اولاد کی تعلیم و تربیت کی فکر سب سے اہم ہے

*محمد قمرالزماں ندوی*

*مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*

مولانا ابو الکلام آزاد رح نے تربیت کی اہمیت کے حوالہ سے ایک جگہ لکھا ہے :

"قوموں کی ترقی کے لیے تعلیم سے زیادہ تربیت اہم ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تک تعلیم مفید نہیں ہوسکتی جب تک اس کے ساتھ صحیح اور بااصول تربیت بھی نہ ہو، تربیت کا اصل وقت بچپن ہے، صحیح تربیت کیا ہے؟ وہ نظام پرداخت جس میں اخلاق، دماغ اور جسم تینوں کی پرورش و بالیدگی پیش نظر ہو، کیونکہ جس طرح راز حیات میں زندہ رہنے کے لیے معلومات میں وسعت اور افکار و خیالات میں روشنی????کی ضرورت ہے ، اسی طرح بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ نظر میں ترفع، حوصلہ میں بلندی، ارادہ میں جزم، نیتوں میں اخلاص، عمل میں ایثار، دل میں شجاعت اور جسم میں صحت و قوت کی بھی ضرورت ہے، پس جو نظام تربیت ان صفات کے اشخصاص پیدا کرنے میں کامیاب نہیں، وہ نہ صرف ناقص ہے بلکہ ایک اندرونی خطرہ ہے، کیونکہ ناقص تعلیم و تربیت قومی زندگی کی بنیاد کھوکھلا کردیتی ہے، اور جب کسی عمارت کی بنیادیں اندر سے خالی ہو جائیں تو اس کا انجام معلوم "

بچوں اور قوم و ملت کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا مسئلہ ہر دور میں اور ہر قوم میں ہمیشہ نازک اور حساس رہا ہے۔ تربیت بہت نازک کام اوراہم ذمہ داری ہے ، اس کے لیے پہلے اپنے آپ کی اصلاح ضروری ہے اور بہتر ہے کہ والدین خود اپنے آپ کو ایک آڈیل اور نمونہ بنائیں۔ کیونکہ بچہ سب سے زیادہ ماں باپ کی ہی تقلید کرتا ہے۔ لاک ڈاؤن میں جہاں لوگوں کو زیادہ گھر میں رہنے کا موقع ملا ہے ان کو تجربہ ہوا ہوگا کہ موبائل کے فساد سے بچوں کو بچانا کتنا مشکل کام ہے۔ بچے گھر میں ہیں ان کو اسکول جانا نہیں ہے ان کا وقت بھی گزارنا ایسے موقع پر ان کو خرافات سے بچانا کتنا مشکل کام رہا، ادب اطفال پر گھروں میں کتابیں ہی نہیں ہیں، جس میں ان کو مشغول رکھا جائے۔ مجھے اس کا تجربہ ہے کہ اگر بچوں کو مشغول رکھنا ہے تو گھر میں اخلاقی کہانی کی کتابیں اور ماہنامے ہونے چاہیں، مائل خیر ابادی، طالب ہاشمی عقیدت اللہ قاسمی اور دیگر مولفین کی سینکروں کتابیں موجود ہیں۔ افسوس کہ ہمارے گھروں میں کتابیں ہیں ہی نہیں اور بچوں کی کتابیں ہوں اس کا تصور بھی بہت کم ہے۔

اس تمہید کے بعد تربیت کے حوالے آج کچھ گفتگو کرتے ہیں۔

*حضرت عمر رضی اللہ عنہ* کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اپنے لڑکے کی نالائقی، سوء ادبی اور رنج و تکلیف دینے کی شکایت کی ، آپ نے لڑکے کو بلایا اور اس سے وجہ دریافت کی اور کہا کہ تو خدا سے نہیں ڈرتا باپ کا حق بہت بڑا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ :

*امیر المومنین !*

موافق حکم شریعت میرے ان پر خاص طور پر تین حق تھے : نام اچھا رکھنا۔ تعلیم دلانا ،اپنی شادی اچھی جگہ شریعت کے بتائے گئے طریقے کے مطابق کرنا ۔ کہ لڑکے کو کوئ طعنہ نہیں دے ۔ بحیثیت والد کے انہوں نے ان تینوں میں سے کوئ حق ادا نہیں کیا ۔ انہوں نے نہ ہی مجھے تعلیم و تربیت سکھلایا نہ میرا اچھا نام رکھا اور میرے لیے جو ماں کا انتخاب کیا وہ غلط انتخاب کیا وہ ایک حبشی، ناخواندہ اور غیر تربیت یافتہ عورت ہے ۔

*امیر المومنین!*

مجھے بتایا جائے قصور میرا ہے یا ان کا مجرم میں ہوں یا وہ ،غلطی پہلے ان کی ہے یا میری ؟ ۔

*حضرت عمر رضی اللہ عنہ* نے لڑکے سے کوئ مطالبہ اور کسی طرح کا مواخذہ نہیں کیا ،اور اس شخص سے جو اپنے لڑکے کی شکایت لے کر آیا تھا فرمایا :

تم کہتے ہو میرا بیٹا ایذا اور تکلیف دیتا ہے ،حالانکہ تم نے اس کے ایذا و تکلیف پہنچانے سے پہلے اس کو تکلیف دے چکے ہو ۔ جاو میرے سامنے سے اٹھ جاو ۔

*اللہ تعالٰی* نے ہر مسلمان کو اولاد کے سلسلہ میں ایک ہمہ گیر و ہمہ جہت ذمہ داری دی ہے اور والدین کو مکلف بنایا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی مکمل اسلامی تربیت اور نیک و صالح پروش کریں ۔جو مکارم اخلاق پر مبنی ہو ۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :

اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو بچاو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن آگ اور پتھر ہوں گے ۔

اللہ اور رسول کی اطاعت کے و تابعداری پر بچوں کی تربیت و پرورش کے سلسلہ میں والدین کی ذمہ داری کی اہمیت کا سب بڑا ثبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہاری اولاد جب ساتھ برس کی ہوجائے تو انہیں نماز کا حکم دو اور جب دس برس کی ہوجائے تو تنبیہ کرکے نماز پڑھاو ۔

گھر وہ پرورش گاہ ہے جہاں نوخیز نسلوں کے بال و پر نکلتے ہیں، وہ پہلا ماحول ہے جہاں ان کی پرورش و پرداخت ہوتی ہے ۔ وہ فضا ہے جس میں ان کے رجحانات و خیالات، مزاج و عادات اور شخصیت کی تکمیل ہوتی ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان سرسبز و شاداب کلیوں کی دیکھ ریکھ اور ان کی نگرانی کرنے ،یا انہیں نفع بخش غذا پہنچانے اور ان کی ہر طرح رہنمائی کرنے میں والدین کا کتنا عظیم کردار ہے ۔

سچائ یہی ہے کہ اگر والدین صحیح طریقے کو اختیار کریں اپنی اولاد کی کما حقہ دینی تربیت کریں اور ان کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داریاں پہچانیں اور بحسن و خوبی انجام دیں تو لڑکے ان کے دشمن کیوں ہوں گے؟

لیکن افسوس کہ ہم میں سے زیادہ تر والدین اپنی اس ذمہ داری کا احساس کما حقہ نہیں کرتے ،ان کی تربیت سے جی چراتے ہیں اور غفلت برتتے ہیں ۔ جب بچے نیک صالح اور فرمانبردار نہیں بنتے تو پھر لوگوں سے شکوہ شکایت کرتے ہیں کہ بچے فرمانبردار نہیں نکلے ۔

*آج* ہم نے یہ پہاڑہ پڑھ لیا ہے کہ بچوں پر ان کے حقوق ہیں کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ تم اور تمہارا مال تمہارے باپ کے لئے ہے ۔ اس حدیث کو انہوں نے سند بنا لیا کہ بیٹے کی ساری کمائی والدین کی ہے ۔وہ ہمارا اپنا حق ہے ،جس کی ادائیگی بیٹے پر ضروری ہے لیکن شریعت نے خود والدین پر کیا کیا حقوق عائد کئے ہیں اس کا دھندلا سا تصور بھی نہیں آتا یا جان بوجھ کر اس سے پہلو تہی کی جاتی ہے۔

اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ۰۰ روٹی دونوں ہاتھ سے بنتی ہے ۰۰ والدین پیدائش سے لے کر شعور کی عمر تک اولاد کے سارے حقوق ادا کریں اور بچہ منھ پر طماچہ مارے ؟ ایسا نہیں ہوسکتا،ضرور کہیں نہ کہیں خامی اور قصور ہے ۔تعلیم میں، تربیت میں، محبت میں، شفقت میں، بے جا اصرار یا یک طرفہ کوئی فیصلہ کرنے میں ۔ جس کی بنیاد پر اولاد کے دل و دماغ سے والدین کی محبت چھن گئی ہے اور محبت کے بجائے نفرت پیدا ہوگئی ہے ۔عموما اولاد کے نافرمان ہونے میں والدین کی کمی اور کوتاہی کا بہت دخل ہوتا ہے ۔ جس کی طرف ان کا ذھن نہیں جاتا ،ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ ان کے ذھن میں یہ تصور ہوتا ہے کہ میرے ان پر حقوق ہیں اور اولاد کے حقوق بھول جاتے ہیں ۔

اوپر جس واقعہ کا ذکر ہوا اس میں ہم سب والدین گارجین اور سرپرستوں کے لئے سبق ہے کہ ہم سب اپنی اس اہم ذمہ داری کو سمجھیں اولاد کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں بیدار اور چوکنا رہیں ۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو ان باتوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔