٹی سی اونٹنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک غلام کوحکم دیا،,,اس اونٹنی کو دوھو‘‘ اور شیخ کو پلاو“
غلام نے فورا حکم کی تعمیل کی، اونٹنی کو دوہا اور دودھ سے بھرا ہوا برتن بوڑھے کے آگے رکھ کر خیمے سے باہر نکل گیا، بوڑھے نے اس میں سے ایک دو گھونٹ دودھ پی کر برتن نیچے رکھ دیا، اس آدمی نے کہا کہ میں آہستہ سے اس کی طرف کھسک کرگیا برتن اٹھایا اور اسے منہ سے لگا کر خالی کر دیا اور پھر واپس زمین پر رکھ دیا، غلام نے آ کر برتن اٹھایا اور باہر چلا گیا اور اپنے مالک سے بولا: آقا شیخ نے پورا دودھ پی لیا،“ .
سوار یہ سن کر بہت خوش ہوا اور دوسری اونٹنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا:”اس کا بھی دودھ دوھو اور شیخ کو پیش کرو
غلام اس کا حکم بجالایا اور دودھ سے بھرا ہوا برتن بوڑھے کے آگے رکھ دیا بوڑھے نے اس میں سے آدھا دودھ پیا اور باقی دودھ اس خیال سے بچا دیا کہ کہی سوار کے دل میں کوئی شبہ پیدا نہ ہو جائے سوار نے دوسرے غلام کو ایک بکری ذبح کرنے کا حکم دیا اس نے حسب حکم بکری کو ذبح کردیا تو سوار اٹھ کر اس کے پاس آیا اور بوڑھے کے لئے اس میں سے کچھ گوشت بھونا اور اسے اپنے ہاتھ سے کھلایا جب وہ آسودہ ہو گیا تو باقی ماندہ گوشت اس نے اور اس کے دونوں غلاموں نے کھایا پھر سب اپنے بستروں پر چلے گئے اور تھوڑی ہی دیر میں گہری نیند میں ڈوب کر خراٹے لینے لگے اب میں چپکے سے اٹھ کر بڑے اونٹ کے پاس پہنچا اس کی رسی کھول کر اس پر سوار ہو گیا اونٹ تیزی سے چل پڑا دوسرے اونٹ بھی اس کے پیچھے لگ گئےمیں رات بھر چلتا رہا صبح کا اجالا پھیلنے لگا تو میں نے اپنے چاروں طرف نظر دوڑائی مگر کوئی شخص میرا تعاقب کرتا ہوا نظر نہیں آیا میں نے اونٹ کی رفتار اور تیز کردی اور برابر چلتا رہا حتیٰ کہ سورج کافی بلند ہوگیا میں نے ایک بار پھر پیچھے مڑ کر دیکھا تو دور فاصلے پر کوئی چیز نظر آئی جسے کوئی گدھ یا کوئی دوسرا بہت بڑا پرندہ ہو وہ چیز مجھ سے قریب ہوتی گئی پھر اس کی شکل صاف اور واضح طور پر نظر آنے لگی تو میں نے دیکھا کہ وہ کوئی آدمی ہے جو گھوڑے پر سوار چلا آرہا ہے وہ برابر میرے نزدیک آتا گیا یہاں تک کہ میں نے اسے پہچان لیا تو وہی سوار تھا اور اس کو تلاش کرتا ہوا یہاں تک آ پہنچا تھا اس وقت میں نے اونٹ کو باندھ دیا اور تجسس سے ایک تیر نکال کر کمان پر چڑھا لیا اور ان کو اپنے پیچھے رکھا یہ دیکھ کر سوار کچھ دور فاصلے پر رک گیا اور مجھ سے بولا اونٹ کی رسی کھول دو، میں نے کہا ہرگز نہیں، میں اس کی رسی ہرگز نہیں کھولوں گا میں اپنے پیچھے حیرہ میں بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں اور فاقہ کی سختیاں جھیلتے ہوئے پریشان حال اہل وعیال کو چھوڑ کر آیا ہوں اور یہ قسم کھائی ہے کہ میں ان کے پاس مال لے کر لوٹوں گا ورنہ اسی کوشش میں مر جاؤں گا، (اس نے مجھے ڈانٹتے ہوئے گرج کر کہا) تو سمجھ لو کہ تم مر چکے ہو تمہارا برا ہو اونٹ کی رسی کھول دو (میں نے بھی اسی انداز میں جواب دیا) ہر گز نہیں کھولوں گا تب اس نے کچھ نرم ہوتے ہوئے کہا تم بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہو اور دھوکا کھا رہے ہو پھر بولا اچھا اونٹ کی نکیل لٹکاؤ (نکیل میں تین گرہیں تھیں) اور بتاؤ کہ کون سی گرہ میں تیر ماروں میں نے بیچ والی کی طرف اشارہ کر دیا اس نے تیر چھوڑا اور وہ آ کر اس کے بیچوں بیچ اٹک گیا جیسے اپنے ہاتھ سے اس میں پھنسایا ہو پھر اس نے یکے بعد دیگرے باقی دونوں گرہوں کو بھی اپنے تیروں کا نشانہ بنا لیا یہ دیکھ کر میں نے اپنے تیر کو ترکش میں واپس رکھ دیا اور گردن جھکا کر کھڑا ہو گیا وہ میرے قریب آیا اور اس نے میری تلوار اور کمان کو اپنے قبضے میں کرتے ہوئے مجھ سے اپنے پیچھے بیٹھنے کا اشارہ کیا جب میں چپ چاپ اس کے پیچھے سوار ہوگیا تو مجھ سے مخاطب ہوا تمہارا کیا خیال ہے میں تمہارے ساتھ کیسا برتاو کروں گا؟ میں نے جواب دیا، بہت برا
اس نے دریافت کیا
یہ کیوں؟
میں نے احساس ندامت کے ساتھ کہا
اس لئے کہ میں نے تمہارے ساتھ غلط طریقہ اپنایا اور تمہیں سخت پریشانی میں مبتلا کیا اور اب اللہ تعالی نے تمہیں میرے اوپر قابو دے دیا ہے
اس نے کہا تم سمجھتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کوئی برا سلوک کروں گا جب کہ تم مہلہل کے ساتھ کھانے پینے میں شریک اور رات ان کے ہم نشین رہ چکے ہو؟ مہلہل کا نام سنا تو میں نے اسے کہا کہ تم زید الخیل ہو؟
اس نے جواب دیا:
ہاں میں زیدالخیل ہوں
تب تو میں ایک بہترین شخص کا قیدی ہوں امید ہے کہ تم میرے ساتھ عمدہ اور شریفانہ برتاؤ کرو گے
اس نے منزل پر پہنچ کر مجھے اطمینان دلاتے ہوئے کہا:
تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی، اور مجھے لے کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا، اللہ کی قسم اگر یہ اونٹ میرے ہوتے تو انہیں تمہارے حوالے کردیتا لیکن یہ میری بہن کے ہیں اب تم چند روز میرے پاس ٹھرو میں عنقریب ایک جگہ حملہ کرنے والا ہوں اس میں مجھے کافی مال غنیمت ہاتھ آنے کی توقع ہے اور تین دن کے بعد ہی اس نے بنی نمیر پر حملہ کردیا اس حملے میں تقریبا سو اونٹ اس کے ہاتھ آئے اس نے وہ سارے اونٹ مجھے دے دیے اور میری حفاظت کے لئے اپنے کچھ غلاموں کو میرے ساتھ کر دیا اور میں بخیر و عافیت حیرہ پہنچ گیا یہ زید الخیل کی ان کے دور جاہلیت کی تصویر تھی ان کے زمانہ اسلام کی تصویر کے نقوش کتب سیرت میں اس طرح نمایاں کئے گئے ہیں:
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر زید الخیل کے کانوں میں پہنچیں تو انہوں نے اپنی سواری کوسفر کے لیے تیار کیا اور اپنے قبیلے کے بڑے بڑے سرداروں کو یثرب چلنے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرنے کے لئے بلایا بنی طے کا جو وفد ان کے ساتھ روانہ ہوا اس میں زرا بن سدوس، مالک بن جبیر اور عامر ابنِ جوین جیسے اکابر قبیلہ شامل تھے یہ سب لوگ مدینہ پہنچے تو سب سے پہلے مسجد نبوی صلی اللہ وسلم کا رخ کیا اور اس کے دروازے پر پہنچ کر اپنی اپنی سواریوں سے اتر پڑے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما تھے اور مسلمانوں کو واعظ و نصیحت فرما رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب سن کر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی گرویدگی اور ان کی توجہ واثر پزیری کو دیکھ کر وفد کے لوگ سخت حیران و تعجب سے دوچار ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو دیکھا تو مسلمانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا
میں تمہارے لئے عزیٰ اور تمہارے دوسرے تمام معبودوں سے بہتر ہوں
میں تمہارے لیے بہتر ہوں اس سیاہ اونٹ سے جس کی اللہ کو چھوڑ کر تم پرستش کرتے ہو
رسول اللہ صلی علیہ وسلم اللہ کی یہ بات سن کر زید الخیل اور ان کے ساتھیوں پر دو مختلف اور الگ الگ قسم کے اثرات مرتب ہوئے کچھ لوگوں نے حق کی دعوت پر لبیک کہا اور آگے بڑھ کر اسے قبول کرلیا اور کچھ لوگوں نے اس سے اعراض کیا اور ازراہ تکبر اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا
زرا ابن سدوس نے مسلمانوں کی نگاہوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بے پناہ جذبات عقیدت و احترام کا عکس دیکھا تو وہ حسد کی آگ میں جلنے لگا اور اس کا دل خوف سے بھر گیا.اس نے اپنے ساتھ والوں سے کہا
میری نگاہیں ایک ایسے شخص کو دیکھ رہی ہیں جس کے آگے تمام عرب کی گردنیں جھک جائیں گی اللہ کی قسم میں ہر گز اس کے سامنے سر تسلیم وہ اطاعت خم نہیں کرسکتا اس کے بعد وہ شام کی طرف نکل گیا اور وہاں اس نے راہبوں کی طرح اپنا سر منڈوا کر نصرانیت اختیار کرلی البتہ زید الخیل اور ان کے دوسرے ساتھیوں کا معاملہ اس سے بالکل مختلف تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسے ہی اپنا خطبہ ختم کیا زید الخیل مسلمانوں کے مجمع میں کھڑے ہو گئے وہ نہایت شکیل وجیہہ متناسب الاعضاء اور طویل القامت شخص تھے جب گھوڑے پر سوار ہوتے تو ان کے دونوں پاؤں زمین تک پہنچ جاتے ایسا لگتا کہ وہ گھوڑے پر نہیں کسی گدھے پر سوار ہیں انہوں نے کھڑے ہو کر اونچی اور بلند آواز میں کہا
یا محمد اشہد اللہ الہٰ اللہ وانک رسول اللہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرح متوجہ ہوتے فرمایا تم کون ہو؟
انہوں نے ادب سے جواب دیا:
میں زید الخیل ابن مہلہل ہوں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
تم زید الخیل نہیں زید الخیر ہو
اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تم کو یہاں تک پہنچایا اور تمہارے دل کو اسلام کے لئے نرم کر دیا، اس کے بعد وہ زید الخیر رضی اللہ عنہ کے نام سے معروف ہو گئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اپنے مقام پر لے گئے اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جناب عمر رضی اللہ تعالی عنہ بن خطاب اور صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کی ایک جماعت بھی تھی جب یہ لوگ گھر پہنچے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹھنے کے لئے ایک مَسند زمین پر ڈال دی، جناب زید رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کے سامنے اس پر بیٹھنے کو بے ادبی پر محمول کرتے ہوئے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس کردیا یہ عمل دونوں جانب سے تین بار دہرایا گیا جب سب لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب زید الخیر رضی اللہ تعالی عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا زید الخیر رضی اللہ تعالی عنہ تمہارے علاوہ اس سے پہلے جس کسی کے اوصاف میرے سامنے بیان کئے گئے اور بعد میں میں نے اس کو دیکھا تو اس سے اس کے بیان کردہ اوصاف سے کمتر ہی پایا۔ پھر فرمایا
زید کے اندر دو ایسی خصلتیں ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک نہایت پسندیدہ اور محبوب ہیں
(زید رضی اللہ تعالی عنہ نے پرجوش لہجے میں سوال کیا ) اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ دونوں خصلتیں کونسی ہیں، (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) وقار اور حلم،
زید رضی اللہ عنہ نے نظر جھکائے ہوئے کہا:
اللہ کا شکر ہے اس نے میرے اندر ایسی خصلت پیدا کی ہیں جو اس کو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہیں خوشی ان کے لہجے سے جھلک رہی تھی پھر انہوں نے سر اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ مجھے صرف تین سو سواروں کا ایک دستہ دے دیں میں اس بات کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضمانت دیتا ہوں کہ میں ان کو ساتھ لے کر بلاد روم پر حملہ کروں گا اور زبردست فتح و کامرانی حاصل کروں گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس بلند ہمتی اور عالی حوصلگی کو دیکھا تو فرمایا شاباش زید تم کتنے با عزم اور حوصلہ مند ہو اس گفتگو کے بعد جناب زید الخیر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ آنے والے ان کی قوم کے تمام لوگوں نے بھی اسلام قبول کر لیا جب جناب زید الخیر رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھیوں نے اپنے وطن نجد کی طرف واپسی کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رخصت کرتے ہوئے فرمایا یہ شخص کتنا عظیم ہے اگر یہ مدینے کی وبا سے محفوظ ہو گیا تو آئندہ زبردست کارنامہ انجام دے گا (۱) (اس زمانے میں مدینہ منورہ میں بخار پھیلا ہوا تھا) زید الخیر رضی اللہ تعالی عنہ اس بخار سے متاثر ہو چکے تھے انہوں نے اثنائے سفر میں اپنے ساتھیوں سے کہا کہ قبیلہ بنی کیس کے علاقے سے کترا کر نکل چلو جاہلیت میں ہمارے اور ان کے درمیان زبردست معرکہ آرائیاں اور گھمسان کی جنگیں ہو چکی ہیں،
اور اللہ کی قسم اب میں کسی مسلمان سے جنگ نہیں کرنا چاہتا جناب زید الخیر رضی اللہ تعالی عنہ شدید بخار کے باوجود مسلسل سفر کرتے رہے ان کا بخار حرارت ہر آن بڑھتا جا رہا تھا ان کی شدید خواہش تھی کہ وہ اپنے قبیلہ میں پہنچ جائیں اور قبیلہ والے ان کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوں راستے بھر ان کے اور موت کے درمیان کشمکش جاری رہی آخرکار موت نے اس جواں حوصلہ اور پرعزم انسان کو مغلوب کر لیا انہوں نے راستے ہی میں اپنی زندگی کا آخری سانس لیا اور خدمت اسلام کی تمام حسین آرزو کو سینے سے لگائے ہوئے اپنے مالک حقیقی کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے اناللہ واناالیہ راجعون

✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿
۱) سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ابن کثیر میں زید الخیر رضی اللہ تعالی عنہ کے قبول اسلام کا واقعہ مختصر موجود ہے

 

نوٹ:  کسی بھی قسم کی غلطی نظر آئے تو ہمیں ضرور اطلاع کریں۔ 

eSabaq.in@gmail.com
zakariyyaachalpuri9008@gmail.com

تبصرہ کریں

تبصرہ

No comments yet.