اگر خدا کی ذات پر پختہ یقین پیدا ہو جائے

*محمد قمرالزماں ندوی*

*مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*

*ایک* *مسجد کے سامنے شراب خانہ کھلا ۔ مسجد میں نمازی ہر نماز کے بعد اس کار و بار کی ناکامی کے لئے دعائیں مانگتے ۔ کچھ دن بعد شراب خانے میں شارٹ سرکٹ ہونے کی وجہ سے سب کچھ جل کر خاکستر ہوگیا* ۔ *شراب خانے کے مالک نے امام مسجد اور نمازیوں کے خلاف کیس درج کروا دیا ۔ مقدمہ میں اس نے یہ موقف اختیار کیا کہ میری دکان جلنے کی وجہ وہ دعائیں تھیں جو ہر روز مسجد میں کی جاتی تھیں ۔مسجد کے نمازیوں اور امام صاحب نے اس بات سے انکار کیا کہ آگ ان لوگوں کی دعاؤں کی وجہ سے لگی ہے* ۔ *جج نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ شراب خانے کے مالک کو دعاؤں کی طاقت پر یقین ہے ۔ جبکہ نمازی اس پر یقین نہیں رکھتے*۔ *اس* واقعہ سے ہم سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دعا کی قبولیت کے حوالے سے ہمارا ایمان و یقین کتنا کمزور ہے، اور ایک غیر مسلم کو دعا کی قبولیت پر کتنا بھروسا تھا کہ فاضل جج کو بھی اس غیر مسلم کے یقین محکم اور مسلمانوں کی بے یقینی اور نو امیدی پر ریمارکس اور تبصرہ کرنا پڑا ۔ مضبوط ایمان اور یقین محکم کی دولت سے اگر ہم مسلمان اپنے آپ کو مالا مال کرلیں،اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسا ایمان و یقین اپنے اندر پیدا کرلیں تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہوجائیں ۔ ہم دعائیں خوب مانگتے ہیں،اجتماعی بھی اور انفرادی بھی، لیکن افسوس کہ ہمیں خود اپنی دعاؤں کے قبول ہونے پر پختہ یقین نہیں ہوتا ہم پورے اعتماد و یقین کے ساتھ خدا کے حضور عاجزی و انکساری کے ساتھ اپنی حاجت پیش نہیں کر پاتے اور دعا کے اندر وہ کیفیت پیدا نہیں کرپاتے جو نصیب کو بدل بدل دیا کرتی ہے ۔ ہم دعا صرف رسمی طور پر مانگتے ہیں، بظاہر ہاتھ خدا کے سامنے اٹھاتے ہیں لیکن دل و دماغ اور قلب و جگر کی حاضری نہیں رہتی ۔ ہمیں یہ یقین بھی اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا کہ اللہ تعالی اپنے بندے کی خلوص سے مانگی دعا کبھی رد نہیں کرتے ضرور اس کو قبول کرتے ہیں ۔ کبھی مصلحتا اس میں تاخیر ہوتی ہے ،یا جو چیز بندہ طلب کرتا ہے اس علاوہ دوسری نعمت اس سے بہتر عطا فرماتے ہیں ۔ یا پھر آخرت میں تو اس دعا کا بدلہ اور انعام ضرور عطا فرمائیں گے ۔

ابھی جو ملک کے ناگفتہ بہ اور تشویش ناک حالات ہیں ان حالات میں ہم مسلمانوں کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ دعاؤں کی قبولیت پر پختہ یقین رکھیں، اور دعاؤں کے اہتمام کیساتھ اپنے اعمال و کردار کی اصلاح کی طرف توجہ دیں، خدا کی طرف رجوع و انابت کریں اور اپنے اندر یقین محکم اور عمل پیہم کا جذبہ پیدا کریں ۔ اور یہ ایمان اور یقین رکھیں کہ یہ حالات یقینا ختم ہوں گے اور ہمیں عزت و سربلندی ضرور نصیب ہوگی کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ *ولا تھنوا ولا تحزنوا و انتم الاعلون ان کنتم مومنین* شکستہ دل مت ہو اور غمزدہ مت ہو تمہیں سر بلند ہو گے اگر تم سچے مومن ہو ۔ ایمان والوں پر تو ہر دور اور ہر زمانے میں اس طرح کے بلکہ اس سے بھی مشکل اور کٹہن حالات آتے رہے ہیں اور وہ دشمنوں کے نشانے پر ہمیشہ رہے ہیں ۔ *ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز* *چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی* اسی طرح موجودہ حالات میں ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ فضول اور لا یعنی بحثوں سے اجتناب کریں قیل و قال اور منفی تبصروں سے پرہیز کریں اور ظاہری اور قانونی تدبیر کے ساتھ ساتھ پورے یقین کیساتھ دعاؤں میں لگ جائیں اور یہ یقین رکھیں، کہ کفر کے ساتھ تو حکومت چل سکتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ حکومت نہیں چل سکتی بہت جلد اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب اس جملہ کی حقیقت کو سمجھنا بھی ہے اور سمجھانا بھی ہے ۔ اللہ ہم سب کو یقین کی دولت سے مالا مال کردے اور دعا و انابت صبر و استقامت اور دانشمندی کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق دے ۔ آمین

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔