افیون کی بیع جائز ہے یا نہیں

افیون کا آج کل جائز استعمال بھی موجود ہے کہ دواؤں میں اس کا بکثرت استعمال ہونےلگاہے۔اور فقہائے کرام نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ جس چیز کا استعمال جائز طریقہ پر کیا جاتا ہو اس کی خریدوفروخت جائز ہے لیکن اس کا غلط استعمال بھی رائج ہے۔ لہٰذاجہاں غلط استعمال کیلئے لیا جارہا ہو، یا جس کے بارے میں ظن غالب ہو کہ وہ اس کا غلط استعمال کرے گا، تو اس صورت میں ایسے شخص کے ہاتھوں بیچنا درست نہیں ہے۔ ۔واللہ اعلم بالصواب۔ (مستفاد: فتاوی دارالعلوم دیوبند فی الدرالمختار (6/454):"(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحةبيع الحشيشة والأفيون."وفی الشامیۃ تحتہ (6/ 454) :"قوله )وصح بيع غير الخمر) أي عنده خلافا لهما في البيع والضمان، لكن الفتوى على قوله في البيع، وعلى قولهما في الضمان إن قصد المتلف الحسبة وذلك يعرف بالقرائن، وإلا فعلى قوله كما في التتارخانية وغيرها.ثم إن البيع وإن صح لكنه يكره كما في الغاية."وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 391) :"(و) جاز (بيع عصير) عنب (ممن) يعلم أنه (يتخذه خمرا) لأن المعصية لا تقوم بعينه بل بعد تغيره وقيل يكره لإعانته على المعصية."" قوله:(ممن يعلم) فيه إشارة إلى أنه لو لم يعلم لم يكره بلا خلاف قهستاني ناقل✍ہدایت اللہ قاسمی خادم مدرسہ رشیدیہ ڈنگرا،گیا،بہار HIDAYATULLAH TEACHER MADARSA RASHIDIA DANGRA GAYA BIHAR INDIA نــــوٹ:دیگر مسائل کی جانکاری کے لئے رابطہ بھی کرسکتے ہیں CONTACT NO 6206649711 ????????????????????????????????????????????????

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔