اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ بنئے

*محمد قمرالزماں ندوی*
*مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*

*حدیث* کی کتابوں میں صحابئہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی اور ان کے معمولات کے سلسلہ میں ایک روایت ( جس کے راوی عبد اللہ بن حصن ہیں) یہ ہے کہ *کان اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا التقیا لم یتفرقا حتی یقرا احدھما علی الآخر و العصر ان الانسان لفی خسر الخ ثم یسلم احدھما علی الآخر* المعجم الاوسط للطبرانی باب المیم 5124)
یعنی *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم* کے صحابہ میں سے دو آدمی اگر باہم ملتے تو وہ جدا نہیں ہوتے یہاں تک کہ ایک شخص دوسرے شخص کو سورئہ عصر پڑھ کر سناتا پھر دونوں ایک دوسرے کو سلام کرکے رخصت ہوتے ۔
*حدیث شریف* کے سیاق و سباق سے یہی پتہ چلتا ہے کہ یہ طرز عمل اور معمول *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* کے صحابہ کا عمومی تھا ۔
*اگر* آج کے مسلمانوں کا تقابل ان کی زندگی سے کیا جائے تو ہمارا رویہ اور طرز عمل ان سے بالکل جدا اور الگ ہے ۔ آج جب مسلمان آپس میں ملتے ہیں خواہ وہ دو ہوں یا دو سے زیادہ وہ عام طور پر خیر، اصلاح و صلاح اور فلاح انسانیت کی بات نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ اپنی مظلومیت کا رونا روتے ہیں ۔ دشمنوں کے ظلم کا چرچا کرتے ہیں اپنی محرومی اور ناکامی کی باتیں کرتے ہیں ۔اپنے بارے میں حق تلفی کا شکوہ کرتے ہیں، دوسروں کی کمیوں اور خامیوں کو کریدتے ہیں،منفی گفتگو اور تبصرے ہوتے ہیں ،کسی کو گرانے اٹھانے کے چرچے ہوتے ہیں ۔ ان کی سرگوشیاں اکثر خیر سے خالی ہوتی ہیں۔ قرآن مجید نے ہماری ان کمزوریوں کو آج سے تقریبا چودہ سو چالیس پہلے بیان کر دیا تھا ۔ *لا خیر فی کثیر من نجواھم الا من امر بصدقة او معروف اور اصلاح بین الناس* کچھ اچھے نہیں ان کے اکثر مشورے مگر جو کوئی کہے صدقہ کرنے کو یا نیک کام کو یا صلح کرانے کو لوگوں میں ۔
ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ ہم اپنی مجلسی گفتگووں کو ایمانی اور عرفانی بنائیں ۔ غیبت، شکوہ، شکایت اور منفی تبصروں سے پاک رکھیں ۔ صدقئہ جاریہ ، معروف کا حکم اور اصلاح بین الناس، ہمارے مذاکرے کا موضوع ہو ۔ اور اوپر جس حدیث کے حوالے سے یہ بتایا گیا تھا کہ صحابئہ کرام جب آپس میں ملاقات کرتے تھے تو علیک سلیک اور خیرت کے بعد سورہ عصر کی تلاوت کرتے تھے ۔ ہم بھی اس طریقے اور اسوے کو اپنائیں ۔ اس سورہ میں اللہ تعالی نے زمانے کی قسم کھا کر اپنے بندے کو ایمان عمل صالح اور حق اور صبر پر جمنے کی تلقین فرمائی ہے ۔ کہ زمانہ کی قسم سارے لوگ نقصان اور خسارے میں ہیں بجز ان لوگوں کے جنہوں نے ایمان قبول کیا عمل صالح کرتے رہے اور حق اور صبر کی تلقین و فہمائش کرتے رہے ۔
ہم خیر امت ہونے کا دعوی تو کرتے ہیں، لیکن صحابئہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسوہ کو کما حقہ اپناتے نہیں، جس کی وجہ سے ہم ناکام و نامراد ہو جاتے ہیں، جلسہ بھی کرتے ہیں ۔ دعاؤں کا اہتمام بھی کرتے ہیں صدقہ اور خیرات بھی کرتے ہیں لیکن ہم ناکام و نامراد رہتے ہیں ذلت و نکبت ہماری قسمت اور نصیبہ بنا رہتا ہے ۔ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ہماری اصلاح بھی اسی راستے اور طریقے سے ہوگی جس راستے سے پہلے کے لوگوں کی اصلاح ہوئی تھی جیسا کہ امام مالک رح نے فرمایا تھا کہ *لن تصلح آخر ھذہ الامة الا بما صلح بہ اولہ* یعنی اس امت کے آخری گروہ کے حالات بھی صرف اسی طرح درست ہوں گے جس طرح امت کے ابتدائی گروہ کے حالات درست ہوئے تھے ۔ ہم مسلمانوں کے لئے حضرت امام مالک رح کا یہ جملہ گائڈ لائن کی حیثیت رکھتا ہے ۔
ضرورت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم والی زندگی طرز عمل اور نمونہ ہم اپنے اندر پیدا کرلیں ۔انشاءاللہ کامیابی ہمارے قدم چومے گی ،اور ناکامی ہم سے دور بھاگے گی ۔۔۔۔۔۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔