الیکشن میں نوکریوں کی بات

???? *صدائے دل ندائے وقت*????(1082)
*الیکشن میں نوکریوں کی بات -*

*ہندوستانی جمہوریت کا تماشہ یہ ہے کہ یہاں عوام کے بجائے خود حکومت ایک ایجینڈا تیار کرتی ہے، یہ اپنے مطابق لوگوں کو مسخر کرنے ان کے دل و دماغ پر قابو پانے اور ان کی فلاحی و رفاہی کاموں کا نام لیکر اپنے منصوبے پورے کرنے کرنی کوشش کرتی ہے، ہر بار الیکشن کے وقت خواہ وہ مرکزی ہو یا صوبائی؛ یہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ پارٹیاں اپنے اعتبار سے ذات پات، اونچ نیچ اور سب سے زیادہ دھرم کی ایک بساط بچھاتی ہیں، اور پورے ملک کی سیاست کا پارا اسی کی طرف موڑ دیتی ہیں، مذہب تو ویسے بھی بھارت میں ایک نشہ کی طرح استعمال ہونے لگا ہے، بھولی عوام کو مذہبی کشکش اور اندرونی خوف میں مبتلا کر کے من مانی کی جاتی ہے، اور وہ نادانی وہ سب کچھ کر جانے کو تیار ہوجاتے ہیں جس سے انسانیت شرمسار ہوتی ہے، اور معاشرہ ایک دلدل میں پھنس جاتا ہے، ہندو ہوں یا مسلمان (خاکم بدہن) بلکہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں اس وقت مذہبی تشدد کی یلغار ہے، دنیا کے عظیم ترین جمہوریت میں اور سیکولرازم کے پٹھوؤں میں یہ عنصر پایا جاتا ہے، امریکہ جو جمہوریت کی قدامت اور علمبرداری کا دعویٰ کرتا ہے، وہاں بھی انتخابات میں مذہب کا رنگ دیکھا گیا ہے، صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ میں ہو رہے متعدد احتجاج اور کرائسس کے وقت بائیبل اور چرچ کا حوالہ دیا ہے، موجودہ صدارتی الیکشن بھی اس سے خالی نہیں ہے، غالباً یہ بیماری سب سے زیادہ ایشیا میں پائی جاتی ہے، سری لنکا ہو یا پھر میانمار، بنگلادیش ہو یا پھر پاکستان لگ بھگ ہر جگہ یہ تشدد زوروں ہر ہے؛ بالخصوص ہندوستان اپنی قدامت اور برہمنیت کی وجہ سے اس کا مرکز بن چکا ہے، ہندو ازم اور فاشزم نے اسے اتنا کھوکھلا کردیا ہے؛ کہ اب الیکشن کے وقت بنیادی ضروریات کی بات ہی نہیں کی جاتی ہے، کمیونٹی کو ڈسٹرکٹ اور ڈسٹرب کیا جاتا ہے اور ایک انتخاب کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے، کمال کی بات یہ ہے کہ اس حربہ سے پارٹیاں کامیاب بھی ہوتی ہیں؛ بلکہ اسی کے دم پر پچھلے کئی سالوں سے بی جے پی اور اس کے ہمنوا لوگوں کی روزی روٹی چل رہی ہے.*
*تاہم ان سب کے درمیان خوشی کی بات یہ ہے کہ اب لوگوں میں بیداری پیدا ہورہی ہے، فاشزم کا چہرا کھل کر سامنے آرہا ہے، لوگوں نے پیٹ کی گرمی محسوس کی ہے، انہیں لگنے لگا ہے کہ مذہب کے نام پر ووٹ دیکر اپنی اور اپنے اہل و عیال بالخصوص آئندہ نسل کو گڑھے میں دھکیلنے کے مترادف ہے، چنانچہ نتیجہ سامنے ہے، اس وقت نوجوانوں کی بے روزگاری کئی گنا بڑھ چکی ہے، ہاتھوں میں سند کی کمی نہی ہے؛ لیکن کوئی ذریعہ معاش نہیں ملتا، سرکار نے ہاتھ کھڑے کر لئے اور ملک کو یونہی چھوڑ دیا، نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور صرف چار گھنٹے کی نوٹس پر لاک ڈاؤن نے پوری قلعی کھول دی ہے، مزدوروں کی بے بسی، انسانیت کی تڑپ اور بے چینی دو چند کردی ہے، اگرچہ سب بولنے سے کتراتے ہوں اور اپنی رائے رکھنے سے ڈرتے ہوں؛ مگر حقیقت یہی ہے کہ سبھی اندرونی اعتبار سے مضطرب ہوچکے ہیں، اس دوران بہار الیکشن سے ایک امید جگی ہے، وہاں لالو پرساد یادو کی پارٹی اور ان کے بیٹے تیجسوی یادو نے جیت کے ساتھ قلم کا پہلا استعمال نو لاکھ نوکریوں کیلئے کرنے کا وعدہ کیا ہے، نتیش کمار نے اپنے دوست مودی کے جھوٹ کی طرح اسے بھی لفاظی سمجھ کر سوال بھی کر لیا؛ کہ کیسے اتنی نوکری دیں گے؟ یہ صرف انتخابی مہم کا اثر ہے، ایسے میں انہوں نے باقاعدہ بتایا کہ کس طرح نوکریاں منتظر ہیں اور سرکار اسے نظر انداز کرتے ہوئے اپنی عیاشی پر توجہ دیتی ہے، اب یہ سوال نہیں بنتا کہ وہ جیت جائیں تو واقعی نوکریاں دے ہی دیں گے؟ لیکن بات یہ ہے کہ جس وقت ملک اور خاص طور پر بہار کے نوجوان نوکری کو مدعی بنانے کی ٹھان رہے تھے اور حکومت سے مطالبہ کر رہے تھے؛ کہ اسے سیاسی نیتاؤں نے نہ صرف تسلیم کیا بلکہ انتخابی مہم کا حصہ بھی بنا لیا، دراصل یہی جمہوریت ہے کہ عوام کے مدعی سامنے رکھے جائیں، ان کی آواز سنی جائے، وہ کیا کہتے ہیں اور کیا چاہتے ہیں وہ سیاست دان ان کی آواز بن کر نمائندہ ہوجائیں، اگر ایسا نہیں ہوتا تو یقین جانیں وہ جمہوریت نہیں؛ بلکہ ایک تماشہ گاہ ہے جہاں جمہوریت کا ڈمرو ایک نیتا بجاتا ہے اور عوام کرتب دکھاتی ہے.*

✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
30/10/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔