*قرآن مجید* میں جنگ *بدر* کو *یوم الفرقان* سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ یہ جنگ حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن جنگ تھی ،اس جنگ کو ہم *اسلام* کے لئے ٹرنگ پوائنٹ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس میں مسلمانوں کو زبردست کامیابی ملی۔ ستر مشرکین قتل کئے اور تقریبا اتنے ہی قیدی بنائے گئے، جنھیں بعد میں فدیہ لے کر آزاد کر دیا گیا،اور جو مالی اعتبار سے کمزور تھے، لیکن پڑھے لکھے تھے ،ان سے علمی خدمات لے کر ان کو رہا کر دیا گیا ۔ جنگ بدر میں شکست و ہزیمت اور ناکامی سے مشرکین کو گہرا صدمہ ہوا، اور اس کا بدلہ لینے کے لئے وہ برابر فکر مند رہے۔ جب جنگ *احد* کا واقعہ پیش آیا تو اس جنگ میں بھی اولا مسلمان ہی فاتح رہے، لیکن بعض وجوہات کی بنا پر جہاں ظاہری فتح دیکھ کر پچاس میں سے چالیس صحابہ کرام جو ایک گھاٹی پر متعین کئے گئے تھے ، اپنی جگہ سے ہٹ گئے، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اور مشرکین کی طرف سے جنگ کے قائد اور ہیرو تھے، انہوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر پیچھے سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا، جس کی وجہ سے مسلمان فتح حاصل کرنے کے باوجود شکست کھا گئے، ستر مسلمان شہید ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لئے گئے ۔ کافروں نے مسلمانوں کو مزید نربھس اور خوف زدہ کرنے کے لیے یہ افواہ پھیلا دی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی وفات ہوگئ ہے۔جس سے مسلمانوں میں سخت مایوسی پیدا ہوگئی، وہ شکستہ خاطر ہوکر بیٹھ گئے ۔ بعد میں یہ خبر غلط ثابت ہوئ، پھر مسلمانوں کا ڈھارس بندھا، اور ان کے اندر ہمت و حوصلہ پیدا ہوا ۔
اس جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت چوٹیں آئیں، اور آپ بری طرح زخمی ہوئے، شانہ مبارک پر بھی چوٹیں آئیں اور دندان مبارک بھی شہید ہوئے ۔ اس ناکامی اور شکست کا فطری نتیجہ تھا کہ مسلمانوں میں سخت مایوسی و نا امیدی پیدا ہو اور وہ ان حالات سے مزید نربھرس اور خوفزدہ ہوجائیں ۔ اس موقع پر بعض منافقین نے مسلمانوں کو مشرکین سے مزید ڈرانے اور مرعوب کرنے کی کوشش کی، جس کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے ۔ لوگ تمہارے لئے اکٹھا ہوگئے ہیں ۔ تم ان سے ڈرو اور خوف کھاو ۔ لیکن صحابہ کرام ان کی اس بزدلانہ باتوں سے حوصلہ نہیں ہارے، ہمت و عزیمت اور ثبات و قرار کے پیکر بنے رہے ۔ قرآن مجید نے صحابہ کرام کے ایمان و یقین اور عزیمت و قرار اور حوصلہ کی جو تصویر کشی کی ہے، وہ موجودہ حالات کے تناظر میں ہمارے لئے بری اہمیت کا حامل ہے ۔ جب لوگوں نے ایمان والوں کو طرح طرح کی باتیں بنا کر ڈرانے کی کوشش کی، تو اس نے ان کے ایمان میں مزید اضافہ کردیا اور انہوں کہا کہ ہمارے لئے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے ۔
*اس* وقت پوری دنیا میں اور خاص طور پر ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے حالات سخت ہیں، مسلمانوں کو کمزور اور خوفزدہ کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے ۔ان کو ہراساں کرنے اور انکے حوصلوں کو ٹورنے کی پوری منصوبہ بند کوشش چل رہی ہے ۔ غرض ،ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔ مستقبل حال سے بھی تاریک نظر آرہا ہے ۔ حالات بے یقینی موہوم ہیں ۔
ایسے سخت حالات میں ضرورت ہے کہ ایمان والے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی روش اور راستہ اختیار کریں ۔ خواہ دشمن لاکھ ڈرانے کی کوشش کرے۔ وہ ہر طرف سے گھیرا ڈالنے کی کوشش کرے۔ جب نگاہیں پتھرا جائیں اور کلیجہ منھ کو آجائیں اور جب حالت ایسی ہو کہ ہر وقت دشمن کی سازش کا خطرہ ہو ایسے وقت میں بھی اہل ایمان کو گھبرانے اور مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بلکہ ان حالات کی وجہ سے ہمارے ایمان و یقین میں اور اضافہ ہونا چاہیے، ہمارے پائے استتقامت میں مزید مضبوطی و پختگی آنی چاہیے ۔ حالات کو دیکھ دل برداشتہ ہونے کی قطعا ضرورت نہیں ہے ۔
*ایمان* والوں پر ہمیشہ حالات آئیں ہیں، انہیں سخت آزمائشوں اور امتحانات سے بارہا گزرنا پڑا ہے ۔ انبیاء کرام علیہم السلام کے جو واقعات اور دعوتی زندگی کا تذکرہ قرآن مجید نے بیان کیا ہے، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے، کہ اہل حق کو ہمیشہ ڈررایا اور ستایا گیا ،انہیں ہر ممکن ہراساں کیا گیا، انہیں بے وطن کرنے اور ملک بدر کرنے کی دھمکیاں دی گئیں ۔انہیں قید و بند کی اذیتوں سے گزرنا پڑا ۔انہیں اپنوں نے بھی ستایا غیروں نے بھی انہیں تختئہ مشق بنایا ۔ حضرت شعیب علیہ السلام کو ان کی قوم نے یہاں تک دھمکی دی اور وارنگ دی کہ : اے شعیب! ہم تمہیں اور تمہارے مومن ساتھیوں کو اپنی بستی سے اپنے ملک سے نکال دیں گے، یا یہ کہ تم ہماری ملت میں ہمارے مذہب میں لوٹ آو یعنی گھر واپسی کرلو ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خود انہیں کے والد نے دھمکی دی،دعوت کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی، اور ان کے لئے عرصئہ حیات تنگ کرنے کی پوری کوشش کی ۔ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے ان کو اسی طرح جلا وطنی اور بے گھر کرنے کی دھمکی دی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفار مکہ اور عرب کے مشرکین اور یہود و نصاری نے کیا کیا ظلم نہیں ڈھائے، اور کس کس طرح آپ پر اور آپ کے ساتھیوں پر مشکلیں نہ ڈھائیں یہ سب تاریخ کے سینوں میں محفوظ ہیں ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ایمان والوں کو یہ سمجھا دیا اور اس کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ ایمان والوں کو تو آزمائشوں اور حالات سے گزرنا ہی پڑے گا ۔
سورہ عنکبوت میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے، : *کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف ان کے یہ کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لے آئیں ہیں ،انہیں چھوڑ دیا جائے گا اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا، کیوں نہیں میں نے تو ان سے پچھلے لوگوں کو بھی آزمایا تھا او ان کو بھی آزمائیں گے* ۔
*یقینا* یہ حالات ہمارے امتحان اور آزمائش کے لئے آتے ہیں ان حالات سے مایوس اور ناامید نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان حالات سے ہمارے ایمان و عمل میں اضافہ ہونا چاہیے، یقین مضبوط ہونا چاہئے ۔ ان حالات میں اپنے رب سے تعلق اور رشتے کو اور مضبوط و مستحکم کرنا چاہیے ۔ خدا کرے یہ حقیقت ہمارے دل و دماغ میں بیٹھ جائے اور ہمارے ایمان و یقین اور عمل و قرار میں مضبوطی پیدا ہوجائے آمین