اپوزیشن پارٹیوں کی ملک سے غداری

*اپوزیشن پارٹیوں کی ملک سے غداری __!!*

✍ *محمد صابر حسین ندوی*

*حقیقت تو یہ ہے کہ جس طاقت کے ساتھ بی جے پی نے اپنے قدم پسارے ہیں اور 303 کا ساحرانہ عدد پار کیا ہے، اس کے بعد اپوزیشن کے سلسلہ میں بات کرنا بھی غیر ضروری امر ہے؛ لیکن جمہوریت میں خواہ کمزور سہی اپوزیشن ہوتی ہی ہے، اور اسی سے ایک نئی شاخ و کونپل نکلنے کی تمنا ہوتی ہے، بی جے پی نے پورے ملک میں فاشزم کا جال بچھا دیا ہے، ہر سیکٹر پر قبضہ کر کے سیکولرازم کی ہوا نکال دی ہے، اس فاشسٹ طاقت کے خلاف اپوزیشن کا رویہ ہمیشہ غدار ملک کے مانند رہا ہے، انہوں نے گوشہ عافیت کو اصل سمجھ لیا ہے، عموما ان میں پائے جانے والے نیتا کڑورپتی ہیں، جنہیں عوام سے کوئی سروکار نہیں ہے، بس انتخابات کے وقت ہی جاگتے ہیں، چنانچہ ٢٠١٩ کے چناؤ میں اپوزیشن کا اتحاد دیکھنے کو ملا تھا، ممتا بنرجی نے بنگال میں کانگریس ترنمول کی سرزمین پر سارے اعلی سیاست دانوں کو جمع کرلیا تھا، ایک ہاتھ ہوکر کرپشن اور آئین کے خلاف ملک کو درپیش مسائل کیلئے لڑنے اور پھر سے جمہوریت کو پٹری پر لانے کا عہد کرلیا تھا، بڑی بات یہ ہے کہ دیش کی ساری لیفٹ پارٹیاں بھی جمع ہوگئی تھیں، شاید اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس وقت حکومت کا سوٹ کیس نظر آریا تھا، ہر کسی کو ایسا لگتا تھا؛ کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے پریشان عوام مودی کا سحر توڑ دے گی اور ایک نئی سرکار بن جائے گی، مگر یہ کام صرف کانگریس کے بس کا نہ تھا، اس کے صدر راہل گاندھی اب بھی ایک غیر تجربہ کار سیاست دان تھے، جبکہ دوسری طرف ممتا بنرجی بھی زوروں پر تھی، ایسے میں یہ اتحاد اگرچہ ملک بچاؤ کے نعرہ کے ساتھ شروع ہوا تھا، لیکن اندرون میں اقتدار کا لالچ ہی سب کچھ تھا، اس کا ثبوت یہ ہے کہ جیسے ہی انتخابات ختم ہوئے اور بی جے پی ایک عظیم پارٹی بن کر ابھری، تو اپوزیشن بھی بکھر کر رہ گئی، ان میں اختلافات پیدا ہوگئے اور ایک دوسرے کی طاقت کا رعب دکھایا جانے لگا، صوبائی حکومتیں بھی ٹوٹ گئیں اور مختلف جگہوں پر وہی روش اختیار کرلی گئی جو پہلے ہوا کرتی تھی.* *اس درمیان سرکار نے اکثریت کے جنون اور فاشسٹ سوچ کے ساتھ اقتدار میں آتے ہی بہت سے تاریخی فیصلے کئے، جن کا اثر ملک کی معیشت اور ایکتا پر پڑتا گیا، عوام پریشان ہوئی، نوجوان بے کار ہوگئے، بالخصوص ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو خیر باد کہتے ہوئے ایک خاص کمیونٹی کو خوب نشانہ بنایا گیا؛ لیکن سبھی خموش رہے، کشمیر جیسے اہم اور سنگین مسئلہ پر پوری دنیا نے آواز بلند کی مگر اپوزیشن کا متحدہ کوئی بیان تک جاری نہ ہوا، صرف وقت وقت پر لاحاصل شور و غوغہ کرتے رہے ..... مگر پھر ایک بار اپوزیشن جمع ہوئی، یہ موقع تھا جھارکھنڈ کے وزیراعلیٰ ہیمنت سورین کی حلف برداری کا. اس وقت یہ دیکھا گیا کہ پورا اپوزیشن تقریباً ان کی سیریمنی میں جمع ہوگیا ہے، یہ اس لئے تھا کہ سیاست ایک نئی کروٹ لے رہی ہے، بی جے پی کی لارجر دین لائف کی تصویر خراب ہوتی جارہی ہے، اور جھارکھنڈ اس میں بڑا کردار رکھتا ہے، مگر اس اتحاد کو صرف ایک ہی فنکشن تک محدود رکھا گیا، اور ملکی خیر خواہی میں کوئی اعلامیہ تک جاری نہ کیا گیا، اس دوران NRC. CAA. NPR کے احتجاج جاری تھے، جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے، اس سیاہ قانون کی مخالفت اور آئین کی حفاظت کی یقین دہانی اپوزیشن کی ذمہ داری تھی، کیونکہ عوامی نمائندے وہ ہیں، ووٹ انہوں نے بھی حاصل کئے ہیں، اور اپوزیشن میں ہونے کے تمام فوائد سے مستفید ہوتے ہیں؛ لیکن وہ سب دم دبائے بیٹھے رہے، اب تک کوئی قابل ذکر رد عمل نہ کیا گیا، عوام راستوں پر ہے، وہ اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر پولس کے ڈنڈے کھا رہی ہے، اور سخت ترین سردی میں احتجاج کررہی ہے.* *ایسے میں شاید انہیں غیرت آئی اور کانگریس نے ایک متحدہ پلیٹ فارم بنانے کیلئے کچھ دن قبل ١٣/جنوری ٢٠٢٠ کو تمام اپوزیشن جماعتوں کو دہلی آمد کی دعوت دی، سبھی جمع ہوئے اور اس قانون کے خلاف کارروائی کرنے اور عوام کا ساتھ دینے کی بات کہی گئی؛ لیکن غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس میں صحیح معنوں میں کوئی اتحاد نہ تھا، دیش کی بڑی بڑی پارٹیوں نے اس میں شمولیت نہ کی اور بہت ہی بھونڈے وجوہات دئے_ تمل ناڈو کی آنجہانی جے للیتا کی جماعت DMK نے اس لئے شرکت نہ کی؛ کیونکہ اسے سیٹوں کو لیکر تمل ناڈو میں کانگریس سے اختلاف تھا، مہاراشٹر سے ٹھاکرے کی جماعت شیوسینا اس لئے نہیں آئی؛ کیونکہ ان کے مطابق انہیں دعوت نہیں دی گئی تھی، یاد رہے ٹھاکرے کی پارٹی نے لوک سبھا میں CAA کی حمایت کی تھی اور راجیہ سبھا میں واک آؤٹ کر گئے تھے، جو ایک طرح سے حمایت ہی تھی_ کیجریوال (AAP) نے بھی اس لئے شرکت نہ کی انہیں بھی دعوت نہیں دی گئی تھی، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی ہمدردی اور آئین کے تئیں امانت داری کا اظہار کرنے والی ممتابنرجی بھی شریک نہیں ہوئیں___ مایاوتی بھی اپنے کارندوں کی ناراضی کا سبب بتا کر شریک نہ ہوئیں ___ یہ سب بے کار کی باتیں ہیں، سچی بات یہی ہے کہ اپوزیشن کو ملک و آئیں کی کوئی پرواہ ہے ہی نہیں، سب کے سب صرف اور صرف اپنی سیاست چمکانا چاہتے ہیں، مایاوتی، اکھیلیش، کیریجوال وغیرہ یہ سب اپنے ووٹ بینک کیلئے کام کرتے ہیں، کیجریوال کو اس بات کی فکر ہے کہ کیسے بھی دہلی میں واپسی ہوجائے، اور دیگر کو اس بات کی ٹینشن ہے کہ اپنی سیاسی بساط باقی رہ جائے، رہی عوام اور آئین تو وہ سب ثانوی درجہ رکھتے ہیں،ایسے میں یہ اپوزیشن کی ملک سے غداری نہیں تو اور کیا ہے ____؟*

Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 16/01/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔