ان حالات میں اپنی نافعیت ضرورثابت کیجئے

*محمد قمرالزماں ندوی*

*مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*

*اس* *امت* کو *اللہ تعالی* نے *خیر امت* کے لقب سے ملقب کیا اور تمام امتوں سے اس کو ممتاز اور فائق بنایا ۔ اس *امت* کو یہ امتیاز اور بلند رتبہ ان کی نافعیت کی بنیاد پر دیا گیا کہ اس *امت* کا وجود ہی لوگوں کی نفع رسانی کے لئے ہے ۔ *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* سے جب یہ پوچھا گیا کہ *یا رسول اللہ !* سب سے بہترین انسان کون ہے ؟ تو *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے یہ نہیں فرمایا کہ جو سب سے زیادہ صوم و صلوة کا پابند ہو ۔ جو سب سے زیادہ صدقہ و خیرات کرنے والا ہو ۔ جس نے سب زیادہ *حج* کیا ہو یا جو اوراد و اذکار اور وظائف کا سب سے زیادہ پابند ہو بلکہ *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے فرمایا کہ *خیر الناس من ینفع الناس* ۔ سب سے بہترین انسان وہ ہے جو لوگوں کے لئے سب زیادہ نافع (نفع بخش) ہو، جو لوگوں کے خیر و نافعیت کا سبب بنے ۔ *قرآن* مجید میں *اللہ تعالٰی* نے اس *امت* کے مقام بلند کو یوں بیان کیا ۔ *کنتم خیر امت اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر* (آل عمران ۱۱۰) تم بہترین *امت* ہو ،تمہیں پوری انسانیت کے لئے پیدا کیا گیا ہے، تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو بری باتوں اور برے کاموں سے روکتے ہو ۔ *اس* *آیت کریمہ* سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اس *امت* کی ذمہ داری اور فرض منصبی ہے کہ وہ تمام انسانوں کو دنیا اور اور آخرت کے نفع و نقصان سے آگاہ کرتے رہیں ،خود اپنے لئے نافع بنیں اور دوسروں کے لئے بھی نفع کا ذریعہ بنیں ۔ کسی کے لئے ضرر اور نقصان کا ذریعہ نہ بنیں ۔ افراد اور جماعتوں حکومت اور اداروں کی منفی پالیسی اور سیاہ و بے تکے قانون سے لوگوں کو متنبہ اور باخبر کریں ،اور حکومت و ادارے کے مثبت اور نفع بخش کاموں اور پروگراموں کو اپنانے اور اس میں شرکت کی ترغیب دیں ۔ *ان* دنوں *این آر سی ۔ سی اے اے* اور *این پی آر* کے فتنے اور اس قانون کے مضرات سے آگاہ کرنا،اس کی وضاحت کرنا اور اس کے نقصانات سے عوام الناس کو بچانے کی تدبیریں بتانا اور انہیں عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنا، یہ بھی مذکورہ بالا آیت کی رو سے *ملت اسلامیہ* کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں ۔ فی الحال اس کے ذریعے انسانیت کی بڑی خدمت ہوسکتی ہے، اور یقینا ہو بھی رہی ہے ۔ اس وقت *ملت* کی مناسب رہنمائی کرنا ان کو صحیح راستہ بتانا اس کالے قانون کی روک تھام کے لئے کسی طرح کی خدمت پیش کرنا بلا شبہ کار خیر اور کار ثواب ہے وہ سب اجر عظیم کے مستحق ہیں ۔ *اس* نازک وقت میں *اللہ تعالی* نے جس کے اندر جس انداز میں اور جس قدر صلاحیت دی ہے، اسے اپنی صلاحیت کا بھر پور استعمال کرنا چاہیے، مقرر کو اپنی تقریروں سے،اصحاب قلم کو اپنی تحریروں سے ،اصحاب ثروت کو اپنے مال و دولت سے اور اصحاب رسوخ کو اپنے اثر و رسوخ سے اور قانون دانوں کو اپنی قانونی قوت سے اس امت کی خدمت کرنی چاہیے اور اس اہم کام میں حصہ لینا چاہیے ۔ *جامعہ ملیہ اسلامیہ* کے باغیرت اور باہمت و حوصلہ مند طلبہ ہو یا دیگر یونیورسٹیوں کے پڑھنے والے نوجوان یا شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین اور لڑکیاں اور بوڑھی دادیاں یہ سب گویا امت کے کھیون ہار اور باہمت سپاہی ہیں ۔ میں ان سب کی ہمت، استقامت، جرآت، حوصلہ، اور ثابت قدمی کو سلام کرتا ہوں ۔ جھنوں نے بلا تفریق مذھب و ملت انسانیت کی خدمت کو اپنا مشن بنایا اور اس کالے قانون کے خاتمہ کے لئے مہینوں سے سرد موسم کو جھیلتے ہوئے جان و مال اور اپنی صلاحیت کی قربانی پیش کر رہے ہیں ۔ لیکن افسوس کہ ایک طرف جہاں اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ ہماری مائیں اور بہنیں قوم و ملت کی وجود کی لڑائی لڑ رہے ہیں، اللہ تعالی نے ان کو اس کام کی توفیق دی ، وہیں بعض مدارس کے بارے میں یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ وہاں کے ذمہ داران اپنے نصاب میں ہوگا کی تعلیم کو شامل نصاب کر رہے،اس کے لئے مشورہ کر رہے ہیں اور اب وہاں کے طلبہ کو اس فن کے ماہرین *یوگا* کی تعلیم ایک خاص مذھبی نظریہ اور تصور کے ساتھ دیں گے ۔ خبریں آرہی ہیں کہ بعض قائدین ملت آر ایس ایس کی نظریات کی حمایت و تائید کرتے بھی نظر آرہے ہیں ۔ کل تاریخ رقم کرنے والے یہ ضرور رقم کریں گے، کہ ہندوستان میں مسلمانوں اور اقلیتوں کی حفاظت و تحفظ اور وجود و بقا کے لئے جب اسکول و کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے اس وقت بعض ذمہ داران مدارس کسی اور طرح کے کھیل میں مصروف تھے ۔ اس لئے وقت کی نزاکت کو، اور اپنی ذمہ داری کو سمجھئیے، اور خدا را ایسا کوئی عمل اور اقدام مت کیجیئے کہ کل کا مورخ آپ کے بارے میں یہ لکھے کہ چند حقیر مادی فائدے،دنیاوی عہدے اور منصب اور نام و نمود اور شہرت کے لئے آپ نے ضمیر کا سودا کیا تھااور ملت کو قعر مذلت میں گرانے کا سبب بنے تھے ۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو امت کے لئے نافع بنائے اور اپنی ذات سے اس کی صحیح اور مناسب خدمت کی توفیق عطا فرمائے آمین

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔