???? *صدائے دل ندائے وقت*????(882)
*امریکہ ایک قبرستان __!!*
*کرونا وائرس نے امریکہ کو قبرستان بنا دیا ہے، نیویارک سٹی دنیا کا مشہور اور مصروف ترین شہر ہے، جہاں ترقی و تعمیر کی جھلکیاں انسانی نگاہوں کو خیرہ کرتی ہیں، بلند بانگ عمارتیں، وسیع ترین سڑکیں اور اعلی سطح کا نظام قابل دید و لائق تقلید ہے، لیکن آج وہاں کا حال یہ ہے کہ کرونا وائرس کی بنا پر سب سے زیادہ موتیں وہیں ہورہی ہیں، ہر وقت ایمبولینس کا سائرن ماحول میں گونجتا رہتا ہے، سڑکوں پر انسانی ہجوم تو دور کی بات ہے، کسی ایک قدم کا بھی سراغ نہیں ہے، یومیہ شرح کے اعتبار سے بھی سب سے زیادہ اموات یہیں ہورہی ہیں، پورا امریکہ تقریباً بائیس ہزار موتیں جھیل چکا ہے، چار لاکھ تک لوگ متاثر ہیں، سرکاری افسران رو رہے ہیں، میڈیا میں آکر اپنی بے بسی کا اظہار کر رہے ہیں، ورلڈ ٹریڈ سینٹر یعنی 9/11 میں لگ بھگ تین سو امریکی مارے گئے تھے، اسی پر انہوں نے دوسری صلیبی جنگ کا آغاز کر دیا تھا، اور پورا عالم اسلام ان کی وجہ سے متاثر ہوا، مسلمانوں پر دہشت گردی کے الزامات لگے اور ان کی زندگی دو بھر کردی گئی، آج وہی لوگ اس تیزی سے بڑھتی موتوں کو دیکھ کر حیران و پریشان ہیں، وہ 9/11 کا موجودہ وقت سے موازنہ کر رہے ہیں، لاچاری کا یہ عالم ہے کہ کہتے کہتے الفاظ تک نہیں ملتے، بی بی سی نے ایک نیوز رپورٹ کرتے ہوئے یہاں دکھایا؛ کہ ایک خاص گاڑی میں شہر سے باہر لاشیں لے جائی جارہی ہیں، اور انہیں ایک ساتھ دفن کیا جارہا ہے.*
*آہ___ یہ نظارہ دیکھ کر انسانی روح کانپ جاتی ہے، ڈھیروں لاشیں، ایک ہی قبرستان اور سبھی سفید لباسوں میں لپٹے ہوئے، نہ کوئی اپنا ہے اور نہ کوئی پرایا ہے، کہتے ہیں کہ اندازہ سے زیادہ ہوتی اموات کی وجہ سے شہر سے باہر بنائے گئے خاص قبرستان بھی پر ہوگئے ہیں، اب تو نیویارک اور واشنگٹن میں ایمبولینس کی سائرن لوگوں کیلئے خوف کا باعث بن گئی ہیں، عوام میں حیران کن دہشت ہے، انہیں لگتا ہے کہ اب امریکہ اسی وائرس میں تباہ ہوجائے گا، روزانہ ہزار سے زائد موتیں ہوتی ہیں، پچھلے دنوں ایک دن میں سترہ سو سے زیادہ موت ہوئی تھی، یہ سب کچھ ہے لیکن اسے روکنے سے وہ قاصر ہیں، اب تک اپنے شہریوں کو بچانے میں وہ ناکام رہے ہیں، امریکی صدر بار بار لوگوں کو مخاطب کرتے ہیں، اعداد و شمار پیش کرتے ہیں، اپنی تحریکات کے بارے میں بتاتے ہیں، لیکن وہ بتانے سے عاجز ہیں کہ اسے کیسے روکا جائے، کیسے اس کا علاج کیا جائے، پورا ملک کورنٹین کی زندگی گزار رہا ہے، تقریباً پچاس صوبوں پر مہاماری ایمرجینسی نافذ کردی گئی ہے، لوگوں کا دماغی توازن بگڑتا جارہا ہے، گھروں میں تشدد کی خبریں ہیں، لوگ اپنے ہی رشتہ داروں کو گولیاں مار رہے ہیں، کیونکہ یہ ان کا پہلا تجربہ ہے کہ گھر میں رہا جائے، اپنوں کے درمیان رہا جائے، وہ معاشرتی زندگی سے دور تھے، وہ بھول گئے تھے کہ خاندان اور رشتے دار بھی ہوتے ہیں؛ ایسے میں کیسیز اگر بڑھتے گئے، تو گھریلو تشدد کا راستہ اور بھی زیادہ ہموار ہوتا جائے گا، تب دوہری لاشیں اٹھاتے اٹھاتے امریکہ کے شانے جھک جائیں گے.*
*بلاشبہ اس وباء سے انسانی جانیں داؤ پر ہیں، تو وہیں ان میں معاشرتی بے چینیاں اور افراد تفری بھی حیران کن طور پر دیکھنے میں آرہی ہیں، جو خود کو بڑا مہذب اور مثقف گردانتے تھے ان کے صبر کا پیمانہ ٹوٹتا جارہا ہے، کیونکہ بے روزگاری سر پر ہے، تاریخ میں سب سے زیادہ بے کاری رکارڈ کی گئی ہے، لگ بھگ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ سے زائد لوگوں نے بے روزگاری بھتہ مانگا ہے، ان کے پاس کمانے اور کھانے کی کوئی سہولت نہیں ہے، گویا انہوں نے سرکار سے مدد مانگی ہے، کہ زندگی کو رمق پہنچانے کیلئے کچھ کیا جائے ورنہ زندگی ختم ہوجائے گی، حد تو یہ ہے جو امریکہ سب زیادہ مینوفیکچرنگ کرتے ہوئے پوری دنیا کو مختلف مال بھیجتا تھا، اور ان کے بنائے گئے سامان پر دنیا گزارا کرتی تھی، اب وہ خود دوسرے ملکوں کے سامنے خالی ہاتھ کھڑا ہے، ان کا معاشی ڈھانچہ ڈگمگا گیا ہے، ویسے بھی عالمی مندی کی بات ہورہی ہے، لیکن مہامندی سے امریکہ جوجھ سکتا ہے، حتی کہ ان کے پاس اب اس قابل لوگ نہیں کہ ماسک بنا سکیں اور اپنے ڈاکٹروں کو دے سکیں، اسی لئے صدر نے اسکارف پہننے کی تعریف و تلقین بھی کر ڈالی ہے، یہی مجبوری تھی کہ اس نے بھارت کے سامنے بھی ہاتھ پھیلا دئے، اور ملیریا کی دوا کا مطالبہ کر لیا، نہ دینے پر اس نے دھمکی تک دینے سے گریز نہ کیا.*
*خود ڈونالد ٹرمپ نے دنیا کے سامنے آکر اپنے بیانات اور تقریروں کے ذریعے بارہا عاجزی کا اظہار کیا ہے، اگرچہ انہوں نے صراحتاً کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کیا؛ مگر ان کی بوکھلاہٹ سے ہر کوئی یہی اندازہ لگا رہا ہے، اس عالمی وبا میں چین پر انگشت نمائی اور پھر عالمی صحتی ادارہ پر الزام رکھنا یہی بتلاتا ہے، ملک کی حالت زار و نزار ہے، کوئی ایسا شعبہ نہیں جہاں امریکی ہیکڑی ٹوٹتی ہوئی نظر نہ آتی ہو، ملک میں صدارتی انتخابات کا دور چل رہا ہے، ایک طرف لوگوں کو موت کی شکایت ہے تو دوسری طرف سیاست کی گرما گرمی نے عوام کو بے حال کردیا ہے، صدر امریکہ پر مستقل ایسے الزامات لگ رہے ہیں کہ وہ اس وبا کو اپنی صدارتی انتخابات کیلئے استعمال کر رہے ہیں، ظاہر ہے موت کے وقت جشن منانے سے کم نہیں ہے، آئندہ نتائج پر اس کا اثر پڑے گا؛ لیکن غور کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ امریکہ جن ممالک پر دھونس جماتا تھا، جنہیں اپنا زرخرید غلام مانتا تھا وہ ممالک بھی لاشیں اٹھانے میں مصروف ہیں، ایسے میں کوئی اسے ایک لفظ تسلی بھی کہنے کا روادار نہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورا امریکہ ایک قبرستان بن چکا ہے، جس میں انسانی لاشیں تو دفن ہوہی رہی ہیں، ساتھ ہی ساتھ وقت کا فرعون بننے اور اپنی چودھراہٹ جھاڑنے کا جنون بھی زیر زمیں ہو رہا ہے، ان کی انا پر خاک پڑ رہی ہے، ان کی سرکشی اور دنیا کی قیادت کا خمار انہیں غرق کر رہا ہے.*
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
13/04/2020