امارت اسلامیہ افغان کی فتح

???? *صدائے دل ندائے وقت*????(839) *امارت اسلامیہ افغان کی فتح__!!!*

*قربانی، حوصلہ، جوش شہادت، شوق پامردی، جہد و جہاد کا اشتیاق، توکل، ایمان باللہ پر پختہ یقین، سرفروشی، جانبازی، بہادی، شجاعت، قوت بازو، سرو سامان کی فکر کئے بغیر استقلال، و ثبات کے ساتھ قدم گڑائے رکھنے والے، جو شب و روز صرف تعمیل الہی اور سر تسلیم خم کرنے میں مشغول ہوں، جن کے پہلو میں دھڑکتا دل، جسم پر موٹے جھوٹے کپڑے، سروں پر گرد، بستر کھردرا، ہتھیاروں سے شغف، پیروں میں سجتی نیزوں کی دھاریں، جوتوں میں پیوند، ریگ و ریگستان میں سرگرداں، اور سب سے بڑی بات یہ کہ جن کے دل میں سوائے رب الہی کی فکر، اس کی شریعت کی برتری، خلافت کو ہی اول و آخر سمجھنے کے سوا کچھ نہ ہو، دنیا کے سارے نظام میں اسلام اور اسلامیت کو ہی بہتر سمجھ کر جی جان لگا دینا، جمہوریت کے دھوکے سے بچتے ہوئے، سیکولرازم کے فریب سے دور، کیپیٹلزم کی ناانصافی، ڈکٹیٹر شپ کے ظلم و جور غرض دنیا کے سارے وضعی قوانین سے نگاہیں بند کر کے ایک اللہ کی راہ میں لگ جانا، خلافت قائم کرنے کیلئے اور امن و امان کو اکسیر سمجھ کر اٹھ جانا، دنیا کے آرائش، و زیبائش کو خیال میں بھی نہ لانا، مغربی چکا چوند میں بھی اسلام کی قدامت کو اولیت دینا، جب ہر طرف ماڈرنزم کا شور ہو، جدت و جدیدیت کی ہلچل ہو، اور ایک ننگے پن کا طوفان ہو اس کے درمیان بھی اپنی تہذیب و ثقافت کو فوقیت دینا ہو___ جب یہ سب کہیں ایک جگہ جمع ہوجائے، جس قوم اور ملت میں یہ ساری صفات اکٹھی ہوجائیں، تو اسے کامیاب ترین ملت لکھ دیجیے _! اسے افغان اور افغانستان کا نام دیدیجئے _!* *سمجھ لیجیے کہ یہ عزم و استقلال کا ہنگامہ انہیں کی جانب سے ہے، جن کے سامنے دنیا نے گھٹنے ٹیک دئیے، عالمی سپر پاورز دست بستہ ہوگئے، انہوں نے اپنی عالی شان، کبر و نخوت کا مقبرہ اسی صحرا کو بنا لیا، سارے ٹینک برباد ہوگئے، ہتھیار کند پڑ گئے، ٹکنالاجی کی ساری ایجادات نے جواب دیدیا، فوج کثرت اور مسلح افواج کی درندگی ناکام ہوگئی، بندوق سے گولیاں نلکیں، مگر صرف جسم کو موت کے گھاٹ اتار سکیں، ان کی روحانیت، استقامت کو ٹس سے مس نہ کر سکیں، وہ ہوائی حملے کرتے، ڈرون کے زریعے آبادیاں اور نسل ختم کر جاتے، ویرانی ہی ویرانی کر جاتے، صحرا میں مزید گرمی پیدا کرجاتے، ذرات اور دھات سے زمین بھی دہک اٹھتی، شعلہ نکلتا، انگارے پیدا ہوتے، گھروں کو خاکستر کر جاتے، ملبے میں لاشیں چھپ جاتیں، انسانوں کی ہر صنف پر وہ گریڈر گر تباہی مچاجاتے؛ لیکن درحقیقت انہیں اس بات کا اندازہ بھی نہ تھا کہ زمین والے ان کا شکار کر رہے ہیں، انہیں اپنی پتھریلی اور سنگلاخ وادیوں میں گم کر رہے ہیں، اور اسے ان کے حق وادی تیہہ بنا رہے ہیں، چنانچہ ان کے جدید ہتھیاروں سے ان کے بچے کھیلتے، انہیں ایندھن بنا کر خواتین روٹیاں بناتیں، وہ بموں کے شور کو کھیل و تماشہ سمجھتے، ان کی زندگی کا کوئی معمول نہ چھوٹتا، وہ وہاں کے کوہسار میں، ودای میں اور پہاڑوں کے درمیان ٹھہر کر فوجیوں کا مقابلہ کرتے، وہ صیاد تھے جو اپنے شکار پر گھات لگائے بیٹھتا ہے، جو اپنے گھر میں گھس جانے والے حیوان کا شکار کرتے ہیں، کیونکہ ان کے سامنے جنت کا شوق، ایمان کا لبالب جام ہوتا، وہی ان کیلئے روزی و روٹی ہوتی، ان کے پیر جم جاتے اور وہ فوجی اپنے اڈوں میں دبک جاتے.* *تاریخ میں ٢٩/ فروری ٢٠٢٠ آب زر سے لکھا جائے گا، یہی افغانستان اور طالبان جنہیں زمین دوز کرنے کا خواب پالا جارہا تھا، انہیں کے سامنے اسلامی شرائط اور اسلامی مملکت پر رضامندی کے ساتھ جن کی امان پانے کیلئے قطر کی سرزمین پر دوحہ میں امن معاہدہ کر بیٹھے، کیونکہ انہیں اپنی فوج کی جان بچانی تھی، اپنی کبریائی کو دفن ہونے سے بچانا تھا، دراصل افغان طالبان نے تین سپر پارو سویت یونین، روس اور امریکہ کو اپنی سرزمین چھوڑنے پر مجبور کردیا، تاریخ میں ایسی جواں مردی اور ایسا جوش اولین اسلام کے علاوہ کبھی نہیں ملتا، ایک طرف پوری دنیا کھڑی ہے، تو دوسری طرف صرف مٹھی بھر جماعت ہے، سچ کہئے تو اس جنگ کی کاروائی کو پڑھنے، سننے اور سمجھنے کے بعد غزوہ بدر، خندق جیسے غزوات کی یاد آتی ہے، یہ سب صرف اس لئے ممکن ہوسکا کیونکہ وہ جانتے تھے؛ کہ اسلام شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے، شاہین بن کر جھپٹنا ہے، ہر وقت محاذ پر رہنا ہے، اپنی سرحدوں کی حفاظت خود ہی کرنی ہے، دنیا کے لٹیروں اور قزاقوں کے درمیان اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ کا سامان خود ہی کرنا ہے، یاد کیجیے __! امریکہ نے ٩/١١ کے بعد جب افغانستان کو نشانہ بنایا تو سبھی کو لگتا تھا کہ اب افغان اور طالبان کا خاتمہ ہے، اس وقت Time میگزین نے یہ سرخی لگائی تھی کہ اب طالبان کے آخری دن ہیں، یعنی جنہیں دہشت گرد کہا گیا، آتنک واد کہا گیا، دنیا کیلئے خطرہ بتایا گیا، جسے بنیاد بنا کر اسلاموفوبیا کی لہر دوڑا دی اور پوری دنیا اسلام مخالف جنگ کا آغاز کردیا، جارج ڈبلو بش نے جسے دوسری صلیبی جنگ قرار دیا، اور افغانستان کو اس محور بتا کر، اسامہ بن لادن کے نام کا سہارا لیکر وہاں کی سرزمین کو تہہ و بالا کردینا چاہا؛ لیکن انہوں نے ہر گز قدم پیچھے نہ کیا، ہر گز اپنی پیٹھ نہ دکھائی.* *عالمی طاقتوں اور امن و امان کے ٹھیکیداروں سے گہار نہ لگائی؛ بلکہ وہ قربانیاں دیتے ہوئے ظلمت شب میں مثل چراع بلند رہے، خود کو جلایا، تپایا، تھکایا، مگر اپنا حال و مآل خدا کے سپرد کرتے ہوئے جمے رہے، چنانچہ آج وہ پوری دنیا کیلئے مشعل بن گئے، اب اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو اگلے چودہ مہینہ میں امریکی فوج وہاں ہٹالی جائے گی، اور دو ارہ کبھی وہاں کا رخ نہ کرے گی، نہ امریکی سلطنت سے وہاں کیلئے کوئی حکم جاری ہوگا، اور امید ہے کہ طالبان افغان حکومت سے ملکر سلطنت قائم کرے گی، امن بحال ہوگا، انسانیت کیلئے ایک نیا تجربہ ہوگا؛ لیکن ساتھ ہی ساتھ اب بھی بہت سے خطرات ہیں، یہ سبھی جانتے ہیں کہ اسلحاتی جنگ کسی قدر لڑی جاسکتی ہے، دو دو بازو کئے جا سکتے ہیں؛ لیکن فکری حملہ کی سکت ہر کسی میں نہیں ہوتی، اب ممکن ہے کہ افغانستان پر مغربی فکر کا حملہ ہوگا، سیدی حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے افغان کے سلسلہ میں اسی خدشہ کا اظہار کیا تھا، اب یہ اندیشہ مزید تقویت پا چکا ہے؛ مگر ہمیں یقین ہے کہ دنیا کی تمام طاقتیں اس میں بھی شکست کھائیں گی، ان کی فکریں بھی وہاں دفن ہوجائیں گی، اسلام کی برتری قائم رہے گی، یہ اولین اسلام کے علمبردار کسی کے سامنے نہ جھکیں گے، اب دنیا یہ بھی جان جائے گی کہ حقیقت میں مسلمان کون ہے، اسلام کیا ہے، اور دہشتگردی کن کی خصوصیت ہے، یہودیت اور صہیونیت کی پرت بھی چھٹتی جائے گی، جب دنیا کے ہر یونیورسٹی اور کالجز کے طلباء اپنے مقالاتِ اور تھیسس میں افغان و امریکی جنگ کے سلسلہ میں تجزیہ کریں گے تو یقیناً خود باطل حق کی نمائندگی کرے گا.*

✍ *محمد صابر حسین ندوی* Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 01/03/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔