اعتدال

یہ دیکھنے میں تو ایک مختصر چند حروف سے مرکب ایک لفظ ہے'،مگر معانی کے لحاظ سے اس میں اس قدر وسعت ہے'کہ فرد سے سماج تک اور عائلی نظام سے لیکر مملکت تک کی ارتقاء کا راز اس میں مضمر ہے۔

کائنات کا پورا نظام اسی پر رواں دواں ہے اگر اس کا ایک پرزہ اپنی جگہ سے ہٹ جاتا ہے تو پوری فضا اضطراب کا شکار ہو جاتی ہے ،جسم انسانی کا توازن اس کی خوبصورتی اسی اعتدال کا دلآویز مظہر ہے جس طرح اجسام کی کائنات توازن کے بغیر مفلوج اور بے کار ہو جاتی ہے ٹھیک اسی طرح افکار و نظریات اعتدال و توازن کے بغیر انسانیت کے دائرے سے خارج ہوجاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ زندگی کے ہر موڑ پر اسلام نے اعتدال کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین کی ہے تاکہ اس کے ذریعے انسانی دنیا اخلاقی اور روحانی لحاظ سے ارتقاء کے راستے پر محو سفر ہو جائے اپنی حیثیت کی شناخت حاصل کرے،خودی کی معرفت سے آشنا ہو جائے،مادیت کے حیوانی حصار سے باہر نکل کر دوسروں کے حقوق پہچانے، کائنات کی نت نئی ایجادات ودریافت کے ساتھ ساتھ خود زندگی اور زندگی کے مقاصد سے آشنا ہو جائے۔ دنیا میں فتنہ وفساد،خوں ریزی وغارت گری،علمی وفکری انحراف اور اس کے نتیجے میں شیطانیت کا رقص درحقیقت اسی بے اعتدالی کا کرشمہ ہے فکر و عمل کے لحاظ سے گذشتہ قوموں نے فرائض سے پہلو تہی اور ممنوعات کو واجبات کا درجہ دے کر افراط وتفریط کا اس روئے زمین پر بدترین ثبوت دیا تھا اور آج بھی وہ اسی روش پر سختی سے قائم ہیں نتیجتاً وہ خالقِ ارض وسماء کے غضب کی مستحق ہوئیں۔ افراط وتفریط کے اس منظر نامے میں اعتدال کی اہمیت اس لیے دوچند ہو جاتی ہے اور اس کی حیثیت اس لیے دوبالا ہو جاتی ہے کہ اسلام کی معتدل تعلیمات کے حوالے سے ساری دنیا غلط خیالات اور بد ظنی کا شکار ہے اس فضا کی پاکیزگی کے لئے لازم ہے کہ وہ امت جس کے سر وسطیت کا تاج ہے'اور کرہ ارض پر معتدل نظام کی نقیب ہے'۔جادہ اعتدال کی طرف واپس آئے اور اپنے عمل کے ذریعے افراط و تفریط کے نظریات کی بیخ کنی کرے۔ تاکہ ملک میں پھیلی ہوئی بد گمانیوں کی کثیف بدلیاں چھٹ جائیں،اسلام کے متعلق نفرتوں کے شعلے بجھ جائیں،عصبیت کے پردے تار تار ہو جائیں، سرد مہری کے برف پگھل جائیں، درد و الم کے کربناک موسم اخوت و محبت اور ہمدردی و بھائی چارگی کی بہاروں میں تحلیل ہوجائیں۔ ملک کے سلگتے حالات چیخ چیخ کر آواز دے رہے ہیں کہ ملت اسلامیہ عالم عموماً اور ملت اسلامیہ ہند خصوصاً کھوئے ہوئے اس سرمائے کی بازیافت کرے جو مفادات،مادیت اور غفلتوں کی تاریکیوں میں کہیں لاپتہ اور گم ہو گیا ہے

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی مسجد انوار گوونڈی

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔