*یہ* پوری کائنات اللہ کی ہے، زرہ زرہ اور چپہ چپہ کا مالک اللہ ہے۔ یہ زمین یہ آسمان یہ چاند اور ستارے، لا محدود کہکشانیں خلائیں اور فضائیں سب خدا تعالیٰ کی ہیں ،سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ اللہ تعالی کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی ہل نہیں سکتا۔ پوری دنیا پر اللہ تعالی کی حکمرانی ہے، وہی ہر چیز کا مالک ہے اور ہر چیز پر قادر ہے، تنہا اسی کی حکمرانی ہے، اسی کے قبضہ میں ہر ذی نفس کی جان بھی ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو یہ جسم ایک امانت کے طور پر عارضی وقت کے لیے دیا ہے، اسی طرح زمین اور اس سے استفادے کی چیزیں بھی عارضی طور پر اللہ نے دیا ہے۔ یہاں کی حکومتیں بادشاہتیں بھی عارضی اور فانی ہیں۔ اس لیے کسی کو بھی اپنی اس فانی طاقت حکومت بادشاہت صلاحیت علم و ترقی اور عروج و بلندی پر گھمنڈ اور فخر کرنے کا حق نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے اس دنیا اور اس کی نعمتوں سے استفادہ کا حق سب کو دیا ہے، کسی فرد یا جماعت کا تنہا حق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں اللہ تعالی کا نظام یہ ہے کہ وہ کفر کو تو برداشت کسی حد تک کر لیتا ہے، لیکن ظلم و ستم اور ناانصافی کو وہ کبھی برداشت نہیں کرتا، ظالموں کو وقتی مہلت تو مل جاتی ہے، لیکن انجام کار ان کی تباہی ہلاکت اور بربادی ہوتی ہے۔ اور جب خدا کی پکڑ اور گرفت آتی ہے، تو انسان کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں نہ دوا ???? کام آتی ہے اور نہ احتیاطی تدابیر کام آتے ہیں۔
اللہ تعالی نے عبرت و نصیحت کے لیے قوم عاد و ثمود اور قوم فرعون و نمرود کی ہلاکت و تباہی اور نہ جانے، کتنے اور اقوام و ملل کی تباہی کے نمونے اور کتنی مثالیں قرآن مجید میں بیان کر دیا ہے ۔
کرونا وایرس بظاہر ???? تو بیماری ہے ، لیکن یہ درحقیقت اللہ تعالی کی طرف سے گرفت پکڑ اور عذاب ہے۔ جس نے ظالم و مظلوم اور تماشہ بینوں سب کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ساری دنیا ???? میں ایک کہرام ہے، نفسی نفسی اور ہو کا عالم ہے۔ ہر شخص دوسرے سے بھاگ رہا ہے ،قیامت کا منظر دنیا میں ہی نظر آرہا ہے۔ یہ *کرونا نہیں بلکہ اللہ تعالی کی طرف ➡ سے *قہرنا* ہے،۔ جب اللہ تعالی دنیا میں لوگوں کی گرفت کرتا ہے تو اس میں ظالموں کے ساتھ مظلوموں کو بھی اپنی گرفت میں کر لیتا ہے، یعنی دنیا میں ظالم و مظلوم کے ساتھ خدا کا یہ عذاب یکساں رہتا ہے ، مگر آخرت میں حسب اعمال جزا و سزا ملے گی۔ بخاری شریف کی روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا *اذا انزل اللہ بقوم عذابا، اصاب العذاب من کان فیھم، ثم بعثوا علی اعمالھم* ( بخاری شریف کتاب الفتن )
ہمیں یہ ماننا ہوگا اور یہ تسلیم کرنا پڑے گا ???? کہ یہ وبا اور عذاب جس نے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے، یہ اس ظلم اور فحاشی و عریانیت اور بے حیائی اور برائی کا بدلہ ہے جس میں آج دنیا کے زیادہ تر لوگ مبتلا ہیں۔ امریکہ ???????? اسرائیل اور اس کی اتحادی طاقتوں نے کیا❓نہیں کیا؟ افغانستان شام عراق کو تباہ کر دیا ،ہزاروں لاکھوں لوگوں کو ناحق تباہ کر دیا ،پوری دنیا کو ان چند طاقتور ملکوں نے اپنے قبضہ میں کرنے کےلیے ظلم و ستم کا ننگا ناچ کیا۔ ہزاروں بے گناہوں کو گولیوں سے بھون دیا، لوگوں کو قید خانے میں ایسی سزائیں دیں کہ ان کے تذکرے سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ برما میں کیا نہیں ہوا؟ مصر میں ظلم و ستم کی داستان دہرائی گئی ۔ جب شام میں ظلم و ستم ڈھایا جا رہا تھا تو ایک معصوم بچہ یہ کہتا ہوا دنیا سے گیا تھا کہ ???? میں اپنے رب سے جاکر سب کچھ بتاؤں گا۔ اس وقت دنیا کی ساری حکومتیں، سوئی رہیں۔ کشمیر میں لاک ڈاؤن کے وقت ایک عورت نے اللہ تعالی سے گہار لگائی تھی اور یہ فریاد کی تھی خدایا! لوگوں کو کوئی سزا نہ دینا بس کچھ مہینے ان کو لاک ڈاؤن کا مزا چکھا دیجئے گا ! یاد ہے اس وقت پوری دنیا خاموش رہی اور کشمیر کے لوگ (بچے اور عورتیں بوڑھے اور جوان ہندو اور مسلمان سب) بھوک اور پیاس سے ٹرپتے اور بلکتے رہے، پائ پائ اور دانے دانے کے محتاج رہے ،دوائیوں کے لئے ترستے رہے، پاکستان کا خوف اتنا دلا دیا گیا کہ مذھبی قیادتیں صم بکم بنی رہیں اور ملک کا سجنیدہ ہندو طبقہ بھی اس ظلم پر خاموش تماشائی بنا رہا ۔ عرب ملکوں نے (خاص طور پر سعودی حکومت نے) کیا کیا ظلم و ستم کئے،( بے قصوروں پر اور خاص طور پر علماء اور اہل علم پر ) اور کن حدوں کو وہ پار کر گئے ،سب کو معلوم ہے، لیکن پڑھا لکھا طبقہ اور علماء کرام بھی ان کا ساتھ دیتے رہے یا خاموش رہے، اسلاف اور سلف سے نسبت کا دعوی کرنے والے علماء تو ان کے ظلم و ستم کی آج بھی تاویلیں ہی کرتے نظر آتے ہیں ۔
اس لیے دنیا اگر اس عذاب اور وائرس سے نجات چاہتی ہے اور اس بھانک بیماری سے بچنا چاہتی ہے ۔امن و سلامتی اور سکون و راحت اور چین و اطمنان کی دولت سے مالا مال ہونا چاہتی ہے تو ظلم و ستم سے اور فحاشی و عریانی سے اور ہر اس کام سے رکنا اور بچنا پرے گا ،جو عذاب الہی کو دعوت دیتا ہے اور جس سے خدا کا غضب بھرکتا ہے ۔
مشہور صحافی اور صاحب قلم *اوریا مقبول جان* نے بڑی قیمتی باتیں تحریر کی ہیں ہم استفادہ کے لئے اس کو بھی پیش کرتے ہیں لکھتے ہیں۔:
*کہاں ہیں وہ سیکولر، لبرل ملحدین جو کہا کرتے تھے کہ یہ اگر اللہ کا عذاب ہے تو امریکہ اور مغربی دنیا میں کیوں نہیں آتا، جہاں فحاشی، عریانی اور جنسی بے راہ روی سمیت تمام برائیاں عروج پر ہیں۔ کدھر ہیں وہ دانشور جو اللہ کے فیصلوں پر طعن وتشنیع کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اللہ کا عذاب صرف غریبوں پر ہی کیوں آتا ہے۔ دیکھو!جن ملکوں نے زلزلوں سے بچنے کے لیے انتظامات کرلیے ہیں، وہاں اللہ کا عذاب اگر زلزلے کی صورت آ بھی جائے تو وہ انکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ لیکن آج تو اس ٹیکنالوجی کو پوجنے والوں کا سب سے بڑا بت، امریکہ اپنی تمام تر طبی مہارت اور مادی وسائل کے باوجود اللہ کے اس عذاب کا سب سے بڑا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کی پانچ مستقل عالمی طاقتوں میں سے وہ تین،یعنی امریکہ، برطانیہ اور فرانس جو گذشتہ ایک سو سال سے کمزور ملکوں پر فوج کشی کے ذریعے قتل و غارت کا لائسنس دیا کرتی تھیں، آج کس قدربے بس ہیں۔ یہ تینوں،عددی اعتبار سے،کرونا کے عذاب کا شکار ہونے والے پہلے پانچ ممالک میں شامل ہیں۔ یہی تین ممالک گذشتہ سو سال سے فحاشی، عریانی، پورنوگرافی، فیشن انڈسٹری کے ذریعے نسوانی استحصال، ہم جنس پرستی، مساج پالرز اور ایسکورٹس (Escorts) کے نام پر جسم فروشی، برہنہ ساحل، انسانی حقوق اور حقوقِ نسواں کی آڑ میں توہین مذہب، الحاد اور اسلام دشمنی جیسی کئی اختراعات اور خرافات کے مرکز ہیں۔انہی تینوں ممالک میں سب سے پہلے جدید سیکولر لبرل اور لادین مغربی تہذیب کا بیج بویا گیا۔ فیشن انڈسٹری جس کی آڑ میں فحاشی کو عروج ملتا ہے، وہ فرانس میں پیدا ہوئی اور پھر اٹلی نے اسے بام عروج پر پہنچایا۔ چین کیمونسٹ دنیا کا واحد ملک ہے جس نے ماؤزے تنگ کے ثقافتی انقلاب کے تین برسوں (1966 ء سے 1969ء ) میں دو کروڑ لوگوں کو قتل کر کے ایک ، لادین ثقافت کا آغاز کیا اور آج تک اس پر قائم ہے، جبکہ اس کا ساتھی کیمونسٹ روس، انقلاب کے زوال کے بعد مذہب کی جانب لوٹ چکا ہے اور آج وہاں ہر سال بارہ سو چرچ تعمیر ہو رہے ہیں ۔ پیوٹن فخر سے کہتا ہے ''ہم ایک عیسائی روس ہیں اور امریکہ ایک سوویت ہم جنس پرست یونین ہے''۔ دونوں قدیم کیمونسٹ ریاستوں میں اللہ نے فرق واضح کر دیا ہے۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ستاون کے قریب مسلمان ممالک میں کرونا کے شکار مریضوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ مسلمان ممالک میں فہرست کے اعتبار سے آخری 93 ممالک میں شامل ہیں۔صومالیہ (2)، چاڈ(3)، گیمبیا (3)، شام (5)، موریطانیہ (5)، سوڈان (5)، بنین (6)، گیبون (7)، گھانا (8)،نائجیریا (10)، مالی (11)، جبوتی (12)، مالدیپ (16)، یوگنڈا (23)، ٹوکو (25)، کرغستان (58)، نائجیر(76)، ازبکستان (88)، آئی وری کوسٹ (101)، افغانستان (110)۔ یعنی بیس ممالک میں 574 مریض اور مرنے والوں کی تعداد صرف (9) ہے۔ پاکستان 31 ویں نمبر پر ہے اور سعودی عرب 35 ویں نمبر پر۔ اہل پاکستان کو بھی گیارہ ستمبرکے بعد سیکولر لبرل ڈکٹیٹر جنرل مشرف سے لے کر اب تک کے جرائم پر نظر ڈالنی چاہیے اور سیکولر لبرل جمہوریت کے نام پر اس وقت جوالحاد و فحاشی پرورش پا رہی ہے اس پر استغفار کرنا چاہیے۔ ورنہ ڈر اس بات کا ہے کہ کہیں ہم بھی پہلے دس ممالک کی فہرست میں آکر نہ کھڑے ہوجائیں، کیونکہ ابھی تک اللہ کے عذاب کا کوڑا تھما نہیں ہے۔ یہی حال سعودی عرب کا ہے۔ ہمارے سیکولر لبرل محققین کی ایک عادت یہ ہے کہ وہ ریسرچ کے ڈیٹا کا بہت استعمال کرتے ہیں اور اپنا موقف ثابت کرنے کے لیے اعدادوشمار کو توڑ موڑ کرپیش کرتے ہیں۔ مثلا یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے،کہ جہاں اسلام ہے وہاں غربت ہے، جہاں صاف پانی اور صحت کی سہولیات نہیں وہاں بیماری ہے، جہاں جمہوریت نہیں وہاں قحط اور پسماندگی ہے۔ لیکن آج میرے اللہ نے ان کا تمام سیکولر لبرل ملحدین کا تمام ریسرچ ڈیٹا ان کے منہ پر دے مارا ہے۔ اللہ نے اپنے عذاب کیلئے آج وہ ممالک منتخب کیے ہیں جن کی فی کس آمدن دنیا میں سب سے بلند سطح پر ہے۔یہ ممالک، سائنس خصوصاََ میڈیکل سائنس میں اعلیٰ ترین معیار رکھتے ہیں، صحت کی سہولیات کے اعتبار سے بھی بہترین ہیں، صاف پانی اور حفظان صحت کی سہولیات میں بھی شاندار ہیں اور جمہوریت بھی مستحکم ہے،لیکن ان سب کی موجودگی میں اللہ نے ان پر ایسا عذاب مسلط کیا کہ انہیں بے بس کر کے رکھ دیا۔ ریسرچ کے بنیادی اصول یعنی دو چیزوں کے باہمی تعلق (correlation) کے حوالے سے سارے سیکولر مفروضے غلط کر کے اللہ نے دنیا کو ایک نیا اصول اور باہمی تعلق (correlation) یاد دلایا ہے کہ جو قوم اللہ کی جتنی نافرمان ہو گی، اللہ کی بتائی ہوئی اخلاقیات کو جتنا پامال کرے گی، اللہ اسے اتنے ہی زیادہ عذاب میں گرفتار کرے گا۔جو سیکولر لبرل، ملحد نما دانشور سائنسی تحقیق پر اچھل اچھل کر بولا کرتے تھے کہ یہ عذاب وغیرہ کچھ نہیں ہوتا،اصل وجہ صرف غربت اور پسماندگی ہے۔ وہ آج دنیا کا نقشہ کھول کر کرونا کے عذاب کا شکار ممالک کا جائزہ لیں۔ یہ وہی ممالک ہیں جو ترقی یافتہ شمار ہوتے ہیں۔جبکہ کرونا کے عذاب سے وہ ممالک اور علاقے بچے ہوئے ہیں جہاں غربت ہے، افلاس ہے،صحیح خوراک نہیں ملتی،صاف پانی، تعلیم اور سیوریج نہیں مگر آج ان پر موت کے بھیانک سائے نہیں لہرا رہے۔ جبکہ امیر ترین ممالک پر موت ایک بھیانک عفریت کی صورت چھائی ہوئی ہے اور ہر کوئی خوف زدہ ہے۔ اس سے بڑا عذاب کیا ہوگا کہ ایک شخص جس کے پاس دولت، عزت، طاقت، صحت، آزادی، ٹیکنالوجی سب کچھ ہو مگر وہ قید تنہائی کا عذاب بھگت رہا ہوہر انسان دوسرے سے خوفزدہ ہے۔ اللہ کی اس واضح نشانی کے باوجود بھی ہدایت کی طلب سے محروم سیکولر لبرل، ملحد کبھی نہیں مانیں گے۔ یہ تو ابھی کل کی بات ہے کہ دنیا کی جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی کا بت ''امریکہ ''میرے اللہ کی نصرت سے نہتے طالبان کے ہاتھوں پاش پاش ہوا، لیکن کون مانتا ہے۔ یاد رکھو!یہ میرے اللہ کا نازل کردہ عذاب ہے،جس نے تمہارے چہرے پر تمہاری ساری دلیلیں پٹخ دی ہیں۔ اللہ جب چاہے گا وہ اسے تم پر مسلط رکھے گا اور وہ جب چاہے گا انسانوں کو توفیق دے گا کہ وہ اس کا علاج دریافت کر لیں۔ اللہ اسے وحی جبلّی کہتا ہے، یعنی کہ وہ کسی انسان کے دماغ میں علاج یا دریافت ''وحی'' کر دیتا ہے۔ اگر تم اتنے ہی طاقتور ہو کہ اللہ کی ٹائم لائن سے پہلے ہی کرونا کا علاج دریافت کر سکتے ہو تو پھردعویٰ کرو کہ ہم کل سے اللہ کے اس عذاب کا شکار کسی بھی شخص کو مرنے نہیں دیں گے۔ لیکن تم ناکام و نامراد لوٹو گے۔ اس وقت تک ناکام جب تک میرے اللہ کا فیصلہ نہیں آجاتا۔