اگر پیغمبر کو درمیان سے ہٹا دیا جائے تو قرآن

???? *صدائے دل ندائے وقت*????(1085)
*اگر پیغمبر کو درمیان سے ہٹا دیا جائے تو قرآن - - -!!*

*ہم تک پہونچنے والی ہر چیز کا کوئی نہ کوئی واسطہ ہوتا ہے، یہ قدرتی نظام کا حصہ ہے، انسان نے خود والدین کے ذریعہ دنیا میں قدم رکھتا ہے، علم، سوچ، سمجھ اور فکر سبھی کے سوتے کسی نہ کسی چشمے سے جاملتے ہیں، اگر ان تمام ذرائع کو کاٹ دیا جائے تو انسان کا پورا نظام معطل ہوجائے گا، ٹھیک اسی طرح مذاہب کا بھی واسطہ ہے، اسلام ایک فطری دین ہے، اللہ تعالی کی جانب سے انسانوں کی رہبری اور انسانیت کیلئے اتارا ہوا ہے، مگر اس دین کا بھی کوئی واسطہ ہے اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، دراصل اگر آپ کو الگ کردیا جائے اور یہ سمجھیں کہ دین پر عمل کر لیا جائے گا، ہدایت کی راہ اور صراط مستقیم کی پگڈنڈی تھام لی جائے گی تو پھر یہ نادانی کے سوا کچھ نہیں ہے، تاریخ میں ایک طبقہ منکرین حدیث کا پیدا ہوا ہے؛ بلکہ ان کا وجود اب بھی پایا جاتا ہے، ان کی ضد یہ ہے کہ دین میں اصل قرآن مجید ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں، قول و فعل اور تقاریر کا کوئی اعتبار نہیں ہے، نعوذبااللہ یہ ایک جسارت کی بات ہے، ذرا سوچیں! جس نبی کو واسطہ بنا کر اللہ تعالی نے قرآن اتارا، اور اس کی مکمل زندگی کو قرآن کی تعبیر قرار دیا ہو بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے؛ کہ وہ دین سے الگ ہوجائے، حقیقت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہی دین کی اطاعت ہے، اگر آپ کو اس درمیان سے ہٹا دیا جائے تو دین بس ایک خاکہ بن کر رہ جائے گا، اس کے پیچھے کوئی عملی قوت نہ ہوگی، کوئی ایسا چہرا نہ ہوگا جو اسے تطبیق دے کر بتائے اور لوگ اسے ایک نمونہ، اسوہ اور قدوہ جان کر اقتدا کریں، یہ بس ایک ایسا مجموعہ بن کر رہ جائے گا جس میں خام خیالی کی باتیں ہوں گی، عجب و عجائب اور تماشوں کا شور ہوگا، زندگی سے ماوراء اور عملی جامہ سے پرے تھیوریاں ہوں گی، جس کو انسان حل کرتا ہی رہ جائے گا، اور سبھی ہوائے نفس میں مبتلا ہو کر ضال و مضل بن جائیں گے، آج پوری دنیا اس واسطہ کو کاٹ دینا چاہتی ہے، امت مسلمہ کو عملیت سے الگ کردیا چاہتی ہے، انکار حدیث یا تضعیف حدیث کی صورت میں بے یار و مددگار چھوڑ دینا چاہتی ہے، یہ بڑا فتنہ ہے، بڑی خوشی کی بات ہے "قرآن اور حدیث" کا عنوان لگا کر وحیدالدین خان صاحب نے اس موضوع پر اظہار خیال فرمایا ہے، آپ عصر حاضر کے عظیم تھنکر میں سے ہیں، ان کی تمام فکروں سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا؛ لیکن ان کی شخصیت سے انکار بھی مشکل ہے، آپ رقمطراز ہیں:*
*"خالص علمی اعتبار سے ، قرآن اور حدیث میں کوئی فرق نہیں - جس پیغمبر کی زبان سے حدیث کے الفاظ ہیں ، قرآن کا کلام بهی یقینی طور پر اسی پیغمبر کے ذریعے حاصل هوا ہے - گویا کہ عام حدیث اگر صرف حدیث ہے تو قرآن کی حیثیت حدیث قدسی کی ہے - حدیث کے معاملے میں اگر راوی یہ کہتا ہے کہ : سمعت عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، تو قرآن کے معاملے میں پیغمبر یہ کہتا ہے کہ : سمعت عن جبریل - اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن سے ہمارا تعلق براه راست نہیں ہے ، بلکہ ہمارے اور قرآن کے درمیان ایک پیغمبر کا واسطہ موجود ہے - اگر پیغمبر کو درمیان سے ہٹا دیا جائے تو قرآن ہمارے لیے صرف لائبریری کی ایک کتاب کے مانند هو جائے گا ، وه خدا کی طرف سے اتارا هوا کلام نہ رہے گا - اس کے بعد قرآن کے حق میں وه تاریخی اعتباریت )historical credibility( ہی باقی نہ رہے گی جس کی بنیاد پر هم قرآن کو خدا کا ایک معتبر کلام مانتے ہیں - کسی کا یہ کہنا کہ میں قرآن کو مانتا هوں ، مگر میں حدیث کو نہیں مانتا ، یہ کوئی ساده بات نہیں - یہ بظاہر قرآن کو مانتے هوئے قرآن کا انکار کرنا ہے - حقیقت یہ ہے کہ جن راویوں کے ذریعے هم کو حدیث رسول پہنچی ہے ، انهیں راویوں کے ذریعے هم کو قرآن بهی ملا ہے - آج جو قرآن ہمارے ہاته میں ہے ، وه براه راست هم پر نہیں اترا - وه ٹهیک اسی سلسلہ روایت کے ذریعے هم کو ملا ہے جس سلسلہ روایت کے ذریعے احادیث رسول هم تک پینچی ہیں - ایسی حالت میں ایک کو ماننا اور دوسرے کو نہ ماننا ، خالص غیر منطقی اور غیر علمی بات ہے - ایسے موقف کے لیے حقیقی طور پر کوئی جواز موجود نہیں - حدیث ، ایک اعتبار سے ، قرآن کے انطباق ( application ) کو بتاتا ہے - مثال کے طور پر قرآن میں ہے کہ تم اللہ کا ذکر کثیر (33:41) کرو - اس آیت کا عملی انطباق هم کو حدیث کے ذریعے معلوم هوتا ہے - حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ : کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یذکر اللہ علی کل آ??یانه (صحیح البخاری ، رقم الحدیث :597) - اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ہر موقع (occasion) کو اللہ کی یاد کے لیے پوائنٹ آف ریفرنس بناتے تهے - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل مستند طور پر بتاتا ہے کہ قرآن کی اصولی تعلیم کا عملی انطباق کیا ہے - الرسالہ، دسمبر ٢٠١٣-"*

✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
02/11/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔