*عربی* زبان میں *آلاء* کا واحد *الیی* ہے اس کے معنی لغت میں نعمت اور قدرت و کمالات کے بھی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سورہ رحمن میں اللہ کی مختلف نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے بعد بار بار یہ آیت آئی ہے کہ تم اللہ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔ *فبائی آلاء ربکماتکذبان*
آلاء کے معنی اہل لغت اور اہل تفسیر نے عموماً نعمتوں کے بیان کئے ہیں۔ عام مترجمین نے بھی یہی ترجمہ کیا ہے۔ بعض جمہور صحابہ اور تابعین سے اس کے یہی معنی منقول ہیں، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں کے اس قول کو نقل فرمایا ہے کہ وہ اس آیت کو سن کر بار بار لا بشئی من نعمک ربنا نکذب کہتے تھے۔ جو لوگ آلاء کے معنی نعمتوں کے ہیں،اس سے اتفاق نہیں کرتے ان کی رائے درست نہیں ہے۔
آلاء کے دوسرے معنی قدرت اور عجائب قدرت یا کمالات قدرت ہیں، متعدد مفسرین نے آلاء کو قدرت کے معنی میں لیا ہے، اور اس سورہ کی بعض آیتوں کو بیان نعمت کے لیے نہیں بیان قدرت کے لیے ہیں۔ اس کے ایک تیسرے معنی بھی ہیں خوبیاں اوصاف حمیدہ اور کمالات و فضائل کے، اس معنی کو اہل لغت اور اہل تفسیر نے بیان نہیں کیا ہے، مگر اشعار عرب میں یہ لفظ کثرت سے اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس سورہ میں اکثر جگہ آلاء، نعمتوں کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور بعض جگہ قدرتوں اور کمالات اور اوصاف کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے کہیں بیک وقت نعمتوں کے معنی میں ہوا ہے اور قدرتوں کے معنی میں بھی، غرض اس کے معنی میں وسعت ہےاور اس کے مفہوم میں توسع ہے ۔ سورہ رحمن میں اسلوب خطابی معلوم ہوتا ہے، یہ سورہ ایک پرجوش اور نہایت بلیغ خطبہ ہے، جس کے دوران میں اللہ تعالی نے قدرت کے ایک ایک عجوبے، اور اس کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک ایک نعمت، اور اس کی سلطانی و قہاری کے مظاہر میں سے ایک ایک مظہر اور اس کی جزاء و سزا کی تفصیلات میں سے ایک ایک چیز کو بیان کرکے بار بار جن و انس سے سوال کیا گیا ہے کہ فبای آلاء ربکما تکذبان۔ آلاء ایک وسیع المعنی لفظ ہے اور اس سورہ میں الگ الگ جگہ مختلف معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ اور جن و انس سے یہ سوال ہر جگہ موقع و محل کے لحاظ سے ایک خاص مفہوم رکھتا ہے۔ قرآن مجید میں یہی ایک سورہ ہے جس میں انسان کے ساتھ زمین کی دوسری بااختیار مخلوق جنوں کو بھی براہ راست خطاب کیا گیا ہے۔ ( تفہیم تفسیر سورہ رحمن)
اس تمہیدی گفتگو کے بعد اللہ کی نشانیوں اور اس پر شکر گزاری کے حوالے سے کچھ گفتگو کرتے ہیں۔۔۔
*ہم* اللہ کی نعمتوں (اور نشانیوں) کو شب و روز دیکھتے ہیں ۔ ہمہ وقت اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ ان نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن ان پر غور و فکر اور تدبر نہیں کرتے ۔ انسان کی بہت بڑی کوتاہی یہ ہے بلکہ بڑا جرم یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالی نے عقل و فہم دیا ۔معرفت و تدبر کی دولت سے نوازا فراست و ادراک اور بصیرت و بصارت سے نوازا، یہ چیزیں اللہ تعالی نے اس لئے دیں ہیں کہ وہ (مومن بندہ) آفاق و انفس پر نظر کرے اللہ کی نعمتوں پر غور کرے اور اس کے بدلے میں وہ اس کائنات کے خالق و مالک کے سامنے پوری طرح جھک جائے ۔ سجدہ ریز ہو جائے ۔ مگر زیادہ تر انسان ایسا نہیں کرتے ۔ وہ ان نعمتوں اور ان احسانات و انعامات کے بعد بھی خدا کے شکر گزار بندے نہیں بنتے ۔
انسان کی یہ حقیقت فراموشی کبھی بھی معاف نہیں کی جائے گی اس کی پکڑ بہت سخت ہے ۔ اللہ تعالٰی ان لوگوں کی ضرور پکڑ کرتے ہیں جو ان کے ناشکر گزار بندے بن جاتے ہیں ۔ ارشاد خداوندی ہے :
*لئن شکرتم لازیدنکم و لئن کفرتم ان عذابی لشدید*
اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو زیادہ نواز دوں گا اور اگر کفران نعمت کروگے تو میری سزا بہت سخت ہے ۔
ایک مومن کو چاہیے کہ وہ ایمانی اور ربانی زندگی گزارے ایمانی زن??گی عارفانہ زندگی کا نام ہے اور عارفانہ زندگی یہ ہے کہ آدمی اللہ کی نعمتوں پر غور و فکر کرے ان نعمتوں کی دریافت کرے ان گہرائی میں جائے اور شکر و اعتراف والی زندگی گزارے ۔
*نعمت* کا اعتراف ایک بلند انسانی صفت ہے ۔انسان پر سب سے زیادہ اللہ تعالی کی نعمتیں ہیں اس لئے انسان کو چاہیے کہ وہ ہمہ وقت خدائے وحدہ لاشریک کا شکر ادا کرے ۔
*آپ صلی اللہ علیہ وسلم* اپنی دعاؤں میں فرمایا کرتے تھے: *رب اجعلنی لک عبدا شکورا* (ترمذی کتاب الدعوات )
یعنی اے پرور دگار ! تو مجھ کو بہت زیادہ شکر کرنے والا بنا ۔
قرآن مجید میں بار بار بندے کو یہ سمجھایا گیا ہے اور اس کی تاکید کی گئی ہے کہ اے لوگو! خدا کے شکر گزار بندے بنو ۔ شیطان کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ انسان کو شکر کے راستے سے ہٹا دے ۔ انسانی زندگی کے آغاز ہی میں شیطان نے خدا کے حضور اور دربار میں کہا تھا بلکہ چیلنج کیا تھا کہ میں انسانوں کو بہکاوں گا یہاں تک کہ تو ان میں سے اکثر لوگوں کو اپنا شکر گزار نہ پائے گا ۔
انسان کے اندر شکر گزاری کا جذبہ اور ادائیگی شکر کی کیفیت کب اور کیسے پیدا ہوگی اس کی صورت یہ ہے کہ وہ اللہ کی ایک ایک نعمتوں کو شمار کرے ۔ اس پر غور کرے ۔ استحقاق کے بغیر بھی اللہ نے کن کن نعمتوں اور لذتوں اور آسائشوں سے نوازا ہے اس پر غور کرے ۔ اللہ کے بندوں میں سے جس نے ان پر احسان کیا ۔ وقت پر ان کی مدد کی ان کے کام آیا ہے ان کا بھی شکریہ ادا کرے کیونکہ جب وہ اپنے جیسے بندے کے احسان پر شکریہ ادا کرے گا اور یہ اس کی عادت بن جائے گی تو منعم حقیقی کا شکر بجا لانا اس کے لئے آسان ہوجائے گا ۔ یہ حقیقت ہے کہ جو بندہ کا شکر گزار نہیں ہوا وہ خدا کا شکر بھی ادا نہیں کرسکتا ۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : *من لم ہشکر الناس لم ہشکر اللہ*
علماء نے شکر کی دو قسمیں بیان کیا ہے :
شکر لسانی ۔ شکر قلبی
شکر لسانی تو اکثر لوگ کرتے ہیں بار بار وہ اپنی زبان سے کہتے ہوئے دکھیں گے ۔ الحمد للہ ۔ الشکر للہ سبحان اللہ ماشاء اللہ ۔ لیکن یہ شکر صرف زبان تک رہتی ہے ۔ دوسری قسم ہے شکر قلبی یعنی دل اور اندورون کی کیفیت سے خدا کی نعمتوں اور ان کے احسانات پر شکر بجا لانا کہ آنکھوں میں آنسو آجائے ۔ دل پر ایک خاص کیفیت پیدا ہوجائے ۔ اس کیفیت کو پیدا کرنے کے لئے اللہ سے قربت اور تعلق مضبوط کرنا ہوگا اہل اللہ کی صحبت میں حاضری دینی ہوگی ۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو اس کی توفیق بخشے آمین