آپ حضرات سے درخواست ہے کہ ان نازک اور ناگفتہ بہ حالات میں فقہی موشگافیوں اور غیر ضروری مسائل میں امت کو مت الجھائیے۔ یہ وقت نہیں ہے کہ عورتوں کی جماعت، مسجد میں ان کی حاضری جاءیز ہے یا ناجائز ۔ قرآن دیکھ کر تراویح پڑھنا صحیح یا نہیں۔؟ ان موضوعات کو اس وقت چھیڑنے کی قطعا ضرورت نہیں ہے۔ تراویح کا درجہ سنت اور نفل ہے۔ مجبوری میں جس کو جس طرح سہولت ملے گی اپنے گھروں میں تنہا یا باجماعت ادا کریں گے۔ کچھ لوگ یا جتنے کو مسجد میں پڑھنے کی اجازت ملی ہے، مثلا امام موذن اور خادم مسجد، وہ لوگ مسجد میں ادا کریں لیں گے۔ تراویح کو فرض اور واجب کا درجہ مت دیجئے۔
دیکھا یہ جا رہا ہے کہ بعض نءے مفتیان کرام اور بعض وہ اہل علم جن کا فقہ و فتاویٰ اصل میدان بھی نہیں ہے دھڑلے سے ان موضوعات پر لکھ رہے اور خالص علمی اور تحقیقی موضوع کو سرسری انداز میں ایک دو صفہ میں فتویٰ کی شکل میں ہر عام و خاص میں سوشل میڈیا کے ذریعہ پھیلا رہے ہیں۔ ماضی میں بھی بعض علماء نے ایسی حرکتیں کی ہیں کہ امت نازک وقت میں ہے اور یہ نام نہاد علماء امت کی رہبری کے بجائے فقہی، اور مسلکی بحثوں میں امت کو الجھا رہے تھے،جس کا خوب فائدہ باطل نے اٹھایا۔ مسلمانوں کو شکست و ہزیمت ہوءی۔
کیا آپ نہیں جان رہے ہیں کہ اس نازک وقت میں بھی مخالف طاقتیں پردے کے پیچھے اپنے سارے منصوبے کو تکمیل تک پہنچا رہی ہیں۔ ان کا کھیل اور ڈرامہ جاری ہے اور جو سامنے نہیں آرہا ہے وہ وہیں مشغول ہے۔
اس وقت آپ کا کام علمی بحث، اخذ و استنباط اور تحقیق و افتاء کا نہیں ہے کچھ دنوں کے لیے اس کام کو رہنے دیجئے۔ مولانا علی میاں ندوی رح اپنے زمانے کے حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے فرمایا کرتے تھے۔ کہ آج اگر امام ابو حنیفہ رح امام مالک رح امام شافعی رح اور امام احمد بن حنبل رح زندہ ہوتے تو وہ بھی حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے کچھ دنوں کے لیے تدوین فقہ کام بند کر دیتے۔ لیکن افسوس کہ کسی نے اس پر عمل نہیں کیا ۔ ان حالات میں بھی تصنیف و تالیف اور کتابوں کے رسم اجراء کا سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔ بلکہ مار کٹنگ خوب چل رہی ہے۔
مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جو لوگ اس وقت غیر ضروری بحثوں میں لگے ہوئے ہیں اور مسلسل فقہی موشگافیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ انہیں روتے بلکتے اور بھوکے پریشان حال لوگوں کی مدد کی کوئی فکر اور پرواہ نہیں ہے۔ بس ایک دھن سوار ہے تحقیق ، تحقیق تصنیف، تالیف، اور مضمون بس۔
اس وقت عملی میدان میں آیءے لوگوں کی ضرورتوں کو بلا تفریق مذہب و ملت پوری کیجئے ان کے بھوک اور پیاس کی آگ بجھاءیے۔ خود کے پاس ہے تو وہ خرچ کیجئے اور نہیں ہے تو لوگوں کو توجہ دلائیے ان کے اندر شوق اور ترغیب پیدا کیجئے۔ الحمد للہ مجھ سے جتنا ہو رہا ہے اتنا کر رہا ہوں لوگوں کو بھی متوجہ کررہا ہوں۔ ابھی مضامین و مقالات سے زیادہ انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے کا وقت ہے۔ مدارس اسلامیہ کے مستقبل کے لیے کیا لاءحہ عمل طے ہو اس کے بارے میں غور و خوض کیجئے۔ مجھے تو یقین ہے کہ جن مدارس کا صحیح شجرہ صفءہ نبوی سے ملتا ہے ان کے لیے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ لیکن دنیا دار الاسباب ہے اس کے لیے محنت ، عمل وکوشش اور دوڑ و دھوپ ضروری ہے اور یہ توکل کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ بھی عین توکل ہے ۔
میری اس تحریر میں سارے اہل علم اور ارباب افتاء مخاطب نہیں ہیں، بلکہ وہ مراد ہیں جو 'غیر ضروری بحثوں میں امت کو الجھا رہے ہیں اور خواہ مخواہ امت کو پریشان کر رہے ہیں۔