احتجاج کا حق۔اور خواتین
احمد نادر القاسمی
بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال گردش کررہاہے کہ آخر خواتین کیوں اپناگھر بار چھوڑ کر احتجاج میں جٹی ہوئی ہیں ۔کئی روز سے خیال ہورہا تھا کہ شرعی نقطۂ نظر سے اس وقت کے حساس اور قومی مسئلہ پر اپنی رائے رکھوں ۔اسی جذبہ سے اظہار کی جرات کررہاہوں ۔میں اس تفصیل میں نہیں جاؤں گا کہ حضرات صحابیاتؓ کا مکہ مدینہ سے لیکر حبشہ کی ہجرت اور اس کے بعد تعمیر ملت میں کیا رول رہا ہے۔ کیوں کہ وہ لمبی بحث ہے ۔بات یہاں صرف حقوق کے دفاع اور اپنے حقوق کے مطالبے کی ہے اس لیے بحث اسی کے گرد محدود رہے گی ۔
کتاب وسنت کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اپنے جائز حقوق کے مطالبے کا حق جس طرح اللہ تعالی نے مردوں کو دیا ہے اسی طرح خواتین کو بھی دیا ۔شرعی احکام کامکلف جس طرح مردوں کو شریعت نے قرار دیاہے اسی طرح صنف نازک کی جسمانی اور طبعی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوۓ خواتین کوبھی قرار دیاہے۔جس طرح کار ثواب پر اجر وثواب کا مستحق اس کو گردانا گیاہے اسی طرح جرم کے ارتکاب پر اس کے لیے بھی شرعی سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔اپنے حق کے لیے شرعی عدالت سے رجوع ہونے کا اختیار جس طرح مردوں کو ہے اسی طرح خواتین کو بھی ہے ۔شہری اور دنیاوی حقوق جس طرح مردوں کو حاصل ہیں ۔عورتوں کو بھی ہیں ۔تو جب سارے ہی حقوق عورتوں کو شریعت نے اپنے شوہروں سے مطالبے کے دیے ہیں ۔یہاں تک کے بالغ وعاقل بچیوں کو اپنے شوہروں کے انتخاب تک کا حق دیا ہے تو پھر شرعی حدود میں رہتے ہوۓ اپنے شہری حقوق کے مطالبے ۔اور دفاع کا حق کیوں نہیں ہوگا ۔چاہے کسی کی ماں ہو ۔بہن ہو بیوی ہو ۔مرد ہو بوڑھا ہو جوان ہو سب ??و یہ حق حاصل ہے کہ ہر ممکن اپنی آئڈنٹیٹی اور شرافت وعزت کی بقا کی جنگ لڑے اور مطالبہ کرے ۔مگر شریعت کے حدود اور دینی پاس ولحاظ کے دائرے میں ۔اگر مرد ان کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری لیتے ہیں اور لینا چاہیے تاکہ اس کے ناموس پر کوئی آنچ نہ آۓ۔ تو نور علی نور ۔اور اگر کماحقہ نہیں لیتے تو خود شرعا ان کو بھی یہ حق حاصل ہے ۔اس لیے اس وقت ملک میں جاری شہری حقوق کے دفاع کی جدوجہد میں خواتین اپنا کردار ادا کررہی ہیں تو کہیں سے بھی اسے غیر شرعی نہیں کہاجاسکتا ۔البتہ یہ بات بہر حال ضروری ہوگی کہ ان کو اپنے عزت وناموس اور شرعی حدود کو بروۓ کار لانے اور ملحوظ رہنے کا ظن غالب ہو تاکہ جذبات میں ان کی حرمت پامال نہ ہونے پاۓ ۔اور ایسے موقعہ پر مردوں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ان کو ہر ممکن تحفظات فراہم کرنے کی کو??ش ہی نہیں بلکہ اس کے لیے مستعد رہیں ۔اور اس وقت جو جدوجہد جاری ہے وہ جان پر بن آنے والی نہیں بلکہ حقوق اور تشخص کے بقا کی جدوجہد ہے اس لیے مشترک طور پر ہی جاری رکھنا ممکن ہوسکتاہے ۔اور اسی نہج پر جاری رہنی چاہیے ۔والسلام