*انسانی* زندگی میں اخلاق حسنہ(حسن خلق) کو جو اہمیت حاصل ہے ،وہ کسی سے مخفی و پوشیدہ نہیں ہے اور اس کی اہمیت و افادیت سے کسی کو بھی انکار نہیں ہوسکتا ۔ قوموں کی تاریخ میں کسی ایسی قوم کی مثال نہیں ملتی ،جس میں نیکی و بدی خیر و شر اور صحیح اور غلط کا سرے سے کوئی تصور نہ پایا جاتا رہا ہو ۔ جو لوگ جبریت (Determinism) کے قائل ہیں وہ بھی علی الاعلان اس بات کا دعوی نہیں کر سکتے کہ ان کے نزدیک جھوٹ اور سچ میں حق اور ناحق میں صحیح اور غلط میں یا ایمان داری اور مکر و فریب میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ اس سے کس کو انکار ہے ؟ کہ تقوی و طہارت، سچائ، راستی، خیر پسندی اور سلامت روی انسان کی مطلوبہ صفات ہیں ۔ انسانی ضمیر کے لئے یہ کبھی ممکن نہیں ہو سکتا کہ وہ ایفائے عہد کے مقابلے میں مکر و فریب کو ،ایثار و قربانی کے مقابلے میں خود غرضی کو اور جذبئہ اخوت و ہمدردی کے مقابلے میں بغض و عناد، حسد و تعصب اور ظلم و ستم و جبر و تشدد کو بہتر سمجھنے لگے ۔
*اخلاق* کی قدر و قیمت اور حقیقت کو سمجھانے اور ذھن میں نقش کرنے کے لئے ماہرین اخلاقایات نے بہت کچھ لکھا ہے ۔ جس کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے ۔
انسانوں سے کسی خاص قسم کے اخلاق کے مطالبے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ ہم انسان کو صاحب اختیار و ارادہ سمجھتے ہیں ۔ اس لئے کہ جہاں کوئ ارادہ و اختیار نہ پایا جاتا ہو وہاں کسی اخلاق و کردار کا سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اخلاق کا تعلق اور نسبت انسان کے ارادہ و اختیار سے ہے ۔ انسان کو دنیا میں ارادہ و اختیار کی آزادی حاصل ہے اس لئے اس کا ایک اخلاقی وجود ہے ۔ یہی چیز ہے جو اسے عام حیوانات سے ممتاز کرتی ہے ۔ ( کلام نبوت ۲/ ۱۵)
*انسانی* زندگی میں اخلاق کی اس قدر اہمیت اور ضرورت کے بعد بھی معیاری اور انسانی اوصاف و کمالات اور اخلاق و کردار کے حامل کم ہی لوگ ملتے ہیں لیکن اس سے ہم کو مایوس نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ اچھے اور باکردار لوگوں کی تعداد ہمیشہ اور ہر زمانے میں کم رہی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت اور سچائ کو ایک جامع مثال سے سمجھایا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا *انما الناس کالابل المأة لا تکاد تجد فیھا راحلة* (بخاری و مسلم )
لوگ ان سو اونٹوں کے مانند ہیں جن میں مشکل ہی سے تم کسی کو سواری کے قابل پا سکو ۔
یعنی جس طرح اونٹوں کی ایک کثیر تعداد میں اپنے مطلب کا اونٹ آسانی سے نہیں ملتا یہی حال انسانوں کا بھی ہے ۔ کہ بااخلاق ،معیاری اور انسانی اوصاف و کمالات کے حامل لوگ کم ہی ملتے ہیں ۔ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ جامع حدیث ہمارے پیش نظر رہے تو ہم اس صورت حال سے کبھی بدل اور مایوس نہیں ہوں گے ۔ اور ہمارے اندر اس یقین کا استحضار بھی ہوگا کہ تھوڑے افراد بھی معیاری قسم کے میسر آجائیں تو وہ ایک بڑی اکثریت پر بھاری ہوں گے ۔ اور ان کے ذریعہ سے بڑے سے بڑا کارنامہ انجام پاسکتا ہے تاریخ انسانی ہمیں یہی بتاتی ہے اور اس کی ہزاروں مثالیں تاریخ کے روشن اور تابندہ صفحات میں موجود ہیں ۔
ہم سب کو یہ تسلیم ہے کہ حسن اخلاق اپنے ظاہر اور نتائج کے اعتبار اور لحاظ سے اللہ کی طرف سے ایک بہت بڑی عطا انعام اور بخشش ہے ۔ حسن اخلاق میں جو جاذبیت،کشش،مقناطیسیت اور حسن و جمال پایا جاتا ہے اس کا کسی اور شے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ اخلاق میں جو مقناطیسی قوت اور اثر ہے وہ کسی کرامت (Miracle ) میں بھی نہیں ہے ۔ اخلاقی طاقت سے دشمنوں کے دل بھی مفتوح ہو جاتے ہیں ۔ اور ایک داعی و مبلغ اور ہادی و رہبر کی زندگی میں تو اخلاق کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور نرم دلی کو قرآن مجید نے خدا کی رحمت قرار دیا ہے ۔ کار نبوت کے انجام دینے میں اس اخلاقی وصف کی جو اہمیت ہے اس پر بھی قرآن نے روشنی ڈالی ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے : *فبما رحمة من اللہ لنت لھم ولو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک فاعف عنھم و استغفر لھم و شاورھم فی الامر*( آل عمران : ۱۵۹) اے نبی ص ! یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم (آپ) لوگوں کے لئے نرم مزاج ہو۔ اگر کہیں تم تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ سب تمہارے پاس سے چھٹ جاتے ۔ تم انہیں معاف کردو اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کرو اور دین کے کام میں انہیں بھی شریک مشورہ رکھو ۔
غرض یہ کہ حسن اخلاق انسان کے لئے ایک لازمی اور ضروری وصف ہے ۔ یہ وہ وصف ہے جس سے بہت سی چیزوں کی تلافی ممکن ہے ۔ یہاں تک کہ اپنے اخلاق کے ذریعہ سے آدمی اس شخص کے درجہ اور مقام کو بھی حاصل کرلیتا ہے جو راتوں میں عبادت کرتا ہے اور دن میں روزہ رکھتا ہے ۔ بااخلاق مومن حقیقت کی نگاہ میں ہمیشہ اللہ تعالی کی بندگی و اطاعت کی حالت میں ہوتا ہے ۔ اس کی روح پاکیزگی اور اس کی فطرت و طبیعت کی صالحیت اسے ہمیشہ اعلی درجہ کی روحانیت اور کردار کے اعلی مقام سے جوڑے رکھتی ہے ۔