*سوال:* کیا امام جمعہ کے خطبہ کی اذان و اقامت خود دے سکتا ہے، آج جمعہ کی نماز میں تقریباً پانچ شخص تھے اور ان میں کسی کو بھی اذان و اقامت یاد نہیں تھی؟ (عبد القادر، سہارنپور یوپی)
*بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم*
*الجواب وباللہ التوفیق*
نمازِ جمعہ میں خطبہ کی اذان اور اقامت کے سلسلے میں صراحتاً کوئی ایسا جزئیہ نہیں مل سکا جس میں اس کا حکم مذکور ہو، تاہم عام نمازوں کے بارے میں فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ جو شخص اذان دے وہی اقامت بھی کہے؛ چنانچہ اگر امام نے ہی اذان دی تھی تو وہ اقامت بلا حرج کہہ سکتا ہے، اس پر استیناس کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ مذکورہ بالا صورت میں امام کا خود خطبہ کی اذان دینا اور اقامت کہنا صحیح ہے، بطورِ خاص بوقتِ مجبوری اس میں قطعاً حرج نہیں ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔
*????والدليل على ما قلنا????*
(١) و لكن الأفضل أن يكون المؤذن هو المقيم (رد المحتار على الدر المختار ٦٤/٢ كتاب الصلاة باب الأذان زكريا)
أقام غیر من أذن بغيبته أي الموذن لا يكره مطلقا و إن بحضوره كره إن لحقه وحشة (الدر المختار مع رد المحتار ٦٤/٢ كتاب الصلاة باب الأذان زكريا)
و في السراج أن أبا حنيفة رحمه الله كان يباشر الأذان والإقامة بنفسه (رد المحتار على الدر المختار ٧١/٢ كتاب الصلاة باب الأذان والإقامة زكريا)
*كتبه العبد محمد زبير الندوي*
دار الافتاء و التحقیق مدرسہ ہدایت العلوم بہرائچ یوپی انڈیا