جب آدمی اللہ والوں کی صحبت میں رہتا ہے تو بہت سی چیزوں کے تو خود بخود اثرات منتقل ہوتے ہیں۔ اللہ والوں کے جتنا قریب رہے گا, اتنا اس کے اثرات آئیں گے۔ میرے مرشد حضرت عبدالحئ صاحب عارفی رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے: *"کہ ہر طرف بالکل تاریکی کے عالم میں تم دور سے ایک چھوٹا سا چراغ دیکھتے ہو تو اس کا فوری اثر یہ ہوتا ہے کہ تمھارے ا??در امید کی رمق پیدا ہوجاتی ہے کہ ادھر روشنی ہے۔ اب اس کے قریب ہوتے جائیں تو کچھ دیر بعد اس سے ہلکی دھندلی روشنی بھی آنے لگے گی, اب یہ فائدہ ہوا کہ راستہ نظر آنے میں سہولت ہوگئ۔ اور قریب چلیں تو راستہ صاف نظر آنے لگا۔ اور قریب پہنچے یہاں تک کہ اس کے بلکل قریب بیٹھ جائیں تو اس کی گرمی بھی محسوس ہونے لگے گی اور اگر وہاں پہنچ کر اس کی لو سے لو لگا لو تو خود چراغ بن جاؤ گے"* اللہ والوں کے ساتھ رابطہ اور تعلق بڑھتا ہے اتنا ہی آدمی کا تقویٰ, روحانیت اور نورانیت بڑھتی چلی جاتی ہے, پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ آدمی خود جل اٹھتا ہے اور چراغ بن جاتا ہے۔ پندرہ سو سال سے دین کی روشنی اسی طریقے سے پھیل رہی ہے کہ ایک چراغ سے دوسرا اور دوسرے سے تیسرا روشن ہوتا رہا.....
*(مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد رفیع عثمانی صاحب)*
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔