???? *صدائے دل ندائے وقت*????(1002)
*آہ__عظیم شاعر راحت اندوری مرحوم نہ رہے!!*
اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے
*کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے قہر میں یہ خبر جاں فزا بن کر تواتر کے ساتھ گردش کرنے لگی کہ عظیم اردو شاعر، سخن ور، سخن شناس، عالمی شہرت یافتہ شخصیت جناب راحت اندوری مرحوم (١٩٥٠_ ٢٠٢٠) راہی ملک بقا ہوگئے، زندگی سے کسی رستگاری نہیں ہے، رب ذوالجلال کے سوا ہر ذات فانی ہے؛ لیکن دنیا کی کچھ شخصیتیں جاتے جاتے اپنے پیچھے بہتوں کو سوگوار کرجاتی ہیں، اور ایک بڑا خلا چھوڑ جاتی ہیں، مرحوم نے زمانے کو اس وقت الوداع کہا ہے؛ کہ جب ان کی شاعری، فکر و فن کی سخت ضرورت تھی، ظالم حکمرانوں کو انصاف کا آئینہ دکھانا، سنجیدگی و مزاح میں بھی حق کہہ جانا، سادگی میں لطافت، مستی میں ذوق کو چھیڑ جانا اور ہر کسی کو سوچنے پر مجبور کرجانا انہیں کے ساتھ خاص تھا، ہندوستان کی مٹی کو کسی کے باپ کی جاگیر نہ بتلاتے ہوئے، یہاں کی آزادی ہر ایک کے خون کی شمولیت کا دعویٰ کرکے مظلوموں کے حق کو ثبت کردیا تھا، چونکہ جمہوریت اور سیکولرازم کے نام پر بےگانگی عام کرنے اور آبادیوں کو تہس نہس کرنے کا دور ہے، غالباً ان کی فکری بصیرت نے یہ سمجھا دیا تھا کہ اکثریت اپنے آپ میں ظالم ہوتی ہے، اور ان کا یہی ظلم اقلیتوں کو جینے نہ دے گا، چنانچہ انہوں نے بہت پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ظلم کا انجام ہر ایک کے گھر پہنچتا ہے، اور اس آگ کی لپٹ پوری شدت کے ساتھ ہر کسی کا گھر جھلسا جاتی ہے، اس کے سامنے رنگ و نسل کا امتیاز نہیں ہوتا، اکثریت و اقلیت کا کوئی فرق نہیں ہوتا، مرحوم کی شاعری اس بات پر گواہ ہے کہ آپ زمانے کو انگوٹھے پر رکھتے ہوئے اپنی کہنا، نہ صرف کہنا بلکہ کہہ کر مخاطب کو مجبور کردینا بھی انہیں کو آتا تھا، وہ کہتے تھے: "جو میرے منہ سے نکلے وہی ادب ہے، آج نہیں تو کل ہوگا." اس بات سے ان کی عظمت، خوداعتمادی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، وہ گل وگلفشاں، جام و سبو، ہنسی و مزاق ہر کہیں نظر آتے ہیں، ان کی شاعری کا ہر مجموعہ انسان کو دبستان زندگی کے مختلف کیاریوں تک پہونچا دیتا ہے، انہیں سنا جائے سمجھا جائے، ایک عاشق کی آواز، محبت کا سوز، انسانیت کا درد، قوم سے ہمدردی، ساتھ ہی ایک بہترین ملنسار اور خلیق انسان، ان کے پاس بیٹھنے والا، سننے والا، دیکھنے والا غرض ہر کوئی بس اس لمحہ انہیں کا ہو کر رہ جاتا تھا، جشن ریختہ پر ان کی تیکھی باتیں، لکھنؤ کی سردیوں میں ان کی گرم دم باتیں، جوانوں میں جوان اور بوڑھوں میں جوانی کی باتیں، مردہ دل کو زندہ کردینے اور سوتے ہوئے کو جگادینے والی باتیں___ آہ راحت آہ....*
ایک سچ کے لیے کس کس سے برائی لیتے
آبلے اپنے ہی انگاروں کے تازہ ہیں ابھی
لوگ کیوں آگ ہتھیلی پہ پرائی لیتے
برف کی طرح دسمبر کا سفر ہوتا ہے
ہم اسے ساتھ نہ لیتے تو رضائی لیتے
کتنا مانوس سا ہمدردوں کا یہ درد رہا
عشق کچھ روگ نہیں تھا جو دوائی لیتے
چاند راتوں میں ہمیں ڈستا ہے دن میں سورج
شرم آتی ہے اندھیروں سے کمائی لیتے
تم نے جو توڑ دیے خواب ہم ان کے بدلے
کوئی قیمت کبھی لیتے تو خدائی لیتے
*بلاشبہ مرحوم اس دور میں استاذی کے مقام پر فائز تھے، کون تھا جو انہیں اپنا بڑا نہ مانتا ہو، جس مشاعرہ میں دیکھا بس یہی پایا کہ ہر کوئی ان کیلئے قصیدہ خوانی کر رہا ہے، نذرانہ عقیدت پیش کر رہا ہے، محبت کے گل دے رہا ہے، واقعی زندگی کو جینے والا ایسا زندہ دل شاعر صدیوں میں پیدا ہوتا ہے، جو خود بھی بھرپور جئے اور دوسروں کوبھی زندگی کا احساس کراجائے؛ بالخصوص اس دور میں جبکہ لفاظی اور چیخ و پکار یا گلے کی گلوکاری کو شاعری سمجھ لیا جاتا ہے، آپ نہ صرف سچی شاعری کے آمین تھے؛ بلکہ حقیقت میں وارث بھی تھے، زندگی کا کوئی بھی مرحلہ ہو ان کی شاعری دوا کا کام کرتی ہے، انہوں نے آسان لفظوں میں ان جذبات کو پرو دیا ہے جو ہر کسی کے دل کا حال ہے، ملت کی کیفیت ہے اور قوم کا عالم ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کی تخلیقی گونج گلی کوچے میں سنائی پڑتی تھی، اوباش جوان بھی پڑھتا تھا اور مہذب ترین شخص بھی سینے سے لگاتا تھا؛ حتی کہ آپ کی شاعری نے قوم کی یوں نمائندگی کی تھی؛ کہ اسے سلوگن کے طور پر استعمال کیا گیا، بڑی بھیڑ، مجمع اور احتجاج میں آپ کے اشعار و افکار کی تختیاں نظر آتی تھیں، ابھی سی اے اے پروٹسٹ کے دوران "ہندوستان کسی کے باپ کا تھوڑہی ہے" کو بطور نعرہ استعمال کیا گیا تھا، گرم خون ہو یا سرد لہو ہر کسی نے اسے شعلہ و شرارہ کی طرح فضا میں اچھالا تھا، اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو زندگی میں جاودانی کا پیغام مل گیا تھا، ان کے ادب و فکر کو حرز جاں بنانے کا مژدہ دے دیا گیا تھا، شنید ہے کہ آپ کی شاعری سے ایوان بھی خوف کھاتے تھے، ان کے بیرونی پروگراموں پر نظر رہتی تھی، وہ اکثر و بیشتر بیرونی اسفار رہتے تھے، گویا آپ کی دیوانگی کی کوئی سرحد نہ تھی، وہ حدود و ثغود سے پرے ہوگئے تھے، دراصل ان کی ادائیگی، طرز، انداز کو دیکھ کر یقیناً بے دل چوکنا ہوجاتے تھے اور شکستہ زخم کا درماں پاتے تھے، اللہ مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے، آمین.*
افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے
لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کردیا
دو گز زمیں سہی، یہ میری ملکیت تو ہے
اے موت __! تونے مجھ کو زمیندار کردیا
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
11/08/2020
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔