*استاذ گرامی فقیہ عصر مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی مدظلہ فرماتے ہیں __ انسان کا رشتہ اپنے خالق سے یہ ہے کہ خدا مالک ہے اور انسان اس کا مملوک، خدا معبود ہے اور انسان اس کا عبد ، خدا آقا ہے اور انسان اس کا بندہ اور غلامِ بے دام ، غلام کا کمال یہ ہے کہ اس کا آقا اس سے خوش ہو ، مملوک کے لئے سب سے بڑا شرف یہ ہے؛ کہ اسے مالک کی خوشنودی حاصل رہے ، عاشق کو اپنے معشوق کی راہ میں لٹ کر بھی ایک لطف آتا ہے اور محب اپنے محبوب کے لئے کھو کر بھی پانے کی لذت محسوس کرتا ہے، اسی محبت اور غلامی و بندگی کے احساس کو عملی پیکر دینے کے لئے عبادت کے طریقے مقرر کیے گئے اور ان کو انسان کا اصل مقصد وجود قرار دیا گیا: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنْسَ إِلاَّ لِیَعْبُدُوْنَ ۔ اسلام میں عبادت کے جو طریقے مقرر کیے گئے ہیں، ان میں قدم قدم پر اپنی بندگی، نیستی اور خدا کے ساتھ محبت اور شیفتگی کا اظہار ہے، نماز کی کیفیت کو دیکھئے کہ غلام اپنے آقا کے سامنے نگاہ نیچی کیے ہوئے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہے، بار بار اپنے خدا کی کبریائی کا نعرہ لگا تا ہے، کبھی کمر تک جھکتا ہے، کبھی نگاہ جھکائے دو زانو بیٹھتا ہے اور کبھی اپنی پیشانی زمین پر رگڑتا ہے، زکوٰۃ دینا اپنی ذات اور اپنے مال پر خدا کی حکومت کا اعتراف کرنا ہے، روزہ اور حج بھی خدا کی بندگی ہے؛ لیکن اس میں خوف سے زیادہ اپنے مالک کی محبت کا اظہار ہے، روزہ دار کو دیکھئے!!*
بھوکا ہے، پیاسا ہے، دھوپ کی تمازت اور موسم کی شدت ہے؛ لیکن خدا کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لئے سب کچھ گوارا ہے ، روزہ گویا اللہ تعالیٰ سے کمالِ محبت اور تمام علائق سے رشتہ توڑنے سے عبارت ہے؛ لیکن بھو کے پیاسے رہنے کے باوجود روزہ کی حالت میں گھر سے، کار وبار سے اور لوگوں سے تعلق باقی رہتا ہے ، محبت کا اوجِ کمال یہ ہے کہ آدمی ان تعلقات کو بھی خدا کے تعلق کے سامنے قربان کردے، اس کے لئے رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ایک اور عبادت رکھی گئی ہے، جسے '' اعتکاف '' کہتے ہیں. اعتکاف کے معنی ٹھہر نے، پوری قوت سے کسی چیز کا ساتھ پکڑ لینے اور پکڑے رہنے کے ہیں: '' اللبث و ملازمۃ الشیٔ أو الدوام علیہ'' (الفقہ الإسلامی وأدلتہ: ۲ / ۶۹۲ ) شریعت کی اصطلاح میں ایسی مسجد میں روزہ کے ساتھ قیام پذیر ہو جانے کا نام ہے، جس میں جماعت ہوتی ہو، (در مختار مع الرد : ۳ / ۴۲۹ ) گویا اعتکاف اللہ تعالیٰ کی چوکھٹ پر سر رکھ دینے اور خدا کے دامنِ رحمت سے چمٹ جانے کا نام ہے؛ کہ اب اپنی مراد حاصل کئے اور منزلِ مقصود کو پائے بغیر اس دَر کو نہیں چھوڑے گا، یہ مکمل حوالگی، خود سپردگی اور خدا کے تعلق کے مقابل تمام تعلقات سے براءت کا اظہار ہے؛ اسی لئے اعتکاف کی بڑی اہمیت ہے، حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معتکف کے بارے میں فرمایا : وہ گناہوں سے بچا رہتا ہے، وہ اعتکاف سے باہر جو نیکیاں انجام دیتا تھا، وہ نیکیاں بھی اس کے لئے لکھی جائیں گی '' ویجری لہ من الحسنات کعامل الحسنات کلہا'' ( ابن ماجہ ، حدیث نمبر : ۱۷۸۱ )، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اعتکاف کا اس قدر اہتمام تھا کہ آپ ہر سال رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور جس سال وفات ہوئی اس سال دوسرے اور تیسرے دونوں عشروں کا اعتکاف فرمایا ، (ابوداؤد ، حدیث نمبر : ۲۴۶۶ ) ایک سال آپ اعتکاف نہیں فرما سکے تو اس کے بدلہ شوال میں دس دنوں کا اعتکاف فرمایا۔( مسلم عن عائشۃؓ، حدیث نمبر : ۱۱۷۳).
*یہ اعتکاف دراصل انسانی کی ان لغزشوں کا کفارہ بھی ہے جو روزہ و رمضان کی برکت سے محرومی کا باعث بنتے ہیں، جس طرح فرض نمازوں کی تکمیل سنن ونوافل سے کردی جاتی ہے، اسی طرح روزوں میں نقائص کی تکمیل اعتکاف کے ثواب سے کردیا جاتا ہے، یہ اعتکاف انسان کو ایک طرف بندگی کے اعلی معیار تک پہنچاتی ہے تو وہیں اس کی طبیعت میں انسانیت کی حقیقی روح پھونک دیتی ہے، اس کے فوائد بے شمار ہیں، بہت سے علماء ربانیین نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے، امام غزالی اور امام دہلوی نے اس کے اسرار و فوائد بتلائے ہیں، سیدی ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ اللہ نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب ارکان اربعہ میں اس پر روشنی ڈالی ہے، بالخصوص علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اعتکاف کے متعلق بیان کردہ مقاصد و فوائد کو پڑھنے کی ضرورت ہے، آپ رقمطراز ہیں: "اعتکاف کی روح اور اس کا مقصود یہ ہے کہ قلب اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہوجائے، اس کے ساتھ جمعیت باطنی حاصل ہو، مخلوق کے ساتھ اشتغال سے رہائی نصیب ہو، اور حق تعالیٰ سبحانہ کے ساتھ اشتغال کی نعمت میسر آئے، اور یہ حال ہوجائے کہ تمام افکار و خیالات، ترددات اور ہموم و. وساوس کی جگہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی محبت لے لے، ہر فکر اس کی فکر میں ڈھل جائے، اور ہر احساس و خیال اس کے ذکر و فکر اس کی رضا و قرب کے حصول کی کوشش کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے، مخلوق سے انس کے بجائے اللہ تعالیٰ سے انس پیدا ہو، اور قبر کی وحشت میں جب کوئی اس کا غمخوار نہ ہوگا یہ انس اس کا زاد سفر بنے، یہ ہیں اعتکاف کے عظیم مقاصد"(زاد المعاد: ٢/٨٧).*