*اسٹوڈنٹس کی تحریکیں کہاں گم ہوجاتی ہیں _؟* ✍ *محمد صابر حسین ندوی*
*ہر سال اسٹوڈنٹس کی تحریکیں اٹھتی ہیں، موقع بہ موقع سیاست کے گلیاروں میں گرمی پیدا کرتی ہیں، ان کے جوش اور ولولے کے آگے پورا ہندوستانی سیاست جھکنے لگتا ہے، ایسا لگنے لگتا ہے کہ اب ایک نئی قیادت جنم لے گی، اب ایک نیا سورج نکلے گا اور ہندوستان کی کرپٹ سیاست پر یقین و اعتماد کی شعاعیں بکھیر جائے گا؛ لیکن ہوتا کیا ہے _؟ وہ سب کسی حباب کی طرح اٹھتے ہیں اور لمحہ دو لمحہ میں گم ہوجاتے ہیں، یاد کیجئے_! JNU میں جب دہشت گردانہ سلوگن کیلئے کنہیما کمار، عمر خالد اور شہلا راشد کو منظر عام پر دیکھا گیا تھا، تو اس وقت یہ محسوس کیا جا سکتا تھا کہ ان کے ایک ایک نعرے کے سامنے حکومت وقت کی نیند حرام ہونے لگتی تھی، حکمراں طبقہ اس قدر بوکھلا گیا تھا کہ ویڈیوز ایڈٹ کروائی، اور نیوز چینلز نے ایک ملمع کھڑا کردیا تھا، مگر جیسے ہی وہ یونیورسٹی کے حزب الطلبہ کی صدارت سے اپنی میعاد پوری کرکے مستعفی ہوئے، ان کا وجود گرد آلود ہوگیا، عمر خالد کورٹ کچہری میں پھنسا دئے گئے، شہلا راشد اپنی پڑھائی میں مصروف ہوگئیں، یہاں تک کشمیر کے ساتھ کچھ ہوا وہ کچھ نہ کر سکیں، کوئی تحریک یا کوئی آندولن تک انجام نہ دے سکیں، اب صرف ٹویٹر پر ٹویٹ کرتی ہیں، اور ملک کے ایوان کو ہلادینے اور فاشزم کے خلاف فتح پالینے کا خواب دیکھتی ہیں۔* *رہ گئے کنہیما کمار تو انہوں نے اسی سیاست کو گلے لگا لیا اور لیفٹ کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے بہار کے بیگو سرائے سے راجیہ سبھا کیلئے کھڑے ہوگئے، نتیجہ یہ ہوا کہ سیاست نے انہیں محدود کردیا، وہ بھی منتخب عناوین پر بولنے لگے، پھر ان کی شکست نے مزید انہیں کمزور کردیا، چنانچہ کل تک جن کی پہونچ بلاواسطہ حکومت تک تھی، اب وہی اجازت نامے کے بغیر کسی سے مل نہیں سکتے_ اور یاد کیجئے_کہ انا ہزارے آندولن کے بارے میں کیا خاص تھا_؟ جس کی وجہ سے ایسا لگتا تھا کہ پھر سے ہندوستان گاندھی وادی بن جائے گا، ایک نیا گاندھی پیدا ہوگیا ہے؛ ان کا ساتھ دینے والے اکثر و بیشتر اسٹوڈنٹس ہی تو تھے، سب کہاں چلے گئے، وہ دہلی کی سیاست میں گم ہوگئے، اقتدار کی خواہش میں چور ہوگئے، اور اتنے مگن ہوگئے کہ موجودہ مسئلہ پر زبان تک نہیں کھلتی، کسی احتجاج میں بھی نہیں جاتے، بلکہ صرف انتخاباتی ریلیاں اور انٹرویوز کر رہے ہیں۔ ہاردک پٹیل کو بھی مت بھولئے_! انہوں نے پٹیل آندولن کے ذریعہ ملک میں ایک نئی لہرا پیدا کردی تھی؛ لیکن کیا ہوا_؟ سیاست کے جال میں ایسے پھنسائے گئے کہ وہ خود کی خیر مانگنے لگے_! جگنیش میوانی بھی اب کہاں ہیں، چندر شیکھر آزاد بھی سیاست کا حصہ ہوچکے ہیں، آئے دن وہ جیل میں بند رہتے ہیں، ان کی کوئی پالیسی نہیں، کوئی اسٹریٹیجی نہیں، چنانچہ ہمیشہ غلط رویہ اور غلط قدم کی وجہ سے دھڑ لئے جاتے ہیں۔* *کس کس کا تذکرہ کیا جائے_؟ ہر کسی تحریک کی یہی صورت ہے_ اب بھی اگر اسٹوڈنٹس باہر ہیں، احتجاجات کر رہے ہیں اور سینکڑوں نام ابھر کر آرہےہیں؛ لیکن کیا ضمانت ہے کہ یہ بھی خود کو برقرار رکھ پائیں گے، ان کے سامنے اتنے زیادہ ایشوز کھول کر کھ دئے گئے ہیں؛ کہ ایک معاملہ سے نکلیں گے تو دوسرا سنجیدہ معاملہ منہ پھاڑے کھڑا ہوگا، جس میں وہ اسی میں الجھ کر رہ جائیں گے اور دوسری جانب سیاست پر قابض حکمران اپنا کھیل کھیلتے جائیں گے، کرسی اور پاور کے ساتھ ملک کو اپنے اشاروں پر نچاتے جائیں گے۔ ذرا اندازہ لگائیے_! دہلی میں اگلے مہینہ چناو ہے، چنانچہ بورڈ کے امتحانات اس سے قبل کرانے کی سفارش کی گئی ہے، تاکہ وہ بھی سیاست کیلئے استعمال نہ ہوجائیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر وہ ابھی بارہویں کر بھی لیں تو کہاں جائیں گے_؟ تقریبا تین کڑور طلباء جو اعلی تعلیم حاصل کرتے ہیں، ان کیلئے کونسی راہ کھلی ہے، یونیورسٹیز میں بے چینی ہے، تعلیم نہیں، فیس مہنگی ہوگئی ہے، اور اگر تعلیم پا بھی لیں تو کیا کر لیں گے_؟ نوکریاں ہے نہیں، خود سرکاری شرح کے مطابق پچھلے چالیس سال میں سب سے زیا نوکری کی کمی ہوئی ہے، بلکہ دو کڑور نوکریاں چلی گئی ہیں، GDP گروتھ اور بھی گر گئی ہے، تازہ ترین شرح پانچ فیصد ہوکر رہ گئی ہے_* *ایسے میں غور کرنے کی ضرورت ہے_ کہ دیش کی چھوٹی موٹی اور محدود دائرے کی لڑائی لڑی جائے، اور پھر اس سے نکل کر سیاست کا تر نوالہ بن جایا جائے یا پھر ملک گیر سیاست کو متاثر کیا جائے_ جی ہاں_! اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے؛ کہ سیاست کو قابو میں کیا جائے، تعلیم یافتہ افراد بغیر کسی سیاسی پارٹی سے جڑے بغیر عوام سے جڑیں اور آئندہ انتخابات میں خود کو کھڑا کریں_ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر موثر یونیورسٹی اپنے علاقے میں ایک متحرک نوجوان کو سامنے لائے، اس علاقے کو ایک امیدوار دے، دہلی کا میدان بھی ہے؛ لیکن اس سے بڑا میدان بہار کا ہے، ویسے بھی وہاں کی یونیورسٹیز میں ایک خاص پیٹرن جاری ہے، انتخابات میں بھی وقت ہے، پٹنہ یونیورسٹی، نالندہ یونیورسٹی، بودھ گیا یونیورسٹی، مگدھ یونیورسٹی، بھوپیندر نارائن یونیورسٹی وغیرہ اہم کردار نبھا سکتے ہیں، اس کے علاوہ بنگال بھی ایک بڑا تجربہ گاہ بن سکتا ہے_ وقت ہے کہ اس نہج پر کام کیا جائے، یہ پروسیس ملک کی حفاظت اور آئین کی سالمیت کا ضامن بنے گا، ورنہ صرف بھیڑ رہ جائے گی، نام نکلیں گے اور بہتی رو میں ضم ہوجائیں گے، وہ سب ایک خاص سیاست اور جماعت کا حصہ ہو کر وہی سب کرنے لگیں گے، جن کا ہمیں شکوہ ہے۔* Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 08/01/2020
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔