آثار بتا رہے ہیں کہ عصری اور دینی تعلیم گاہوں کا مستقبل خطرے میں ہے، وہاں اب تعلیم ہوگی یا صرف ایک رسم ادا ہوگی، اور ڈگریاں تقسیم ہوں گی، کچھ کہا نہیں جاسکتا حکومت کی سرد مہری اور مستقبل کے لیے مضبوط اور ٹھوس پلانگ کا نہ ہونا یہی اشارہ دے رہا ہے۔
ایسے میں ضرورت ہے کہ گھر میں قدیم تعلیمی نظام کو رواج دیا جائے، خاندان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ٹیوٹرس اور اتالیق کو منتخب کیا جائے۔ اتالیقی کے زمانہ کو پھر واپس لایا جائے۔ گھر میں لائبریری اور کتب خانے قائم کئے جائیں، بچوں کی اپنی لائبریری ہو اس کا بھی نظام بنایا جائے۔ ادبِ اطفال پر کتابیں اکھٹا کی جائیں۔ زبان و بیان کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔ ادبی علمی دینی ماہنامے جاری کرائے جائیں۔
افسوس کہ آج گھر میں آسائش کی ساری چیزیں موجود ہیں، فرنیچر اور آلات و اسباب کی کمی نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ کتابیں اور وسائلِ علم ہیں۔ بعض گھروں میں بلکہ اکثر گھروں میں تو مطالعہ کے لیے کوئی کتاب نہیں ہے۔
اب ضرورت ہے کہ ان حالات میں ہم اپنی اولاد کی تعلیم کے لیے خود انتظام کریں۔ ان کے لیے اتالیق اور اساتذہ کا انتظام کریں، بجٹ کا زیادہ حصہ تعلیم و تربیت پر صرف کریں۔
اب ہمیں اپنے گھروں کو باقاعدہ تعلیم گاہ، تربیت گاہ بنانا پڑے گا۔ اور حکمت عملی کے ساتھ اپنی نسل کی تربیت کرنی ہوگی،اور ان کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھانا ہوگا۔
اگر آپ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں تو آج ہی سے عملی کوشش شروع کردیں
جزاکم اللہ خیر الجزاء❤️
(مولانا) محمد قمر الزماں ندوی کے وال سے)
نوٹ اگر کسی کے پاس میری یہ پوری تحریر موجود ہو تو مجھے پوسٹ کردیں۔
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔