✍️ محمد قمرالزماں ندوی مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
*اس* وقت پوری دنیا???? کورونا واءیرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کی حالت میں ہے۔ دو عشرے سے زیادہ سے وقت گزر گیا ہے، زندگی کے تمام شعبے تقریباً بند ہیں، فرسٹ اور سکنڈ کلاس کے لوگ تو ابھی تک غنیمت میں ہیں ۔ لیکن تیسرے اور چوتھے درجہ کے لوگوں کو بہت ہی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ لوگوں کو کھانے پینے اور دوا و علاج کے لالے پڑ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے امداد و تعاون نہ کے برابر ہے۔ سماجی تنظیمیں اور این جی اوز کے لوگ البتہ بہت متحرک ہیں وہ کافی مدد کر رہے ہیں لیکن وہ تعاون بھی ناکافی ثابت ہورہا ہے۔ حکومت وقت کو سنجیدگی کے ساتھ اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اصحاب ثروت کو دل کھول کر ایسے وقت میں مدد کرنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت ایسی خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں، کہ بعض لوگ جو گھریلو اعتبار سے مالدار ہیں۔ ان کے پاس زمینیں ہیں۔ والد سرکاری ملازم ہیں اعلیٰ منصب اور عہدے پر ہیں۔ اچھی تنخواہ پاتے ہیں ان کے بچے اور عزیز جو دوسرے شہروں مین پھنسے ہوئے ہیں وہ وہاں تعلیم یا سروس اور جوب کی وجہ سے تھے، وہ لوگ بھی زکوۃ اور صدقہ و خیرات کی رقم لے رہے اور ساتھ ہی گروپ تصاویر بھیج کر سماجی تنظیموں مقامی ایل ایل اے اور ایم پی سے مدد لے رہے ہیں۔ بلکہ اس سلسلہ میں ایک دوسرے سے سبقت کر رہے ہیں۔ جبکہ ان پاس اے ٹی ایم میں ہزاروں کی رقم موجود ہے۔حد ہے کہ ایک نوجوان نے یہ ٹویٹ بھی کیا کہ اس لاک ڈاؤن سے تو ہمارا بہت فائدہ ہوا ہم نے ایک ہفتہ مین تیس چالیس ہزار روپیہ سماجی تنطیموں اور نیتا نگری اور اپنے مقامی ایم ایل اے حاصل کیا ، کتنی بے شرمی کی بات ہے ۔ یہ عمل انتہائی غلط ہےاور غیر شرعی حرکت ہے۔ بعض لوگوں کے بارے میں خدمت خلق میں مشغول ساتھیوں نے بتایا کہ ایسے لوگ بھی صدقہ اور خیرات کی رقم اور پیکٹ لے رہے ہیں جن کے پاس لاکھوں کی رقم بینک بیلنس ہے۔ ایسے لوگوں کو سوچنا چاہیےکہ زکوۃ اور صدقہ یہ بدن کا میل اور کچیل ہے یہ صرف محتاجوں اور فقیروں کے لیے جاءیز ہے ۔ اسلام میں صرف تین لوگوں کو دست سوال دراز کرنے اور لوگوں سے مانگنے کی اجازت ہے، اس کے علاوہ کسی کے لیے ہاتھ پھیلانا جاءیز نہیں ہے۔ ایک وہ جو اپاہج ہو یعنی جو جسمانی طور پر بالکل معذور ہو ہاتھ پیر کٹے ہوں نابینا ہو دماغی طور پر معذور ہو۔ دوسرا وہ شخص جن پر اچانک کوئی آفت یا مصیبت آجاءے گھر جل گیا۔ پورا سامان چور یا ڈاکو لے کر چلا گیا وہ بالکل خالی ہاتھ اور قلاش ہوگیا۔ تیسرا وہ شخص جو مالی اعتبار سے خوش حال ہے لیکن سفر میں رہنے کی وجہ سے زاد راہ ختم ہوگیا۔ گھر سے روپیہ پیسہ آنے کی کوئی صورت اور شکل نہیں ہے۔ تو وقتی طور پر اس مالدار کے لیے بھی مانگنا اور سوال کرنا درست ہوگا۔ جو لوگ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پھنس گئے ہیں اور اس کے پاس گھر سے روپیہ اے ٹی ایم اور بینک سے منگانا آسان ہے تو ان کے لیے سوال کرنا اور صدقہ اور خیرات لینا کسی طرح درست نہیں ہے۔ اگر حکومت بغیر کسی تخصیص کے لاک ڈاؤن میں پھنسے لوگوں کی مدد کرتی ہے یا ان کے منزل تک جانے کے لیے گاڑی وغیرہ کا مفت انتظام کرتی ہے تو اس سے سب کے لیے فاءیدہ اٹھانا درست ہوگا کہ یہ حکومت کی طرف سے اپنے شہری کے لیے انتظام اور تعاون ہے۔ اسلام گداگری اور بھیک مانگنے کی اجازت عام حالت میں نہیں دیتا اور کسی طرح اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کرنے اور ہاتھ پھیلانے سے صحابہ کرام کو اس درجہ منع فرمایا اور اس کی تعلیم دی کہ وہ معمولی چیز مانگنے سے بھی بچتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جو شخص مستغنی ہونے کے باوجود ہاتھ ✋ پھیلاءیے وہ اپنے لیے جہنم کی چنگاریوں میں اضافہ کرے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *اسلام* اپنے ماننے والوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اللہ تعالی نے جو کچھ مال و دولت اور انعامات و آسائش سے نوازا ہے اس میں دوسروں کو بھی شریک اور شامل کرے ۔ اپنے ہاتھ کو کشادہ اور وسیع رکھے ۔ دست سخاوت پھیلا کر رکھے صرف اپنوں ہی کو نہیں بلکہ بے گانوں کو بھی محروم نہ رکھے ۔ اللہ تعالٰی ایسے لوگوں پر خاص رحم و کرم اور محبت و عطا کا معاملہ کرتا ہے جو بیچنے میں خریدنے میں لینے میں دینے میں ہر جگہ سخاوت و فیاضی کا معاملہ کرتا ہے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ حدیث کے راوی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : *رحم اللہ رجلا سمحا اذا باع و اذا اشتری و اذا اقتضی*۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ (بخاری شریف)
*اللہ تعالی اس شخص پر رحم فرمائے جو فیاض ہے ،جب وہ بیچے ،جب خریدے اور جب وہ اپنے حق کا مطالبہ اور تقاضا کرے* ۔ *اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخی اور سخاوت کی تعریف کی ہے کہ جو شخص ان تمام مواقع پر سخاوت و فیاضی سے کام لیتا ہے ناپ تول میں کمی نہیں کرتا بلکہ جھکتا ہوا تولتا ہے ۔ وہ کم نہیں تولتا ہے ،وہ وقت آنے پر اپنا جائز اور واجب حق بھی معاف کر دیتا ہے ۔ اور جب اپنے حق کا تقاضا کرتا ہے تو نرمی سے کام لیتا ہے اور زیادہ سے زیادہ مہلت دیتا ہے ۔ تو اس شخص کا یہ رویہ اس کے قلب کی وسعت و فراخی اور اس کی فیاضی کی دلیل ہے ۔ ایسا شخص خدا کے غضب کا نہیں اس کی رحمت کا مستحق ہوتا ہے ۔ خدا لازما اس سخی شخص پر رحم فرمائے گا*۔ ایک موقع پر *آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا* : *الایدی ثلثة فید اللہ العلیا و ید المعطی التی تلیھا و ید السائل السفلی فاعط الفضل و لا تعجز عن نفسک* ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( ابو داؤد ) *ہاتھ تین قسم کے ہیں ۔ ایک ہاتھ تو خدا کا ہے ،ایک دینے والے کا ہاتھ ہے جو اس کے قریب ہے اور ایک ہاتھ سائل کا ہے جو نیچا ہے پس جو ضرورت سے زیادہ ہو دو اور اپنے نفس کے تابع مت بنو* ۔ علماء اور اہل علم نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے: *کہ سب سے اچھا ہاتھ خدا ہی کا ہو سکتا ہے ۔فرمایا گیا کہ خدا کا ہاتھ بلند ہے یعنی اس کا ہاتھ دست سوال نہیں دست عطا ہے ۔ الید العلیا المنفقة(ابو داؤد) بلند ہاتھ وہ ہے جو خرچ کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا کی فیاضی دست سخا اور داد و دہش بے حد و حساب ہے جو کچھ دیتا ہے ،کسی سے لے کر نہیں اپنے پاس سے دیتا ہے وہ اپنے دشمنوں اور باغیوں کو بھی رزق سے محروم نہیں رکھتا ۔ بدلہ میں بندوں سے رزق اور معاوضہ طلب نہیں کرتا ۔ پیٹ ہی نہیں بھرتا غذائے روح و دل کا بھی سامان فراہم کرتا ہے ۔ پھر وہ اپنی عطا کو ختم اور منقطع نہیں کرتا یہ الگ بات ہے کہ کوئ شرک و کفر پر جان دے کر خود ہی اپنے کو خدا کی عطا سے محروم کرلے* ۔ *خدا کے بعد بلند ہاتھ اس سخص ہے جو انفاق کرتا ہے ۔ جس کے دل کو لوگوں کی حاجت روائ سے آرام ملتا ہے* ۔ *اس کے بعد تو بس سائل کا ہاتھ باقی رہتا ہے جو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا اور ان سے حاجت روائی کی درخواست کرتا پھرتا ہے ۔ یہ ہاتھ بلند نہیں ہوتا۔ نیچے ہوتا ہے ۔ اس لئے اللہ تعالی نے اگر کسی کو ضرورت سے زیادہ دیا ہے تو اسے راہ خدا میں خرچ کرنا چاہیے اور اس سلسلہ میں اپنے نفس کی پیروی سے گریز کرنا چاہیے نفس تو عام طور پر آدمی کو بخل،شح نفس، طمع ??ور کنجوسی پر ابھارتا ہی ہے* ۔( مستفاد کلام نبوت جلد دوم) ائیے ہم سب بار گاہ ایزدی میں دعا کرتے ہیں بار الہا ! یا رب کریم ! کسی کا محتاج اور دست نگر نہ بنا ۔ کاسہ گدائی اور محتاجگی کی نوبت سے بچا ۔ ہمیشہ ہمارے ہاتھ کو اونچا رکھ ،کبھی نیچا مت کر۔ دینے والا ہاتھ نصیب فرما ۔لینے والے ہاتھ سے بچا۔ بخل سے اور شح نفس سے حفاظت فرما۔ اے اللہ اگر ہمارا فقر بھی ہو تو اضطراری نہیں اختیاری ہو جس میں صبر اور سادگی ہو ۔