اس امت عاصی سے نہ منھ پھیر خدایا

*صدقہ بری موت سے حفاظت اور رب کی ناراضگی دور کرنے کا ذریعہ ہے*

*محمد قمر الزماں ندوی*

*مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*

*اس* وقت پوری دنیا جس کرب، بے چینی اور اضطراب سے گزر رہی ہے، اس سے ہم سب واقف ہیں۔ پوری دنیا???? بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ اس واءیرس اور اس سے پیدا شدہ صورت سے ہر شخص کسی نہ کسی درجہ میں متاثر ہے۔ بھوک و پیاس کی شدت سے بعض علاقہ میں لوگوں کی حالت یہ ہے کہ مینڈک اور سانپ ???? کھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ لوگ آتم ہتیا اور خود کشی پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اٹلی اور چین کے بعد سب سے زیادہ برا حال برطانیہ اور امریکا کا ہے، وہاں مرنے والوں کی تعداد لاکھوں سے زیادہ متجاوز ہوگئی ہے۔ وہاں کنٹریکشن پر روز زانہ ہزاروں قبریں کھودی جاری ہیں، پھر بھی وہ ناکافی ہو رہی ہیں۔ اب تک اس بیماری ???? کی صحیح تشخیص اور صحیح علاج دریافت نہیں ہوسکا ہے، اور نہ اس کی کوئی ویکسین کوئی ملک تیار کرسکا ہے۔ قدرت کی اس مار کے سامنے سب سلینڈر ہوگئے ہیں اور مان رہے ہیں کہ

*اللہ کی لاٹھی میں آواز ???? نہیں ہوتی*

ماہرینِ اس بیماری کا صرف ایک حل بتا رہے ہیں اور وہ ہے شوسل ڈیٹینشن یعنی انسانی دوری، لیکن یہ کوئی علاج نہیں بلکہ صرف احتیاط اور پرہیز ہے۔

اس وبائی بیماری اور اس کی ہلاکت خیزی کے نتیجے میں یہ بات کھل کر سامنے آگءی ہے کہ دنیا???? کی تمام طاقتیں خداءے وحدہ لاشریک کے سامنے لار چار اور مجبور ہیں۔ پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ امریکا اور تمام ویسٹرن ممالک اپنے تمام تر جدید ٹیکنالوجی اور طبی ترقی سے لیس ہونے کے باوجود اس کورونا واءیرس سے نمٹنے کے حوالے سے بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ابھی تک تو تیسرے درجے کے لوگ اس لاک ڈاؤن سے زیادہ متاثر ہونے ہیں، لیکن بات اب اس سے بڑھ کر متوسط طبقہ کے لوگوں تک پہنچ گئی ہے۔ اللہ ہی خیر فرماءے۔

اس وبا کا اصل علاج بس ایک ہی ہے کہ ہم خدا کی قدرت کے سامنے جھک جاءین۔ سلنڈر ہو جائیں، اپنی بے بسی، لاچارگی اور درماندگی کا اظہار کریں، استغفار،توبہ اور ندامت کریں۔ صدقہ اور خیرات کریں۔ کیونکہ یہ وبائی مرض اللہ رب العزت کی جانب سے عذاب یا آزمائش کی شکل ہے۔ اس طرح کے حالات میں اسلامی ہدایات کے مطابق انابت اور رجوع الی اللہ کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور وہ عمل کرنا چاہیے جس سے اللہ پاک کی ناراضگی دور ہوتی ہے۔ اس وقت صدقہ خیرات کثرت سے کرنا چاہیے کیونکہ صدقہ سے اللہ تعالی کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔ کثرت سے ہم لوگ دعا کا اہتمام کریں کیونکہ دعا عبادت کا مغز اور خلاصہ ہے۔ اللہ مضطر اور پریشان حال کی دعا کو سنتا ہے۔ ہم اس آہ و زاری اور گریہ کے ساتھ خدا سے دعا کریں کہ خدا کو ہم سب پر ترس اور رحم آجائے اور ہم دکھیارے کی پکار ، دکھڑا اور غرض کو سن لے اور ہم سے جو منھ پھیر لیا، ہم سب سے راضی ہو جائے، اور ہماری بگڑ ی بنا دے۔ ہم سب مل کر خدا کے حضور اور اس کے دربار میں یہ گہار لگاءیں کہ

*اس امت عاصی سے نہ منھ پھیر خدایا*

*آج* ہی میرے انتہائی عزیز مولانا شمس پرویز مظاہری نے جو مجلس لکھ کر مجھے روانہ کیا ہے وہ انتہائی پر اثر ہے ،قارئین کے فائدے کے لیے اسے بھی پیش کرتے ہیں۔

مجلس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

----------------------------------------

موجودہ دور میں پوری دنیا ایک ایسے نازک دوراہے پر آ کھڑی ہوئی ہے۔جہاں انسان حسرت و غم ، درد و الم اور بے بسی و بیکسی کی تصویر بنا نظر آ رہا ہے ۔۔حالیہ اندوہناک حالات جس طرح ایک خوناک مستقبل کی منظر کشی کر رہے ہیں اس نے پوری دنیا کے لوگوں کو سراسیمہ اور خوفزدہ کر رکھا ہے۔۔حیات مستعار کی جو رفتار تقریبا ایک ماہ سے تھمی ہوئی ہے وہ مزید تھمتی ہی جا رہی ہے۔۔"کورونا وائرس "کی روک تھام کے لئے عالمی سطح پر جو تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں اور جن اسباب و وسائل کو بروئے کار لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں وہ ناکافی بھی ثابت ہو رہی ہیں اور ناکام بھی۔۔گویا

ع مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

مرض میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور اموات کی تعداد میں بھی۔۔پوری دنیا سکتہ کی کیفیت میں ہے۔۔انسانیت سسک رہی ہے اور دم توڑ رہی ہے۔۔کوئی کسی کا پرسان حال نہیں۔۔غرباء ، فقراء اور مزدور بھوک سے بیتاب ہیں کئی کئی دنوں سے انہیں کھانے کو کچھ نہیں مل پا رہا ہے۔۔اگرچہ حکومتیں ان تک رسد پہونچانے کا دعوی تو کر رہی ہیں لیکن عمومی طور پر ان کے دعووں میں کھوکھلا پن بھی ہے اور بے اعتباری بھی۔۔چند فلاحی تنظیمیں اور دردمند افراد ان کی اشک سوئی میں مصروف ہیں ۔لیکن کہاں تک اور کب تلک؟؟؟

مدت قفل بندی میں پھر سے اضافہ کر دیا گیا ہے۔۔پہلے مرحلہ میں اکیس دن اور اب انیس دن۔۔بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس مدت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔۔خان بہادر نے احکامات جاری کر دئے۔جو جہاں ہے وہیں رہے۔۔لوگوں نے سر تسلیم خم بھی کر دیا۔۔کورونا کو جو ہرانا ہے ۔۔یہ اور بات ہے کہ اسے ہراتے ہراتے لوگ اپنی زندگی ہار رہے ہیں۔۔عوام کس کرب سے گزر رہی ہے؟؟خوشحال ہے یا بدحال؟؟معاشی تنگی کی کس بحرانی کیفیت سے دو چار ہے؟؟صاحب بہادر اور اسکے عقلمند وزراء کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔۔

البتہ یہ ضرور ہے کہ چند غیر متعصب اور حق گو میڈیا اس داستان الم اور حسرت و یاس کی تصویروں کو کبھی کبھی بیان کرتا نظر آ جاتا ہے۔۔حالانکہ عمومی طور پر چینلوں پر بیٹھے ہوئے جرنلسٹ جرنلزم کے اصولوں کی دھجیاں ہی اڑاتے ہوئے دکھائی پڑتے ہیں۔۔زہریلی زبان ، نوکیلے دانت ، تنگ نظر ، متعصبانہ ذہن اور شور و غوغا کی قبیح عادتیں۔۔لگتا ہے چند بھانڑ چینلوں پر بیٹھ کر چنے پھوڑ رہے ہیں یا کوئی بے سرا گویا ہے جو انتہائی کریہ اور مکروہ آواز میں کوئی راگ الاپ رہا ہے۔۔ ان کےافعال و اعمال اور کردار ہی ان کی دلالی اور حکومت وقت کی چاپلوسی کی شہادت دیتے ہیں۔۔بھلا بتائیے تو سہی؟؟کورونا وائرس جیسے بلائے ناگہانی کو تحفہ مسلمانی بنا کر پیش کر دینا ملک کی جمہوریت کی سالمیت کے لئے کتنا بھونڈا مذاق ہے؟؟ میڈیا تو آج تک یہ طے نہیں کر پایا کہ کورونا مرض کا نام ہے یا کسی بم کا ؟؟ نفرتوں کے یہ سوداگر اور بغض و عناد کے ان تاجروں کی تجارت مسلم دشمنی کے بغیر چمکتی ہی نہیں ہے۔۔انہیں تو بس کوئی ایسا موضوع چاہئے جو مسلمانوں سے متعلق ہو ۔۔پھر دیکھئے ان کی بانچھیں کیسے کھل اٹھتی ہیں۔۔کتوں کی طرح منہ سے اتنے جھاگ نکالیں گے کہ گلے تک خشک ہو جائیں۔۔مجھے تو کبھی کبھی تعجب ہوتا ہے کہ جب یہ اپنی فیملی کے ساتھ ہوتے ہوں گے تو ان کا رویہ ان کے تئیں کیسا ہوتا ہوگا؟؟؟

خیر عرض یہ کر رہا تھا کہ قہر خداوندی شباب پر ہے اور آفت سماوی اپنا خونی پنجہ دن بدن دراز تر کرتی جا رہی ہے۔۔لیکن ہم؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ مدہوشی کی کیفیت میں مبتلا ،،سابقہ طرز زندگی سے ایک انچ بھی ہٹنے کو تیار نہیں ، گناہوں اور بد اعمالیوں کو ترک کرنے پر راضی نہیں۔۔۔۔وہی نفرت و عداوت اور وہی ہٹ دھرمی ، وہی بے حسی اور وہی بے راہ روی ، وہی بے ڈھنگی چالیں۔۔۔باہمی حسد و نفاق نے ہمارے اتحاد کی طاقت ہم سے چھین لی ہے۔۔غیروں سے زیادہ ہم اپنوں کے دشمن ہیں۔۔پرانی رنجشیں ہم بھولنے کو تیار نہیں بلکہ انتقام لینے کے لئے موقع کی تاک میں ہیں۔۔دور اندیشی اور حکمت و مصلحت ہمیں چھو کر بھی نہیں گزری۔۔اغراض نفسانی اور اہواء پرستی نے ہمارے نظام حیات کو کھوکھلا کر رکھا ہے۔۔مال و دولت کی ہوس نے ہمارے ایمانی و اسلامی بلکہ خونی رشتوں تک کے تقدس کو پامال کر دیا ہے۔

دوستو!!!!!آج ہمیں کہ لینے دیجئے کہ ہماری ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ ایسے خوفناک اور محشر برپا ماحول میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس جیسے مہلک مرض نے ہم پر ہماری ہی زندگی تنگ کر دی ہے اور دوسری طرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرتوں کا طوفان بلا خیز برپا ہے ۔۔یہ نفرت کبھی زبانوں کے زہریلے نشتر کی شکل میں سامنے آ رہی ہے تو کبھی ہجومی تشدد کی شکل میں اور کبھی فکری، نظریاتی اور ثقافتی یلغار کی صورت میں لیکن پھر بھی ہم نہ سنبھلنے کو تیار ہیں اور نہ سدھرنے کو تیار ہیں۔۔

بھلا بتائیے تو صحیح آج جبکہ ہم اس مرض خطیر کی وجہ سے حکومت کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے اپنی مسجدوں سے دور ہیں ۔۔تو کیا ہم اپنے اپنے گھروں کو عبادت گاہ ، تلاوت گاہ اور ذکر و فکر و توبہ و استغفار کی آماجگاہ نہیں بنا سکتے؟؟لیکن نہیں ہمیں تو ایسا لگ رہا ہے کہ ہمیں مسجدوں سے حکومت وقت کے احکامات نے دور نہیں کیا بلکہ اللہ نے وحی آسمانی کے ذریعہ ہمیں نمازوں ہی سے چھٹی دیدی۔۔یہی وجہ ہے کہ جو لوگ شرم و لحاظ میں کم از کم جمعہ کی نماز کے لئے حاضری دے جاتے تھے آج ان کی ظہر بھی غائب ہے۔۔اور جو پنجوقتہ کے پابند تھے یا مشکلات میں مسجدوں کا رخ کر لیا کرتے تھے وہ بھی خاصے بے فکرے سے نظر آتے ہیں۔۔

بہت سے لوگ تو یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم لڑیں گے اور جیتیں گے۔۔

بے شرمو!!!!کس چیز سے لڑنے کی باتیں کرتے ہو؟؟اللہ کی قدرت کو چیلنج کرتے ہو یا اللہ کے قہر کو دعوت مبارزت دیتے ہو؟؟

اٹھاؤ اللہ کی کتاب۔۔نگاہیں ڈالو تاریخ کے صفحات پر ۔۔کس طرح قوم عاد و ثمود نے فطرت کے خلاف بغاوت کیا اور من اشد منا قوۃ کے نعرے لگائے ؟؟اور کس طرح قوم فرعون و قوم لوط نے عذاب خداوندی کو للکارا ؟؟ انجام کیا ہوا؟؟چیونٹیوں کی طرح مسل دئے گئے ۔۔تباہ و برباد کر دئے گئے ۔۔دنیا سے ان کی شناخت مٹا دی گئی۔۔

اے میرے مسلمان بھائیو!!!خدا کے واسطہ ان کفار و مشرکین کی طرف مت دیکھو جو جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں اور جن پر دائمی عذاب مسلط کی گئی ہے۔۔

مت دیکھو ان منافقین اور فساق و فجار کی طرف کہ مال و دولت کی حرص نے جنہیں اندھا بنا رکھا ہے ۔۔حرام خوریوں اور گناہوں نے جنکے قلوب زنگ آلود کر رکھے ہیں۔۔

خود پر نگاہ ڈالو۔۔۔ہم کون ہیں؟؟ہم اللہ کے بندے ،،ہم محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ،،ہم صحابہ کی عظمت پر جان قربان کرنے والے ،،ہم جنت و جہنم پر یقین رکھنے والے،،ہم بعث بعد الموت کو دل سے ماننے والے ،،ہم جزاء و سزا کو برحق تسلیم کرنے والے ،،ہاں ہم ایمان والے۔۔۔۔۔۔جسے اس کے اللہ نے یقین کی دولت عطا فرمائی ۔۔جسکے سینوں کو نور ایمان سے روشن کیا گیا۔۔جسکے دلوں کو ایمانی خورشید کی لمعانی ، تابانی اور درخشانی عطا کی گئی۔۔

ع سینہ ہے تیرا امیں اسکے پیام ناز کا

جو نظام دہر میں پیدا بھی ہے پنہاں بھی ہے۔

تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا

ورنہ گلشن میں علاج تنگئ داماں بھی ہے۔۔

جسےنیکیوں پر بشارت دی گئی اور گناہوں پر ڈرایا گیا۔۔جسکی ہدایت کے لئے رہبر کامل اور معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نعمت عطا کی گئی۔۔جسکے لئے دنیوی زندگی کو حیات فانی اور عالم آخرت کو عالم جاودانی قرار دیا گیا۔۔جسے وسوسوں ، اندیشوں اور مصیبتوں کے وقت رجوع و انابت کی تلقین کی گئی ۔۔جسے واضح الفاظ میں باور کرا دیا گیا کہ تمام تر حالات خواہ خیر کے ہوں یا شر کے اسی مالک الملک کے اشارے پر چلتے ہیں۔۔اسے ٹالنے والا اور نجات دہندہ صرف اسی کی ذات ہے۔۔جسے خبردار کر دیا گیا کہ تمہارے اعمال ہی پر حالات مرتب ہوا کرتے ہیں۔۔برے اعمال پر برے حالات اور درست اعمال پر درست حالات۔۔جسے بارہا ترغیب دی گئی کہ مصائب و مشکلات میں صرف اسی ایک ذات کو آواز دو کہ وہی ذات خیر سے شر اور شر سے خیر کو پیدا،کرنے پر قادر ہے۔۔۔۔

میرے بھائیو!!!پھر بھی ہم غافل کیوں ہیں؟؟کیوں اس قہار و جبار اور اس سے بھی زیادہ رحیم و کریم مالک کے سامنے سجدہ ریز کیوں نہیں ہوتے؟؟؟کیوں ہم اسکے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتے اور اس سے نجات طلب نہیں کرتے ؟؟؟آخر کیوں؟؟؟

آئیے ہم آج خود کو اسی قادر مطلق کے حوالے کرتے ہیں اور اسکے در پر جا پڑتے ہیں۔۔اسکی بارگاہ کے بھکاری بن کر اسکے سامنے دست سوال دراز کرتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ ۔۔

اے ماں کی کوکھ میں ہماری حفاظت کرنے والے!! ہماری تصویر کشی کرکے صورت اور سیرت تخلیق کرنے والے!!ہماری سانسوں پر مکمل حق اور ہماری جانوں کو اپنے قبضے میں رکھنے والے!!

تیرا یہ عاجز ، گنہگار ، سیہ کار اور خطا کار بندہ تیرے دربار میں لوٹ آیا ہے اور اپنی اس خطا پر شرمسار ہے جو اس نے جانے یا انجانے میں کئے ہیں۔۔ہم اپنے ہر عضو کو تیری جناب میں مغفرت کے لئے پیش کرتے ہیں۔

ان آنکھوں کو جنہوں نے تیری مرضی کے خلاف منظر دیکھے۔۔ان کانوں کو جنہوں نے برا سنا اور صرف اپنے لئے اچھا سنا۔۔اس زبان کو جس سے کلمات بد ادا ہوئے۔۔ان ہاتھوں کو جو ظالم کی حمایت اور مظلوم کو دبانے کے لئے اٹھے۔۔اس دل کو جس میں خواہشات کا بسیرا رہا۔۔اس شکم کو جس نے دوسروں کا حق چھین کر اپنی دوزخ کو بھرا۔۔۔اس نفس کو جس نے آتش ہوس سے شعور کے ہر ذرے کو جلا ڈالا۔۔

ہمیں معاف کر دے اللہ ۔۔ہماری توبہ قبول کر لے رحیم آقا۔۔اپنے اس سرکش غلام کو رحمت کی رسی سے ہمیشہ کے لئے باندھ دے ۔۔

لوٹ آنے والے تجھے محبوب ہیں نا۔۔۔تو دیکھ کہ ہم بھی لوٹ آئے ہیں سو ہم پر رحم فرما میرے مولی ۔۔۔۔۔۔اس خطرناک مرض سے ہماری اور پوری دنیا کی حفاظت فرما۔۔۔انسانیت کے حال زار پر رحم فرما ۔۔۔

اے میرے مالک!!ہم کہاں جائے ،اپنا درد کسے سنائیں ۔۔تیرے سوا درد کا درماں اور کون کر سکتا ہے؟؟؟

اے میرے اللہ !!اپنے محبوب نبی کی رحمت للعلمینی کے ص??قہ ہماری دعائیں قبول فرمالے۔۔۔ آمین۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔