اب سب کچھ آئینہ سے زیادہ صاف ہے

???? *صدائے دل ندائے وقت*????(838) *اب سب کچھ آئینہ سے زیادہ صاف ہے__*

*بھارت کی جمہوریت اپنے تمام تر عیوب و ہنر کے ساتھ ظاہر ہوچکی ہے، بالخصوص اکثریت کے زور نے یہ ثابت کردیا ہے؛ کہ ہندوستان ایک امن پسند جمہوری ملک کبھی نہیں بن سکتا، یہاں فسادات کی طویل ترین فہرست ہے، جس میں نہ صرف عوامی تشدد بلکہ مقننہ، عدلیہ اور حکومت کے ساتھ ساتھ میڈیا غرض ہر ایک عنصر برابر شریک و سہیم رہا ہے، یہ بات اگرچہ ماضی کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی؛ لیکن حالیہ دنوں میں اسے صاف طور برتا گیا ہے، چنانچہ ١٩٨٤ میں بھی سکھ کشی کی گئی؛ مگر کم از کم اتنا تو تھا کہ اس وقت حکومت نے اسے درست ٹھہرانے کی کوشش نہ کی تھی، سیاست دان اپنے آپ کو اس سے بچا رہے تھے؛ بلکہ حکومت نے تمام اعلی عہدیداران کو برخواست کردیا تھا، اور ہر طرف سے اس کی مذمت برابر کی جاتی رہی ہے، شاید اسی داغ کو دھونے کیلئے منموہن سنگھ کو باقاعدہ وزیراعظم کے عہدے سے سرفراز کیا گیا تھا، اور انہوں نے پارلیمنٹ میں معافی بھی مانگی تھی؛ لیکن گجرات مسلم کشی کی سب سے بڑی آماجگاہ بنا، جہاں تین دنوں تک مسلسل قتل عام ہوا، گھروں کو جلایا گیا، ایک ایک مسلم کو چن چن کر آگ کے حوالے کیا گیا، یہ ساری رپورٹس محفوظ ہیں؛ مگر کمال کی بات یہ ہے کہ اس فساد میں موجود بعض افراد کی نشاندہی کی گئی، انہیں عدالتی ٹرائیل کیلئے بھیجا گیا، جن میں زیادہ تر علاقائی بدمعاش تھے، لیکن اکثر و بیشتر کی حوصلہ افزائی کی گئی، انہیں اعلی عہدے سے نوازا گیا، ان کے ساتھ حسن سلوک کیا گیا، خود اس وقت گجرات کے وزیر داخلہ اور وزیر اعلی نریندر مودی نے خاموشی برتی اور قتل عام پر بڑے دنوں بعد زبان کھولی تھی، یہ دونوں آج ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں.* *اسی طرح ٢٠١٤/ مظفر نگر میں بھی یہی سب کچھ ہوا تھا، لیکن سارے معاملات دبا دئے گئے، افسران کو گم کردیا گیا، اور ان میں بہت سے موجودہ یوپی حکومت کے اہلکار بن گئے، اسی طرح آپ کو یاد ہوگا کہ دربھنگا فساد میں بھی یہی سب کچھ ہوا تھا، بلکہ وہاں کے سلسلہ میں بعض روایتیں تو ایسی ہیں؛ کہ انہیں سن کر اور پڑھ کر روح کانپ جاتی ہے، کہتے ہیں کہ وہاں مسلمانوں کو مار کر یا ان کے اعضاء و جوارح کاٹ کر کھیتوں میں گاڑ دئے گئے تھے اور اسی پر گوبھی کی فصل اگائی گئی تھی. ____ اب انہیں سلسلوں میں ایک سلسلہ دہلی فساد کا ہے، موت کی تمام حدیں پار کردی گئیں، ہندو مسلم سبھی مارے گئے، اگرچہ مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، لیکن ایسی ایسی تصاویر سامنے ہیں کہ انسانیت سے سر جھک جائے، پرائیویٹ پارٹ کاٹ لئے گئے، انسان کو مار کر انہیں نالی میں پھینک دیا گیا، اور یہ سب کچھ دہلی کی پولس کے سامنے ہوا، بلکہ اس کی سرپرستی میں ہوا، عجیب بات ہے کہ اس وقت وزیراعظم نریندر مودی ہیں، جو مہمان نوازی میں مصروف تھے، ٹرمپ کی آمد پر بغل گیر ہورہے تھے، مگر وزیر داخلہ امت شاہ کہاں تھے، وہ جموش تھے، موت کا ننگا ناچ دیکھ رہے تھے، وہ سیاست کی موٹی چادر ڈال کر سورہے تھے، کیجریوال اور منیش سسودیا راج گھاٹ پر گاندھی کے سامنے سر خم کئے ہوئے تھے، کاش وہ جانتے کہ آزادی کے وقت اس کا جشن منانے کے بجائے گاندھی جی کلکتہ فساد کو سنبھالنے اور وہاں جا کر لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کو ترجیح دی تھی، وہ کسی مزار پر نہیں گئے، کہیں راج گھاٹ پر نہیں گئے؛ بلکہ اپنے ایمان اور ضمیر پر عوام کے درمیان گئے، ہر طرف چراغاں تھا، لیکن آپ اندھیرے میں بند تھے، تاکہ ملک کے ایک اور حصہ کلکتہ میں بھی روشنی پھیل سکے.* *اب تصویر تو آئینہ کی طرح صاف ہے، سارا نظام ملا ہوا ہے، مسلم کشی پر ہر کوئی راضی ہے، تجزیہ نگار بتارہے ہیں کہ اس فساد کو بآسانی روکا جا سکتا تھا، لیکن وقت پر کچھ نہ کیا گیا، لوگ افسران کو فون کرتے رہے، حکومت کی چوکھٹ پر دستک دیتے رہے، کنڈی ہلاتے رہے؛ لیکن کسی نے لبیک نے کہا، ایسا لگتا تھا کہ سبھی نے کانوں میں روئی ٹھونس لی ہے، چنانچہ جوکچھ بھی ہوا اسے تین دن کے بعد ہی انجام دیا گیا، ٹھیک گجرات کی تصویر دوہرائی گئی، کیجریوال بھی تین دن کے بعد حرکت میں آئے، امیت شاہ نے دو تین میٹنگ بلائی؛ لیکن کوئی ایکشن نہ لیا، اور زبان تو جیسے کٹ گئی ہو، منہ میں برف جم گی ہو، کہ ایک لفظ بھی نہ نکلا، کم از کم امن بحالی کا جھوٹا ناٹک ہی کرلیتے__ تو وہیں وزیراعظم صاحب کی بات جائے تو انہوں نے بھی تین کے بعد ہی ٹویٹ کر شانتی کی بات کہی، یہ گویا خالی جگہ پر کرنے کے سوا کچھ نہ تھا، یوپی کے سابق پولس سربراہ نے کہا تھا کہ اگر پولس چاہے تو ایک دن میں فسادات کو روک سکتی ہے، اس بیان کو بھی سامنے رکھتے ہوئے تمام احوال پر نظر دوڑائیں، سب صاف سمجھ آتا ہے، کہ کون کیا چاہتا ہے__؟ دراصل یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، ایک سروے کے مطابق بی جے پی جب جب فساد کرواتی ہے، تب اس کا ووٹ بینک آٹھ فیصد بڑھ جایا کرتا ہے، یہی ان کی فکر ہے اور یہی ان کا مقصد بھی ہے، مودی جی یوں تو ٹویٹ کرنے میں بڑی جلدی کرتے ہیں، حتی کہ ایک ہیرو اور ہروئن کو مبارکباد دینے کیلئے بھی وقت نکال لیتے ہیں؛ مگر مسلمانوں کے کسی مسئلے کی بات ہو تو وہ ہمیشہ تاخیر کر جاتے ہیں.* *یاد کیجیے__ اخلاق کو پیٹ پیٹ کر ماردیا گیا، یہ ایک نیی تحریک ہجومی تشدد کی شروعات تھی؛ لیکن مودی جی نے ایک ہفتہ کے بعد اس پر اپنا جیال پیش کیا تھا، یوپی کے اندر اناو میں دلتوں کو بڑی بے رحمی کے ساتھ مارا گیا تھا، ہر طرف اس پر چرچا تھی؛ لیکن یہ بھی اس مہم کی ایک نئی شروعات تھی جو نچلے طبقات کے خلاف تھی، چنانچہ مودی جی نے ایک مہینے کے بعد اس پر منہ کھولنے کی ضرورت محسوس کی تھی، کیونکہ ان سب سے ان کا حقیقی ووٹ بینک بنتا ہے، اسی لئے وہ ایسے ناگفتہ واقعات کو طول دینا چاہتے ہیں ___ لہذا دہلی کے سلسلہ میں نہ تو انہوں نے خود کچھ کیا اور نہ کسی کو کرنے کردیا. ملک میں ایک اور طاقت عدلیہ کی سمجھی جاتی ہے؛ لیکن اس وقت وہ بھی حکومت کے سامنے puppet کے مانند ہے، جسٹس مرلی دھر نے اس پر سخت ایکشن لیا، وہ دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس تھے، مگر اس سے پہلے کہ شنوائی مکمل ہوتی اور نفرت انگیز بیانات دینے والوں کے خلاف کارروائی کی جاتی، انہیں رات کو ساڑے گیارہ بجے ٹرانسفر کی خوشخبری دے دی گئی، اگرچہ انہوں نے خود ٹرانسفر کیلئے عرضی دی تھی، لیکن اتنی جلدی کیا تھی کہ فی الفور منظوری دے دی جائے، یہ کسی کو نہیں معلوم___؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس فساد کے ایک ایک پرت کو سمجھنے کی کوشش کریں گے، تو پانی سے صاف طور پر معلوم ہوگا؛ کہ یہ سب منصوبہ بند طریقے پر کیا گیا تھا، دیش کا ہر محکمہ اس میں شامل تھا، بس اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہ صاف آئینہ دکھائی دیتا ہے یا نہیں __؟ وہ اب بھی جود کفیل بنتا ہے یا نہیں __؟ یا جمہوریت اور سیکولرازم کے بھونپو کو لئے پھٹے سر میں نغمہ سرائی کرتا ہوا، اپنا سر تشتری میں سجا کر پیش کرتا ہے__؟*

✍ *محمد صابر حسین ندوی* Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 29/02/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔