محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
شریعت کے ذیلی مصادر میں سے ایک اہم مصدر اور اصل سد ذریعہ بھی ہے ۔ اہل علم و افتاء ، صاحب علم و فضل اور ارباب تحقیق کے لئے یہ بات محتاج بیان نہیں کہ شریعت میں بہت سے منصوص احکام بھی ۔۔ *سد ذریعہ*۔۔ پر مبنی ہیں ۔ جو چیزیں شریعت میں اصلا جائز ہیں ،لیکن وہ کسی بڑے مفسدہ اور ضرر و فتنہ کا باعث بنتی ہیں، شریعت ان پر پابندی لگا دیتی ہے ، اس کی سینکڑوں مثالیں قرآن و حدیث میں ہیں ۔ *سد* کے معنی بند کرنا ہے ۔ پس *سد ذرائع* کے معنی ہیں ایسے اقوال و اعمال اور افعال پر بندش لگانا جو بذات خود مباح اور جائز ہیں لیکن کسی ممنوع کے ارتکاب کا بالواسطہ سبب بن جاتے ہیں ۔ اکثر فقہاء ( کی کتابوں کے استقراء سے معلوم ہوتا ہے کہ) تعبیرات کے فرق کے باوجود وہ سد ذرائع کے اصول کی رعایت کرتے ہیں ۔ *سد ذرائع* کی ایک مثال یہ ہے کہ معبودان باطل کو برا بھلا کہنا اصلا ممنوع نہیں ہے ۔ لیکن چونکہ انہیں سب و شتم کرنے میں اس کا پورا امکان اور اندیشہ ہے کہ ان کے پرستار رد عمل کی نفسیات کا شکار ہوکر اللہ جل شانہ کو سب و شتم کرنے لگیں ۔ اس لئے معبودان باطل کو سب و شتم کرنے سے قرآن میں منع کیا گیا ہے ۔ *اہل قریش* نے *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم* کے زمانہ میں جب *خانہ کعبہ* کی تعمیر کی تو مالی تنگی کی وجہ سے *خانہ کعبہ* کا ایک حصہ اس میں شامل نہیں کیا ،جو *حطیم* کے نام سے مشہور ہے ۔ *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم* نے *حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا* سے فرمایا؛ کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تمہاری قوم ابھی نئی نئی اسلام لائ ہے تو میں خانہ کعبہ کو منہدم کرکے دوبارہ اس کی تعمیر *حضرت ابراہیم علیہ السلام* کی بنیاد پر از سر نو کرتا اور *حطیم* کو *کعبہ* میں شامل کرتا ،ظاہر ہے کہ بناء ابراہیمی پر کعبہ کی تعمیر نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے لیکن *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم* نے اس خیال سے اس کام کو انجام نہیں دیا کہ کہیں قریش کے لوگوں کو یہ خیال پیدا ہوجائے کہ ہمارے باپ دادا کی تعمیر کو منہدم کیا جارہا ہے اور اس سے خدانخواستہ دل میں کدورت پیدا ہو ۔ جو ان کے ایمان کو متاثر کرے ۔ جب منافقین کی شرارت ،خفیہ چال اور بعض گھناؤنی اور غلط حرکتوں پر حضرت *عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* سے یہ اجازت چاہی کہ ہم انہیں قتل کر دیں ،تو *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے یہ فرماتے ہوئے منع کردیا کہ اگر ہم انہیں قتل کریں گے تو یہ بات مشہور ہوگی کہ *محمد* ( *صلی اللہ علیہ وسلم* ) اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں، اس سے بچنے کے لئے *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے منافقین کو قتل کرنے سے منع کیا۔ حالانکہ ان کی ریشہ دوانیاں فتنہ سامانیان اور سازشی اعمال اور حرکتیں انہیں قتل کا مستحق بنا چکے تھے ۔ *سد ذرائع* پر فقہاء اور اہل علم کی جو کاوشیں ہیں اور خصوصا علامہ ابن قیم رح نے *اعلام الموقعین* میں اور *علامہ قرافی* نے *الفروق* میں اور *علامہ شاطبی* نے *الموافقات* میں بہت عمدہ اور نفیس بحثیں کی ہیں اور بہت سے جدید مسائل کے حل تک ان کی روشنی میں پہنچے ہیں۔ علماء اور اہل علم کو توجہ سے ان اصولی مباحث کو پڑھنا چاہیے کیونکہ ہماری عائلی معاشرتی اور سیاسی مسائل کی بہت سی پیچیدگیوں اور گھتیوں کو ان اصولوں کی روشنی میں سلجھایا جاسکتا ہے اور ان مسائل کی تہہ تک پہنچا جاسکتا ہے ۔ اوپر کی اس تحریر کو پیش کرنے کا مقصد ابھی صرف یہ ہے کہ علماء اور اہل علم خدا را ان مسائل اور تحقیقات کو ہرگز نہ چھیڑیں جو فتنہ اور انتشار کا سبب بنے اور جس سے امت کی توجہ اصل مسئلہ سے ہٹ جائے اور امت کے افراد فروعات میں الجھ کر رہ جائیں۔ ایسے حالات میں جب کہ امت مسلمہ اور خصوصا امت مسلمہ ہندیہ کی اینٹ سے اینٹ بجائ جا رہی ہے، ان کے وجود کو ختم کرنے کی پوری سازش رچی جارہی ہے بلکہ رچی جاچکی ہے ،ان کے عائلی اور معاشرتی قوانین کو بدلہ جارہا ہے ،ان سے کھلے عام نفرت کی جارہی ہے،ان کے ملکی شناخت اور شہریت کو ختم کیا جارہا ہے ۔ ایسے حالات میں امت کے علماء اور اہل علم و دانش حضرات یزید کے مسلمان ہونے نہ ہونے پر بحث کریں ۔ قرآن مجید کی ترتیب پر بحث و مباحثہ کریں، ایام قربانی کے اوقات و ایام کی تحقیق پر دماغ سوزی اور زور آزمائی کریں یہ بہت ہی افسوس دکھ اور حیرت کی بات ہے ۔ جب *سد ذریعہ* کے طور پر کسی جائز اور مباح کام اور قول و عمل کو بھی شریعت مصلحتا ناجائز قرار دے دیتی ہے اور اس پر قدغن لگا دیتی ہے تو ان اصحاب علم و تحقیق کے تفرادت اور نظریات و خیالات اور آراء و افکار پر کیوں پابندی نہیں لگائی جاسکتی یا وہ خود کیوں نہ *سدا للذرائع* اپنے افکار و نظریات پیش کرنے سے رک جاتے ہیں جن کی تحقیق اور چھان بین صحابہ تابعین تبع تابعین اور اسلاف کے عشر عشیر کا بھی عشر عشیر نہیں ہے ۔ علماء اور اہل علم کو غور کرنا چاہیے کہ *آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم* نے باوجود خواہش اور آرزو کے *حطیم* کو *خانہ کعبہ* میں شامل کیوں نہیں کیا ۔ *حضرت عمر رضی اللہ عنہ* کو منافقین کو قتل کرنے سے باوجود اس کے کہ وہ قتل کے مستحق تھے کیوں منع فرما دیا ؟ کیا ہم لوگ اپنا ریسرچ اور اپنی تحقیق ان سے زیادہ بہتر اور اعلی سمجھتے ہیں ،اور کیا ہم اپنی خواہش اور آرزو و چاہت کو نبی صحابہ اور اسلاف سے بڑھ کر سمجھتے ہیں ؟۔ اس لئے خدا را امت کو الجھائے مت ان کے جو اصل مسائل ہیں ان کو حل کیجئے اس سے راہ فرار مت اختیار کیجئے ۔ مشاجرات صحابہ ، یزید کو لعن طعن کرنا جائز ہے یا نہیں؟ یزید مسلمان تھا یا نہیں؟ منکر نکیر قبر میں یہ سوالات نہیں کریں گے ۔ وہاں یعنی قبر کے سوالات بھی آوٹ ہیں اور میدان محشر میں جو پانچ سوالات ہیں وہ بھی آوٹ ہیں ہم سب ان سوالوں کے جوابات کی تیاری کریں غیر ضروری موضوعات اور لا یعنی چیزوں سے بچیں ۔ ہمارے ذمہ جو کام ہے ہم جن علمی تحقیقی اور طبی اداروں کو چلاتے ہیں اور جن مدرسوں اور مکاتب و جامعات کے ذمہ دار ہیں ان اداروں کو فکر مندی اور ثابت قدمی کے ساتھ چلائیں تاکہ امت کے سرمائے اور پونجی کا صحیح نتیجہ اور ریزلٹ آئے اس پر زیادہ دھیان دیں ۔
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔