جناب عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ


سلسلہ نمبر ۱۶

عربی کتاب: صور من حیاۃ الصحابہ 

 مؤلف: علامہ عبدالرحمن رافت الباشا

اردو کتاب: صحابۂ رسول ﷺ کی تڑپا دینے والی زندگیاں 

 جدید تخریج شدہ

مترجم: مولانا اقبال احمد قاسمی 

مرتب: عاجز: محمد زکریّا اچلپوری الحسینی  

 

سلسلہ نمبر ۱۶
جناب عدی بن حاتم طائی رضی اللہ تعالی عنہ

ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے نویں سال سردار عرب میں سے ایک شخص اپنی شدید نفرت و مسلسل بیزاری،تکبر وغیرہ اور مسلسل انکار کے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہوا وہ بادشاہ تھے، عدی ان کے والد حاتم طائی جس کی سخاوت و فیاضی آج تک ضرب المثل ہے ریاست وحکومت عدی کو اپنے باپ سے وراثت میں ملی تھی، چنانچہ اس کے قبیلہ بنی طے نے اس کو اپنا بادشاہ بنا لیا، مال غنیمت کا چوتھائی حصہ اس کے لئے مقرر کیا اور قبیلے کی قیادت و سربراہی کی باگ دوڑ اس کے سپرد کردی،
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی الاعلان اسلام کی دعوت کا آغاز کیا اور عرب کے بہت سے قبائل ایک ایک کر کے ان کے حلقۂ اطاعت میں چلے آتے گئے تو عدی نے محسوس کیا کہ اس دعوت کے آڑ میں ایک ایسی قیادت ابھر رہی ہے جو موت کا حکم رکھتی ہے اور اس کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ اس پیغام کے زیر سایہ ایک ایسی ریاست نشو و نما پارہی ہے جو اس کی ریاست کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی۔ چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید مخالفت اور ان کے ساتھ بغض و عداوت پر کمربستہ ہو گیا حالانکہ نہ تو وہ اس سے پہلے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے واقف تھا نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے مشرف ہوا تھا، اس نے اپنی زندگی کے تقریبا بیس قیمتی سال اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کی نزر کر دیئے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اس کے سینے کو قبولیت حق کے لئے کھول دیا۔

جناب عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ کے مسلمان ہونے کی کہانی ایک دلچسپ اور ناقابل فراموش کہانی ہے ہم یہ بات انہیں پر چھوڑتے ہیں کہ وہ اس کہانی کو اپنی زبان سے بیان کریں کیونکہ وہی اس کے لیے زیادہ مناسب ہیں اور انہی کا بیان زیادہ قابل اعتماد ہے جناب عدی رضی اللہ تعالی عنہ اس کہانی کا آغاز کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں
جس وقت میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور ان کی دعوتی سرگرمیوں کا حال سنا اس وقت عرب کے کسی شخص کو مجھ سے زیادہ ان کے ساتھ نفرت نہ تھی۔ میں اپنے قبیلے سے مال غنیمت کا چوتھائی وصول کیا کرتا تھا جس طرح میرے علاوہ دوسرے سردار اپنے اپنے قبائل سے وصول کیا کرتے تھے، جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سنا تو مجھے سخت ناگوار گزرا اور جب ان کی قوت وشوکت میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا اور انکے لشکر اور فوجی دستے عرب کے مشرق سے لے کر مغرب تک دھاوا مارنے لگے تو میں نے اپنے غلام کو جو میرے اونٹ چرایا کرتا تھا ہدایت کی میرے سفر کے لیے چند تندرست اور توانا سیدھی سادھی اونٹنیاں ہر وقت تیار رکھو اور انہیں میرے قریب باندھ دو اور جب سنو کے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کا لشکر یا ان کا کوئی فوجی دستہ علاقے میں داخل ہوگیا ہے تو مجھے اس کی خبر دو۔
ایک دن صبح کے وقت غلام نے مجھ سے کہا
آقا! آپ اپنے علاقہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے سواروں کی آمد پر جو کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اب اسے کرگزئیے میں نے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا
میں نے کچھ جھنڈے اس علاقے میں حرکت کرتے ہوئے دیکھے ہیں ان کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا لشکر ہے
میں نے اس سے کہا ‏
جن اونٹنیوں کو تیار رکھنے کا میں نے تم کو حکم دیا تھا انہیں فورا میرے پاس لے آؤ پھر میں اسی وقت اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے پیارے وطن کو چھوڑ کر کوچ کرنے کا حکم دے دیا اور تیز رفتاری کے ساتھ سرزمین شام کی طرف روانہ ہو گیا تاکہ اپنے ہم مذہب نصاری کے پاس پہنچ کر وہاں قیام کروں۔ میں عجلت میں اپنے گھر کے تمام افراد کو جمع نہ کرسکا جب خطرے کی حدود سے نکل کر جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ میں اپنی بہن کو قبیلہ طے کہ باقی ماندہ افراد کے ساتھ اپنے وطن نجد ہی میں چھوڑ آیا ہوں اب میرے لیے اس کے پاس پلٹ کر جانے کی کوئی گنجائش نہ تھی مجبورا اسے چھوڑ کر اپنے ساتھ اہل خانہ کو لئے شام چلا گیا اور وہاں اپنے ہم مذہبوں میں قیام پذیر ہوگیا اور میرے پیچھے میری بہن توع کے مطابق ہی حالات سے دوچار ہوئی جن کا پہلے ہی سے مجھے اندیشہ تھا شام میں مجھ کو اطلاع ملی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سواروں نے ہمارے علاقے پر حملہ کیا میری بہن کو گرفتار کر لیا گیا اور اسے دوسرے قیدیوں کے ساتھ یثرب لے جایا گیا اور مسجد کے دروازے کے قریب ایک احاطے میں بند کردیا گیا مجھے یہ اطلاع بھی ملی کہ ایک دن ( نبی صلی اللہ وسلم ) کا گزر میری بہن کی طرف سے ہوا تو اس نے اٹھ کر ان سے عرض کیا
اے اللہ کے رسول! میرے والد فوت ہو چکے ہیں میرا سرپرست غائب ہے آپ مجھ پر احسان کیجیے اللہ تعالی آپ پر احسان کرے گا…..
تو رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے ان سے پوچھا
کون ہے تمہارا سر پرست؟
تو وہ بولی عدی بن حاتم.
کون عدی بن حاتم؟ اللہ اور اسکے رسول سے بھاگنے والا؟
اتنا کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اس کے حال پر چھوڑ کر آگے بڑھ گئے دوسرے روز بھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر اس کی طرف سے ہوا تو اس نے دوبارہ وہی باتیں کہیں جو کل کہیں چکی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وہی جواب دیا جو کل دے چکے تھے، اور جب تیسرے دن آپ صلی علیہ وسلم ادھر سے گزرے تو چونکہ وہ مایوس ہوچکی تھی اس لیے خاموش رہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ نہیں کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سے ایک شخص نے اشارہ کیا کہ اٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرو چنانچہ اس نے کہا
اے اللہ کے رسول! میرا باپ فوت ہو چکا ہے اور میرا سرپرست لا پتا ہے، آپ میرے اوپر احسان فرمائیے اللہ تعالی آپ پر احسان فرمائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر احسان فرما تے ہوئے اس کی رہائی کا حکم صادر فرما دیا اس نے کہا کہ میں اپنے گھر والوں کے پاس شام جانا چاہتی ہوں، نبی صلی اللہ وسلم نے اس سے کہا کہ جب تک تمہارے قبیلہ کا کوئی قابل اعتماد آدمی نہیں مل جاتا روانگی میں جلدی نہ کرنا اور جب کوئی قابل اعتماد شخص مل جائے تو مجھے بتانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد اس نے اس آدمی کے متعلق دریافت کیا جس نے اسے بات کرنے کا اشارہ کیا تھا تو معلوم ہوا کہ وہ علی رضی اللہ عنہ ابن طالب تھے۔
وہ مدینہ میں ٹھہری رہی، اسی دوران میں کچھ لوگوں کا وفد وہاں آیا جس میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جن کے اوپر وہ اعتماد کر سکتی تھی اس نے بارگاہ نبوی صلی اللہ وسلم میں عرض کیا کہ میرے قبیلے کے کچھ لوگ یہاں آئے ہیں مجھ سے ان کے اوپرمکمل اعتماد ہے وہ مجھے میری منزل تک پہنچا دیں گے تو نبی کریم صلی علیہ وسلم نے اسے پہننے کے لئے کپڑے سواری کے لئے اونٹنی اور بقدر ضرورت زاد راہ دے کر رخصت کیا اور وہ ان کے ساتھ روانہ ہوگئ
عدی رضی اللہ تعالی عنہ نے سلسلہ بیان جاری رکھتے ہوئے کہا
ادھر شام میں ہم کو برابر اس کے حالات کی اطلاع ملتی رہتی تھی اور ہم اس کے شام پہنچنے کے منتظر تھے حالانکہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مقابلے میں جو رویہّ اپنایا تھا اس کے پیش نظر ہمارے دل ان اطلاعات کی تصدیق کرنے پر آمادہ نہیں تھے جو میری بہن کے ساتھ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اس احسانِ عظیم کے سلسلے میں ہم تک پہنچ رہی تھیں
انہیں حالات میں ایک روز میں اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک میری نگاہ ایک عورت پر پڑی جو اپنے اونٹ کے کجاوہ میں بیٹھی ہماری طرف چلی آرہی تھی میرے دل نے کہا یہ میری بہن ہے جب وہ کچھ اور قریب آئی تو ہم نے اسے صاف طور پر پہچان لیا وہ واقعی میری بہن ہی تھی وہ ہمارے پاس پہنچ کر سواری سے اترتے ہی ناراضگی کے لہجے میں بولی بے مروت ظالم تو نے اپنی بیوی اور بچوں کو تو اپنے ساتھ لے لیا اور اپنے باپ کی اولاد اپنی عزت کو پیچھے چھوڑ کے چلا آیا۔
میں نے کہا پیاری بہن! صرف اچھی باتیں کہو اور میں اسے راضی کرنے لگا آخر کار وہ مجھ سے راضی ہوگئ اور پھر اس نے اپنے سارے حالات تفصیل سے بیان کئے جو بالکل وہی تھے جو ہم کو پہلے پہنچتے رہتے تھے پھر میں نے اس سے مشورہ کرتے ہوئے پوچھا وہ نہایت دور اندیش، عقلمند اور سمجھدار عورت تھی اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا میری رائے یہ ہے کہ تم جلد از جلد ان کی خدمت میں پہنچ جاؤ اگر واقعی وہ نبی ہے تو تمہارے جیسے آدمی کا ان کی تصدیق و تائید میں پیچھے رہ جانا بڑی افسوسناک بات ہوگی اور اگر وہ بادشاہ ہیں تو ان کے یہاں تمہاری ناقدری نہیں ہوگی۔
عدی بن حاطم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے سفر کی تیاری کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ پہنچا میں نے اس سے پہلے نہ تو ان کے پاس اپنے پہنچنے کی اطلاع بھیجی تھی نہ ان سے اپنے لیے امان حاصل کی تھی البتہ مجھے اس بات کی اطلاع ہوگئی تھی کہ انہوں نے میرے متعلق اپنے اصحاب سے فرمایا ہے کہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی عدی بن حاتم کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دے گا جب میں مدینہ پہنچا تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے میں نے حاضر خدمت ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پو چھا:
کون ہو؟
میں نے جواب دیا:
عدی حاتم طائی کا بیٹا
یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے اٹھے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر کی طرف لے چلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ساتھ لئے جا رہے تھے کہ راستے میں ایک نہایت بوڑھی عورت ملی جس کے ساتھ ایک چھوٹاسا بچہ تھا وہ ان کو روک کر اپنی کسی ضرورت کے متعلق باتیں کرنے لگی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرکر پوری توجہ کے ساتھ اس کی باتیں سنتے رہے دوران گفتگو میں میں وہیں کھڑا رہا۔ کھڑا کھڑا اپنے دل میں سوچ رہا تھا کہ اللہ کی قسم یہ بادشاہ نہیں ہوسکتے
بڑی بی سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر میرا ہاتھ تھام لیا اور چلتے ہوئے اپنے گھر پہنچ گئے گھر میں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چمڑے کا ایک تکیہ اٹھایا جس میں کھجور کے ریشے بھرے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو میری طرف ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اس پر بیٹھ جاؤ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس پر بیٹھتے ہوئے مجھے شرم آئی اور میں نے اسے بے ادبی پر محمول کرتے ہو ئے عرض کیا کہ نہیں اس پر آپ تشریف رکھیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصرار کرکے مجھے اس پر بٹھا یا اور خود زمین ہی پر بیٹھ گئے کیونکہ گھر میں اس کے علاوہ دوسرا تکیہ نہیں تھا یہ دیکھ کر میں نے دل میں کہا اللہ کی قسم! یہ انداز کسی بادشاہ کا ہرگز نہیں ہوسکتا اطمینان سے بیٹھ جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب کیا
عدی !بتاؤ کیا تم رکوسی نہ تھے؟ تم ایک ایسے دین کو اختیار کئے ہوئے نہ تھے جو نصرانیت اور صائبیت کے درمیان تھا؟
میں نے جواب دیا
بے شک میں رکوسی تھا
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا:
کیا تم اپنی قوم سے مال غنیمت کا چوتھائی حصہ وصول نہیں کرتے تھے کیا تم ان سے وہ مال نہیں لیتے تھے جو تمہارے دین میں حلال نہ تھا؟

ہاں! اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسا کرتا تھا اور اس وقت مجھے یقین ہو گیا کہ یہ نبی مرسل ہیں
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
عدی شاید تم اس دین کو قبول کرنے سے اس لیے ہچکچارہے ہو کہ آج مسلمان مفلس اور تنگ دست ہیں لیکن اللہ کی قسم وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے جب ان کے یہاں مال و دولت کی اتنی فروانی ہو جائے گی کہ اسے کوئی لینے والا نہیں ملے گا یا شاید تم اس دین میں داخل ہونا اس لیے ناپسند کرتے ہو کہ آج مسلمانوں کی تعداد کم اور ان کے دشمنوں کی تعداد زیادہ ہے لیکن اللہ کی قسم ! عنقریب تم سنو گے کہ ایک عورت تن تنہا اپنے اونٹ پر سوار ہو کر حج بیت اللہ کے لئے قادسیہ سے نکلتی ہے اور دوران سفر میں اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف محسوس نہیں ہوتا۔ یا شاید اس دین کو قبول کرنا تم کو اس لیے گوارا نہیں ہے کہ تم دیکھ رہے ہو کہ آج زمام حکومت دوسروں کے ہاتھوں میں ہے اور مسلمان اس سے محروم ہیں لیکن اللہ کی قسم تم جلدہی سن لو گے کہ بابل کے سفید محلات مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہو گئے اور کسری کے خزانے ان کے قبضے میں آگئے۔
میں نے حیرت سے پوچھا:
کیا؟ کسری بن ہرمز کے خزانے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے وثوق کے ساتھ فرمایا:
ہاں ہاں کسری ابن ہرمز کے خزانے،
اسی وقت کلمہ شہادت پڑھ کر میں دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا جناب عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ نے طویل عمر پائی تھی وہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو پیشن گوئیاں تو حرف بہ حرف پوری ہو چکی ہیں صرف ایک باقی رہ گئی ہے اور اللہ کی قسم وہ بھی یقینا پوری ہو کررہے گی میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ قادسیہ سے اونٹ پر سوار ہو کر نکلی اور بلا خوف وخطر مکہ پہنچ گئی اور میں اس فوج کے اگلے دستے میں تھا جس نے کسری کے خزانوں پر حملہ کرکے ان پر قبضہ کیا تھا میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تیسری پیشن گوئی بھی ضرور پوری ہوگی (۱)
اللہ کی مشیت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پوری ہوئی اور تیسری پیشنگوئی بھی خلیفہ زاہد و عابد جناب عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کے دور خلافت میں پوری ہوگئ اس وقت مسلمان مالی اعتبار سے اس قدر خوش حال ہو گئے تھے کہ خلیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا منادی فقراء و مساکین کو زکوۃ کا مال لینے کے لئیے پکارتا مگر کوئی اس کو لینے والا نہ تھا اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات صحیح اور جناب عدی ابن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ کی قسم پوری ہوئی۔

✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿
۱ ) سیرت النبی ﷺ امام ابن کثیر جلد ۲ صفحہ ۵۷۵ : ۵۷۹ ۔

 

نوٹ:  کسی بھی قسم کی غلطی نظر آئے تو ہمیں ضرور اطلاع کریں۔ 

eSabaq.in@gmail.com
zakariyyaachalpuri9008@gmail.com

تبصرہ کریں

تبصرہ

No comments yet.