*رمضان المبارک* اور بالخصوص اس کے آخری عشرہ میں ایک اہم عمل اور خاص عبادت *اعتکاف* ہے ۔ *اعتکاف* کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی ہر طرف سے کٹ کر،یکسو ہوکر اور تمام علائق دنیا سے منقطع اور الگ تھلگ ہوکر ۔ بس اللہ تعالی سے لو لگائے ،اس کے در پر پڑ جائے اور سب سے الگ تنہائی و خلوت میں اس کی عبادت اور اس کے ذکر و فکر اور تسبیحات میں مشغول ہوجائے اور اپنے حقیقی آقا کے دربار میں زبان و حال سے یہ کہتے ہوئے فروکش ہوجائے ۔۔۔۔
پھر جی میں ہے کہ در پہ اس کے پڑا رہوں
سر زیر بار منت درماں کئے ہوئے
در اصل *اعتکاف* وہ عبادت ہے جس میں انسان سب سے کٹ کر اور سب سے ہٹ کر اپنے خالق حقیقی آقا و مولی کے آسانہ پر اور گویا اس کے قدموں پر پڑ جاتا ہے ،اس کو یاد کرتا ہے ،اس کی تحمید و تقدیس بیان کرتا ہے ،اس کے حضور توبہ و استغفار کرتا ہے ،اپنے گناہوں پر نادم و تائب اور شرمندہ ہوتا ہے ،اپنی غلطیوں اور خطاوں کا اعتراف کرتا ہے،اپنے قصوروں اور کوتاہیوں پر روتا ہے اور رحیم و کریم آقا سے مغفرت کی بھیک مانگتا ہے اور اس کی رضا اور قرب چاہتا ہے۔ ظاہر ہے اس سے بڑھ کر کسی انسان کی سعادت اور کیا ہوسکتی ہے ۔
(مستفاد از معارف الحدیث ۴/ ۱۱۹)
گویا اعتکاف کی حالت میں معتکف اللہ تعالی کے گھر پر دھرنا دیتا ہے کہ بغیر مطالبہ پورا ہوئے واپس نہیں جائے گا ۔
اعتکاف اپنی روح اور اصل کے اعتبار سے روزہ کے مقاصد کی تکمیل ہے، ہر چند کہ روزہ کی حالت میں انسان خورد و نوش اور جنسی تعلقات سے باز رہتا ہے ، تاہم گھر سے اس کا تعلق یکسر منقطع نہیں ہوتا، رات کے وقت بیوی سے جنسی ضرورت کی تکمیل کی گنجائش بھی باقی رہتی ہے، اعتکاف ان تمام علائق دنیا کی رسی کو کاٹ دیتا ہے۔ اب نہ ضرورت شدیدہ کے بغیر گھر آمد و رفت کی اجازت ہے نہ خرید و فروخت اور شاپنگ کی گنجائش، نہ بیوی سے کسی طرح لذت اندوزی کا موقع، بلکہ بندہ مکمل طور پر اپنے رب کی طرف یکسو اور متوجہ ہے، دوسرے رمضان میں اعتکاف کا ایک اہم مقصد شب قدر کی تلاش اور زیادہ سے زیادہ عبادت و ریاضت بھی ہے۔ بلکہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف کا مقصد اور منشاء ہی یہی تھا۔( طبرانی بحوالہ قاموس الفقہ ٢/ ١٧١)
اعتکاف کے لفظی معنی ٹہرنے کے ہیں، لیکن جب یہ لفظ شریعت کی اصطلاح میں بولا جاتا ہے، تو اس سے مراد مرد کے لئے ایسی مسجد میں اعتکاف کی نیت سے ٹہرنا ہوتا ہے،جس میں پانچوں وقت کی نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے ، جبکہ عورت کے لئے اپنے گھر کے کسی کونہ میں بہ نیت اعتکاف قیام کرنے پر شرعی اعتکاف کا اطلاق کیا جاتا ہے ۔
اعتکاف کا ثبوت خود قرآن و سنت سے ثابت ہے سورہ بقرہ آیت نمبر ١٨٧ میں اس کا ذکر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کی خاص فضیلت بیان فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اعتکاف کی حالت میں معتکف گناہوں سے تو باز رہتا ہی ہے، مسجد سے باہر نہ نکلنے کی وجہ سے جن نیکیوں سے محروم رہتا ہے وہ نیکیاں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے ذخیرئہ حسنات میں داخل ہوتی جاتی ہیں۔
ایک ضعیف روایت میں ہے کہ رمضان المبارک میں اعتکاف حج و عمرہ کے برابر ہے۔ (طبرانی )
آنحضرت ﷺ نے خود پابندی سے اعتکاف کیا ہے، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات تک برابر رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے رہے، پھر آپ کے بعد ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف فرمایا۔ دس دن اعتکاف کا معمول تھا، ایک سال اعتکاف نہ کرسکے تو دوسرے سال بیس دنوں کا اعتکاف فرمایا۔ (ابو داود باب الاعتکاف)
نبوت ملنے سے پہلے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے غار ثور میں ہفتوں کے لیے اعتکاف کرتے تھے اور اپنے رب سے دعاؤں اور مناجات میں مشغول رہتے تھے اور جب پانی اور خوراک ختم ہوجاتا تو پھر گھر واپس آتے اور پھر دوبارہ وہاں تیاری کے ساتھ جاتے تھے، گویا یہ منجانب اللہ نبوت و رسالت کے تحمل کے لیے آپ کی ٹرینگ تھی اور اللہ تعالی آپ کو اس بارے میں الہمام کرتے رہتے تھے۔
اعتکاف کی اہمیت و فضیلت اور اس کے دینی منافع روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے اہتمام کے ساتھ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرمانا ثابت ہے ۔ اعتکاف سے جہاں آدمی گناہوں اور واہیات و فضولیات سے محفوظ رہتا ہے ، وہیں اس کی روح پوری طرح یکسو ہوکر ،عبادت خداوندی میں مشغول رہتی ہے ۔ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : *معتکف گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور جن نیکیوں کو وہ بسبب اعتکاف انجام نہیں دے پاتا ،ان کا ثواب بھی اسے دے دیا جاتا ہے ۔ ( ابن ماجہ : باب فی ثواب الاعتکاف ۱۲۷)
معتکف کی ہر گھڑی اور ہر لمحہ عبادت میں شمار ہوتا ہے ،اعتکاف کا سب سے بڑا مقصد اور فائدہ یہ ہے کہ اعتکاف شب قدر کو تلاش کرنے اور اس میں عبادت کرنے کا سب سے بہتر اور آسان ذریعہ ہے ۔
اعتکاف ماہ رمضان میں روحانیت کا نقطئہ عروج ہے حدیث شریف کے مطابق جو شخص رمضان کے دس دنوں کا اعتکاف کرتا ہے تو اس کا یہ عمل دو حج اور دو عمرہ کی طرح ہے ۔ یعنی اسے دو حج اور دو عمرہ کا ثواب ملے گا ۔ ( بیھقی)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ جو شخص ایمان کی حالت میں ثواب کی امید کرتے ہوئے اعتکاف کرتا ہے اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔
اعتکاف کے مسائل کے سلسلہ میں احادیث اور فقہی کتابوں کی طرف رجوع کریں، طوالت کی وجہ سے اعتکاف کی قسمیں، اعتکاف کے مستحبات، اعتکاف کے لیے بہتر جگہ، مفسدات اعتکاف اور اعتکاف کی قضا، ان مسائل کو نہیں چھیڑا گیا ہے۔