سعد مذکر قاسمی بٹلہ ہاؤس اوکھلا نئی دہلی samuzakkir@gmail.com
انسان فطری طور پر مختلف المزاج ثابت ہوا ہے، قدرت نے اس میں ایک صلاحیت رکھی ہے جس کے ذریعے اپنی یا دوسروں کی بات میں مثبت و منفی رائے قائم کرنے اور اس کی توثیق و تردید کرنے کا بھرپور اختیار رکھتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ عین فطرت کے مطابق بھی ہے۔
اس جہان رنگ و بو میں ہر قسم کی چیزیں موجود ہیں چھوٹی بڑی، خوب صورت، کوئی شوخ رنگ ہے تو کوئی مدھم، کسی میں طوالت ہے تو کسی میں پستی، الغرض ہر چیز مختلف ہے، لیکن ان مختلف النوع اشیاء میں ایک قدر مشترک صفت اعتدال ہے جس کی بنا پر ہر چیز میں باوجود اختلاف کے ایک حسن موجود ہے جو اس کا امتیاز بھی ہے۔
اختلاف رائے انسان کا بنیادی، آئینی اور اس سے بڑھ کر فطری حق ہے اور دوسروں کی رائے کا احترام ایک اخلاقی فریضہ ہے۔ سیرت کی کتابوں میں اگر طائرانہ نظر بھی ڈالی جائے تو ہمیں اس بات کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے کہ صحابہ کرام میں بھی اختلاف رائے پایا جاتا رہا ہے۔ بلکہ آقا مدنی اور ان کے جاں نثاروں میں بھی مشورے کی حد تک بعض دفعہ رائے کا اختلاف تھا؛ ایک بار حضرت زید کی اہلیہ کو حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے ایک رائے دی جس پر انہوں نے نہایت ادب و احترام کے ساتھ عرض کیا یارسول اللہ یہ آپ کی رائے ہے یا آپ کا حکم؟ اگر رائے ہے تو اس سے اختلاف کی گنجائش رکھتی ہوں، اور اگر یہ آپ کا حکم ہے تو سر تسلیم خم کرتی ہوں۔ جنگ بدر کے قیدیوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رجحان ایک طرف تھا، اس کے باوجود، فیصلے سے پہلے تک حضرت عمر اور دیگر اصحاب کی رائے مختلف تھی۔ غزوہ اُحد سے قبل حضرت کی ذاتی رائے بھی مدینہ کے حدود میں رہ کر مقابلہ کی تھی، لیکن حدود مدینہ سے باہر نکل کر مقابلہ کرنے کی بھی رائیں سامنے آئیں۔ صلح حدیبیہ کے وقت بعض شقوں کے سلسلے میں حضرت عمر کے ذاتی تحفظات تھے اور اس کا انھوں نے اشارۃً اظہار بھی فرمایا۔ اسی طرح صحابہ کے درمیان بھی اختلاف رائے رہا ہے اس کی سب سے بہترین مثال کسی بھی معاملے میں صحابہ کے آپسی مشورے ہیں کہ ان میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ تمام کی رائے ایک رہی ہو؛ حضور نے ارشاد فرمایا تھا کہ مزدلفہ جاکر ہی مغرب کی نماز پڑھنا، جس سے بعض صحابہ کرام نے سمجھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جلد از جلد سفر کرنے کو فرما رہے ہیں جبکہ دوسرے حضرات نے حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے اس ارشاد کا یہ مطلب سمجھا کہ مغرب کی نماز مزدلفہ ہی میں پڑھنی ہے۔ مرض وفات میں حضور کچھ اہم باتیں لکھوانے کی آرزو رکھتے تھے لیکن اہل بیت ہی میں دو رائے سامنے آگئیں، جس کی تفصیل حدیث قرطاس میں موجود ہے۔ حضور کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد خلافت کے مسئلہ میں ایک لمحے کیلیے سقیف بنو ساعدہ میں اختلاف رائے کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔مانعین زکوۃ کے معاملے میں اولا حضرات شیخین کا اختلاف رہا جو بعد میں رفع ہوگیا۔ اسی طرح طاعون عمواس کے وقت حضرت عمر کی رائے تھی کہ متاثرہ بستی حضرت ابو عبیدہ باہر آ جائیں اور اس علاقے کے افراد کو منتشر کردیا جائے اور انھیں اس علاقے سے نکال لیا جائے جب کہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو اس سے اتفاق نہیں تھا۔ بعد میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص نے حضرت عمر کی منشا کو سمجھتے ہوئے لوگوں کو پہاڑوں اور گھاٹیوں میں منتقل کر دیا، جس سے بفضل خدا وبا کا اثر بھی ختم ہو گیا۔
صحابہ و تابعین اور ائمہ و فقہاء کے درمیان اس قدر زیادہ اختلاف رائے کا ثبوت ملتا ہے جس کا حصر ناممکن ہے، اختلاف رائے کی وجہ سے ایک مسئلہ میں بہت سی آراء فقہی مباحث میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ لیکن ایک اہم بات جو ان تمام اختلافات میں مشترک ہے وہ ایک دوسرے کی رائے کا احترام اور اختلاف کرنے والے کا اپنے تئیں مخلص ہونا ہے۔ یہ دو باتیں جس اختلاف میں موجود ہوں گی وہ اختلاف صحت مند اور مفید ثابت ہوگا اور یہی صالح اختلاف کی روح بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرون اولیٰ میں ہمیں ڈھونڈنے سے بھی ایسے واقعات کم ملتے ہیں جس میں یہ دونوں چیزیں نہ ہوں۔ غور کیجیے تو یہ بات عیاں ہو گی کہ چاروں مکاتب فکر کے اختلاف کی بنیاد ان کے اصول و قواعد اور ترجیحات کے ضوابط کا مختلف ہونا ہے، لیکن اس کی وجہ سے آپس میں کبھی نزاع کی نوبت نہیں آئی۔ اختلاف بدستور باقی رہا اور اس سے کسی قسم کا انفرادی یا اجتماعی نقصان بھی نہیں ہوا۔ چوں کہ اختلاف کی بنیاد اخلاص پر تھی اسی لیے قرونِ اولی میں ادب الاختلاف پر کوئی باضابطہ کتاب بھی نہیں لکھی گئی۔ بعد کے دور میں لوگوں میں علم کی کمی، فراست کے فقدان، اور اختلاف میں ذاتی مفاد کی شمولیت نے نزاعات کا روپ دھار لیا پھر وہ اختلاف صالح نہیں رہا، بلکہ اسے مخالفت کا نام دیا جانے لگا۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اسلاف میں اختلاف پانچ طرح کے رہے ہیں: (١) مذہبی اختلافات؛ جس کا دائرہ عمل ادیان ومذاہب ہوا کرتا تھا جیسے: اسلام، مسیحیت، یہود یت اور دیگر مذاہب۔ اس میں نتیجے کے طور پے ایمان اور کفر کا حکم لگتا ہے۔ (٢) اہل قبلہ کا اختلاف؛ جیسے اہل سنت، معتزلہ، خوارج اور منکرین حدیث کے اختلافات، جسے حق و باطل کا عنوان دیا جا سکتا ہے۔ (٣) اہل سنت میں فقہاء کرام کے باہمی آرا کا اختلاف۔ یہ اختلاف احکامات سے متعلق ہے اس کا دائرہ کار چاروں مکاتب فکر اور اہل ظواہر ہیں۔ یہ باوجود اپنی تمام تر شدت کے پہلی دونوں قسموں سے فروتر ہے اور اس کا منتہا ایمان و کفر اور حق و باطل کی بجائے خطا و صواب ہے۔ (٤) اولی اور غیر اولی کا اختلاف، جو عام طور پر ایک ہی مکتب فکر کے درمیان رہا ہے اس کو خطا و صواب سے بھی تعبیر کرنا ایک طرح کی ناانصافی ہے۔ (٥) عقائد فہمی کا اختلاف۔ اس میں اہل سنت کے مسلمہ عقائد کو تسلیم کرتے ہوئے اس کو تعبیر کرنے میں مختلف آراء سامنے آتی ہیں۔ مثلا اشاعرہ ماتریدیہ اور ظاہریہ کا اختلاف۔ یہ بات واضح رہے کہ اگر کوئی مسلمہ عقائد کا منکر ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔لیکن عقائد کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی تعبیر میں غلطی کرنے والے کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کہاجاتا۔
ہمارے لئے تشویش کا باعث یہ ہے کہ ہم نے ان اختلافات کو آپس میں خلط ملط کر دیا اور سبھی کو ایک خودساختہ ترازو میں تولنے لگے۔ قبول و رد کا ہم نے اپنا ایک الگ معیار طے کرلیا ہے اور اسی پر اختلاف کو پرکھنے لگے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے درمیان بے حد دوریاں پیدا ہوگئیں۔ ہر ایک باہم برسر پیکار نظر آنے لگا۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ زبانیں بے لگام ہو گئیں،قلم بے قابو ہو گئے اور دبے پاؤں ہمارے اختلاف میں عصبیت، ذاتی مفاد، انانیت اور بے جا ضد در آئیں۔ اور اس طرح ہم صالح اختلاف سے محروم ہوگئے۔ اور بے روح اختلاف کی وجہ سے ہمارے بہت سے اختلافات نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے۔
اب تو صورت حال بہت زیادہ دگرگوں ہوگئی کہ جس کے جی میں آتا ہے وہ بے باکی کے ساتھ رائے قائم کرنے لگتا ہے، بسا اوقات ہم نے یہ بھی محسوس کیا کہ اختلاف کرتے وقت بہت سے حضرات اس بات کا بھی ذرہ برابر لحاظ نہیں کرتے کہ جس سے اختلاف کیا جارہا ہے وہ ان کے استاد یا استاد کے استاد ہیں۔
بات اگر یہیں تک محدود ہوتی تو کوئی حرج نہ تھا، لیکن آزادی رائے کے اظہار کے نام پر اکابرین اور اسلاف امت کے خلاف بھی زبان طعن دراز ہونے لگی۔ تحقیقات کی آڑ میں لوگ مسلمہ اصول و قواعد کے انکاری ہوگئے۔ پھر دیکھا دیکھی نو واردان بھی اس میدان میں کود گئے اور ہمہ دانی کے واہمے کا شکار ہوگئے۔
یہ بات بجا ہے کہ اختلاف ناگزیر ہے لیکن اس کے لیے کچھ اصول و شرائط ہیں جن کا پاس و لحاظ بھی ضروری ہے۔ اسی لئے ہمیں رائے قائم کرنے میں انتہائی محتاط انداز اختیار کرنا چاہیے جس سے کسی کی تنقید نہ ہو؛ نقد کو تو ہر زبان کے ادب میں ایک مقام دیا گیا ہے لیکن شرائط کے ساتھ ورنہ نقد برائے نقد کبھی بھی مصلح ثابت نہیں ہوا ہے۔
سید احمد شہید کی تحریک کو فوری کام یابی نہ ملنے کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ لوگوں نے محض حسد کی بنیاد پر انھیں وہابیت کی طرف منسوب کر دیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ راتوں رات پٹھانوں نے 500 سے زائد قضاۃ اور علما کو تہ تیغ کر دیا جس سے ان کی ساری محنت پر پانی پھر گیا۔(واضح رہے کہ جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ سید احمد شہید کی تحریک بالکلیہ ناکام ہو گئی، یہ صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ ان کی تحریک کے بنیادی عناصر میں بدعات کا خاتمہ اور سنت و شریعت کو فروغ دینا شامل ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہی ان کی تحریک کی اصل روح ہے، جو الحمد للہ اب بھی اپنی صحیح شکل میں موجود ہے، حقیقت یہ ہے کہ آج ہم لوگ جو دین پر قائم ہیں وہ سید احمد شہید رحمہ اللہ کی تحریک کے ہی مرہون منت ہیں)۔اسی طرح ماضی قریب میں جو علما گزرے ہیں، یقیناً ان کے بعض مفروضات مسلمہ اصول کے خلاف تھے، لیکن اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ ان کے تمام تر کارناموں کو یکسر نظر انداز کر کے آتش جولاں کے حوالے کردیا جائے اور ان پر گمرہی کی ایسی مہر ثبت کی جائے جس سے ان کی ساری محنتیں سیاہ کویں کے حوالے ہو جائیں۔
ہم اختلاف کرتے وقت اس بات کا لحاظ بالکل نہیں کرتے کہ ہماری ایک رائے کسی کے لئے کیا اثر رکھتی ہے؟ ہمارا ایک جملہ ممکن ہے پورے علاقے پر اثرانداز ہو جائے اور کسی کے تمام مجاہدات مٹیا میل ہو جائیں۔ ہمارے اس غیر صالح اختلاف میں مسلکی دوریاں بھی کسی حد تک محرک ثابت ہوئی ہیں، اور صورت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ہم نے کسی بھی بات کی تردید کا ایک معیار یہ بھی طے کر لیا ہے کہ اس کا تعلق کسی دوسرے طبقے یا گروہ سے ہونا کافی ہے۔ پھر چاہے اس کی بات کتنی ہی سودمند اور مفید کیوں نہ ہو، ہم ذرا بھی گوارا نہیں کرتے کہ ان کی بات کو سمجھیں یا اہمیت دیں۔
اس لیے اگر ہم محتاط انداز میں اپنی رائے رکھیں، ہماری اختلافی رائے سے کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہونے پائے، اور اپنی رائے کو حتمی اور قطعی نہ جانتے ہوئے دوسرے کی رائے کو مہمل نہیں گردانیں، تو یقین جانیے بہت سے تنازعات کے ختم ہو جانے کا قوی امکان ہے اور باہمی احترام و رواداری کو فروغ ملنے کے ساتھ ایک صالح معاشرہ بھی وجود میں آ سکتا ہے۔۔۔۔۔
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔