*اس* وقت پوری دنیا میں عجیب و غریب صورت حال ہے ایک حشر بپا ہے، قیامت صغری کا نمونہ ہے۔ لوگ مضطرب و پریشان ہیں اور بے یقینی و افرا تفری کے شکار ہیں۔ اس وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں میں لے لیا ہے، اور کورونا کا قہر پورے عالم میں جاری ہے ،جس پر قابو پانے کے لئے ہر ملک کی حکومت اور محکمئہ صحت فکر مند ہے اور کوشش جاری ہے کہ اس کا کوئ مستقل حل نکل آئے اور اس درد اور مرض کی کوئ دوا مل جائے ۔ لیکن اب تک میڈیکل سائنس اس میں ناکام ہے ،اور ڈاکٹرس و اطباء کسی خاطر خواہ نتیجے تک نہیں پہنچ سکے ہیں، جن اقوام اور ممالک کو اپنی ٹکنالوجی اور جدید میڈیکل سائنس پر سب سے زیادہ ناز اور غرور تھا اور جنہوں نے اپنی عقل و شعور اور ذہانت کو خدا سمجھ رکھا تھا وہ بھی اس ناقابل دید وائرس کے مقابلہ کرنے سے اپنے عجز و درماندگی کا اعتراف کر رہے ہیں ۔ چائنہ اٹلی فرانس برطانیہ اور امریکہ میں اس وبا نے سب سے زیادہ قہر برپا کیا ہے جہاں طبی سہولیات اور میڈیکل آلات و وسائل سب سے زیادہ دستیاب ہیں ۔
اس وبا سے تشویش اس قدر زیادہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے ملنے اور ہاتھ ملانے سے بھی گھبرا رہے ہیں،بلکہ اس پر حکومت کی طرف سے ہدایات دئے جارہے ہیں کہ فاصلہ اور دوری بنا کر رکھیں ۔ماسک پہن کر ہی ضرورت کے وقت نکلیں اور صفائ کا حد درجہ اہتمام کریں ۔
اس وقت پوری دنیا منجمد اور ساکت سی ہوگئی ہے لوگ اپنے گھروں میں قید و محصور ہو گئے ہیں ،حکومت نے مکمل طور پر لاک ڈوان کر دیا ہے ،تمام مذھبی مقامات پر جانے آنے اور اجتماعی طور پر عبادت کرنے سے منع کر دیا گیا، لاک ڈاون ہونے کی وجہ یومیہ مزدوری کرنے والے (بلکہ بہت متوسط اور وی آئی پی لوگ بھی) خورد و نوش کی اشیاء کے لئے پریشان ہیں ۔ خطرہ ہے کہ بھوک کی وجہ سے آگے ہلاکتوں کا سلسلہ نہ جاری ہوجائے، حکومت اور سماجی تنظیمیں اگر چہ اس سلسلہ میں پوری کوشش کر رہی ہیں ۔
تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود پوری دنیا میں مریضوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے اور اس بیماری سے ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ ہندوستان کے بارے میں اب یہ خبریں آرہی ہیں کہ یہ مرض اب تیسرے اسٹیج پر پہنچ چکا ہے، اس لئے اب یہ سمجھا جائے کہ یہ بیماری مکمل طور پر ماحول اور فضا میں متاثر ہوچکی ہے، اس سے بچنے کی سب سے کارگر شکل یہی ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں محصور ہوجائیں اور اجتماع اور اختلاط کی جگہ سے مکمل طور پر پرہیز کریں ۔
ایسے موقع پر تمام لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس موقع پر اپنے بڑوں کی ہدایات اور رہنمائی کو اپنے لئے ضروری سمجھیں، قیل و قال اور فضول فقہی بحث و مباحثہ سے سے بچیں، اولو الامر کی اتباع کو قران و سنت کے بعد اپنے لئے مرجع سمجھیں، ضد ہٹ دھری کی راہ نہ اپنائیں، توکل اور بھروسہ کا غلط مفروضہ نہ پیش کریں ۔ کورونا وائرس کے ماہرین جن باتوں سے روک رہے ہیں اور جن احتیاطی تدابیر کی رہنمائی کر رہے ہیں شرعی نقطئہ نظر سے ان پر عمل کریں ۔
دین اسلام کی خوبی اعتدال و توازن ہے، سہولت و نرمی ہے، حالات اور مشکلات کے موقع پر فطرت کے مطابق رہنمائ ہے اور مبتلا بہ کو اس کی طاقت کے مطابق مکلف بنانا ہے ۔ اس سلسلہ میں قرانی آیات احادیث نبویہ آثار صحابہ اجتہادات فقہاء اور شرعی اصول و قواعد اس قدر ہیں کہ حالات جیسے بھی ہوں اس کے مطابق شرعی رہنمائی آپ کو مل جائے گی ۔
ہمارے ایک عزیز شاکرد *مولانا زاہد ناصری قاسمی سلمہ حیدر آباد* نے بڑی اچھی رہنمائ کی ہے اس سے بھی آپ سب مسفید ہوں ۔
*کرونا* وائرس اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب ہو یا آزمائش، یا کسی شریر کی شرارت کا نتیجہ ہو، بہرحال وہ ایک خطرناک وائرس ہے، اس میں متعدی ہونے اور ایک سے دوسرے کو لگنے کی غیر معمولی تاثیر پائی جاتی ہے، اس سے اب تک لاکھوں افراد متأثر، جبکہ ہزاروں لوگ موت کی آغوش میں جاچکے ہیں، چونکہ یہ ایک نیا وائرس ہے؛ اس لیے اس کے بارے میں شریعت میں صراحتاً کوئی حکم موجود نہیں ہے، البتہ اس طرح کا ایک متعدی وائرس طاعون، یعنی پلیگ ہے، جس کے سلسلے میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم حدیث و سیرت کی کتابوں میں موجود ہے۔
ماہرین کے مطابق اس وائرس سے متأثر شخص میں وائرس کی علامتیں جلد ظاہر نہیں ہوتی ہیں؛ اس لیے اس سے محفوظ رہنے کی ایک اہم صورت لوگوں سے اختلاط کو ختم کرکے گوشہ نشینی اور تنہائی اختیار کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں حکومت وقت نے اپنے اپنے ملک کو لاک ڈاؤن کر رکھا ہے؛ تاکہ مذکورہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جائے اور اس سے اپنے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔
اس طرح کے فتنے اور آزمائشوں کے بارے میں محسن انسانیت صلّی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہی پیشن گوئی فرمادی تھی اور ان سے حفاظت کا طریقہ بھی بتادیا تھا؛ چنانچہ صحابی رسول حضرت ابوھریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
*" سَتَكُونُ فِتَنٌ، الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي، وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي ، مَنْ تَشَرَّفَ لَهَا تَسْتَشْرِفْهُ، فَمَنْ وَجَدَ فِيهَا مَلْجَأً أَوْ مَعَاذًا فَلْيَعُذْ بِهِ ".*
*ترجمہ :* عنقریب بہت سے فتنے ظاہر ہوں گے، ان (فتنوں کے دور) میں بیٹھنے والا کھڑا رہنے والے سے، کھڑا رہنے والا چلنے والے سے اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا، جو ان فتنوں کو دیکھنا چاہے گا اسے وہ فتنے اپنی لپیٹ میں لے لیں گے؛ لہذا جس کو ان سے بچنے کی کوئی جگہ مل جائے وہ ان سے بچنے کی کوشش کرے۔
(صحیح بخاری، حدیث نمبر :7081)
مسلم شریف کی روایت میں *" ... النَّائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْيَقْظَانِ ... ".* بھی ہے، یعنی سونے والا جاگنے والے سے بہتر ہوگا۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر : 2886)
اسی احتیاط کے پیشِ نظر تمام مکاتب فکر کے مفتیان کرام نے متفقہ طور پر یہ فتویٰ دیا ہے کہ مسجدوں میں صرف اور صرف مسجد کے عملہ امام، مؤذن اور خادم مسجد کے بہ شمول چار ہی افراد جماعت کے ساتھ نماز ادا کریں، اگر مسجد کے عملہ کسی مسجد میں قیام پذیر نہ ہوں تو اس کو ویرانی سے بچانے کے لیے محلے کے چند صحت مند لوگ اپنے اپنے گھروں میں ہی وضو بنائیں اور فرائض سے پہلے اور بعد کے سنن و نوافل بھی گھر ہی میں ادا کریں اور صرف فرائض کی ادائیگی کے لیے مسجد چلے جایا کریں، ان کے علاوہ بقیہ تمام مسلمان اپنے اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھنے کا اہتمام کریں، ان شاءاللہ کسی کے ثواب میں کمی واقع نہیں ہوگی۔
یہ تو اللہ تعالی کا فضل و کرم ہے کہ ہمارے ملک کے ارباب اقتدار نے باوجودیکہ مندر، گردوارہ اور چرچ وغیرہ کو بند کروا دیا ہے؛ لیکن مسجدوں کو مقفل کرنے کا حکم نہیں دیا، بلکہ ہمارے مفتیان کرام کے فتوے کے مطابق ہی حکم نامہ جاری کیا ہے، موجودہ حالات میں نماز سے متعلق یہ فتویٰ اور حاکم وقت کا ایسا فرمان ہے، جس پر قرآن وسنت کے مطابق عمل کرنا لازم اور ضروری ہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
*" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ... "* اے ایمان والو ! اللہ کی، رسول اللّٰہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی اور اپنے أولوالأمر، یعنی علماء اور امراء کی اطاعت کرو۔ (سورہ نساء : 59، مع تفسیر ابن کثیر)
صحابی رسول حضرت عبادہ بن صامت رضی اللّٰہ عنہ کی روایت کے مطابق رسول اللّٰہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے جن چیزوں کے بارے میں بیعت لی تھی ان میں سے ایک یہ بھی تھی : *" ... وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ ... ."* یعنی ہم فقہاء اور امراء کے فیصلے پر اعتراض اور اس کی مخالفت نہ کریں۔
(صحیح بخاری، حدیث نمبر : 7056)
اس لیے موجودہ حالات میں شرعی اور ملکی قانون کی رو سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم لاک ڈاؤن کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں، گھر ہی میں رہیں، گھر سے باہر نہ نکلیں، بچے چونکہ نادان ہوتے ہیں؛ اس لیے ہم انھیں بھی محبت و شفقت کے ساتھ گھر ہی میں رہنے کا پابند بنائیں، گھر میں صفائی کا خاص خیال رکھیں، گھر میں بھی ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہی رہنے کی کوشش کریں، اپنا وقت ذکرِ الٰہی میں مصروف رکھیں، پنج وقتہ نماز ہو، یا جمعہ کی، انھیں اپنے گھر ہی میں ادا کریں اور مسجد جانے سے گریز کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ مسجدوں میں نماز باجماعت کے اصرار کی وجہ سے مندر وغیرہ کی طرح مسجدیں بھی مقفل کردی جائیں، ان ایام میں غیر ضروری کاموں کے بہ جائے نیند کی نعمت سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہونے کی کوشش کریں؛ کیونکہ رسول اللّٰہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں ایسے حالات میں ذکرِ الٰہی کے علاوہ دوسرے کاموں کے مقابلے میں سونا ہی بہترین کام ہے۔
علامہ سید الطاف حسین حالی رحمہ اللہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اتباع شریعت کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ بھی ملاحظہ فرمالیں !
بھڑکٹی نہ تھی خود بہ خود آگ ان کی
شریعت کے قبضے میں تھی باگ ان کی
جہاں کردیا نرم نرما گئے وہ
جہاں کردیا گرم گرما گئے وہ
★★★