ایسے ہی جذبات قوموں کو زندہ رکھتے ہیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

محمد قمر الزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

ملک نصراللہ خان عزیز ١٨٩٧ءایک کہنہ مشق صحافی اور شاعر گزرے ہیں وہ جرمنی اور برطانیہ کی جنگ کے پس منظر میں تحریر فرماتے ہیں : « ایک جرمن عورت جو وطن سے باہر مقیم ہے،یہ دردناک اطلاع سن چکی ہے کہ جرمنی کے ہاتھوں سے تلوار لے لی گئی اور اس کی ساری سیاسی تنظیم کو توڑ پھوڑ ڈالا گیا اور اس کے جملہ معاشی وسائل پر اغیار کا قبضہ ہے، اور اسے از سر نو زندگی دے سکنے والے لیڈروں کو موت کے اژدہا کے حوالے کیا جا رہا ہے! اف یہ اندوہ کی تاریکی جس میں امید کا کوئی جگنو چمکتا نظر نہیں آتا،۔ مگر وہ عورت خود ایک مجسمہ امید ہے اور وہ اپنے جذبات نہفتہ کا اظہار یوں کرتی ہے۔ " جرمنی ختم کر دیا گیا مگر وہ پھر زندہ ہو گا اور از سر نو وہ برطانیہ سے لڑے گا،میں اپنا بچہ پالوں گی صرف اس لیے کہ وہ جوان ہو کر جرمنی کے دشمنوں سے لڑے "۔ ایسے ہی جذبات قوموں کو زندہ رکھتے ہیں

یہ جذبہ کسی اصول حق کے محور پر نہیں گھوم رہا ہے بلکہ وطنی عصبیت اس کی محرک ہے پھر بھی اس میں کتنی زندگی ہے

آہ ! کیا مسلمان قوم کے اندر بھی کوئی ایسی ماں ہو گی جو اپنا بچہ صرف اس لیے پال رہی ہو کہ وہ جوان ہو کر اسلام کے دشمنوں کے خلاف لڑے گا اور اسلام کا اقتدار از سر نو قائم کرنے کے لئے جدوجہد کرے گا ؟-------ہے کہیں یہ جذبہ زندگی بخش؟۔»

آج مسلم معاشرہ زیادہ تر ایسی ماووں سے خالی ہے،جو اپنے بچے کے اندر دینی غیرت و حمیت اور اسلامی اسپرٹ پیدا کرے، جو اولاد کی تربیت اس لیے کرے کہ وہ بچہ آگے چل کر ایک ذمہ دار، امانت دار، اور باوقار شہری بن کر قوم و ملت کی خدمت کرے، جو انسانوں کو انسانیت اور مانوتا کا پیغام دے، جو بندے کو خدا سے جوڑے،جو انسان کو بتائے کہ انہیں کیوں اور کس لئے پیدا کیا گیا ہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟جو ملک و ملت کی بقا کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دے۔ جو ملک سے ظلم و فساد اور کرپشن کے خاتمہ کے لیے وہ سب کچھ کرے، جو زمانہ اور حالات کا تقاضا ہو، جو وحدت انسانی کی آواز بلند کرے اور جو پوری انسانیت کو راہ نجات کی دعوت دے، جو انسانوں کو اس کا اصلی مقام اور ذمہ داری بتائے؟ اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا آج تربیت کرنے والی ??یسی مائیں ہیں؟ تو اس کا جواب زیادہ تر نفی میں ہوگا۔

آج ضرورت ہے کہ والدین اپنی اولاد کی تربیت اسی نہج پر کریں اور اس کے اندر ملک و ملت کی حفاظت کا وہی جذبہ پیدا کریں ، جس طرح جرمنی کی شکست کے باوجود اس جرمن عورت نے غیرت و حمیت کا ثبوت دیا تھا کہ یقینا جرمنی ختم ہوگا، مگر وہ پھر زندہ ہوگا، اور وہ از سر نو برطانیہ سے لڑے گا، میں اپنا بچہ پالوں گی صرف اس لیے کہ وہ جوان ہو کر جرمنی کے دشمنوں سے لڑے۔۔۔۔۔

تمام والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت اس انداز اور نہج سے کریں، کہ بچہ آتش جہنم سے بچے، شریعت کے احکامات پر عمل کرے اور ملک و ملت کو صحیح رخ اور نہج پر لانے میں اپنا رول ادا کرے، انسانیت کی بقا کے لیے اور مانوتا کے تحفظ کے لیے اپنی زندگی کو وقف کردے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

اولاد کو اچھا انسان اور اچھا اور ذمہ دار شہری بنانا اس کو عمدہ تعلیم و تربیت دے کر عزت و رفعت کے مقام پر پہنچانا، اس کی دینی، اخلاقی، فکری اور روحانی تربیت کا انتظام کرنا۔ اولاد کے اخلاق و سیرت کی تعمیر اور اسلامی خطوط پر اس کی شخصیت کی تشکیل والدین کی اصل ذمہ داری ہے۔ اس میں معمولی لاپرواہی اور ادنی کوتاہی بچوں کے روشن مستقبل کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ذمہ داری کی اسی عظمت کا احساس پیارے آقا ﷺ نے یوں دلایا ہے۔۔۔ کلکم راع و کلکم مسئول عن رعتیہ الخ (بخاری شریف)

تم سب کے سب نگران اور ذمہ دار ہو اور تم سب سے اپنی رعیت اور ماتحت افراد کے بارے میں باز پرس ہوگی۔۔۔

آج ہم اولاد کو زیادہ سے زیادہ اسباب دنیا فراہم کرکے عیش کوشی لذت پسندی اور آرام پسندی کا عادی بنا رہے ہیں، ہم ان کے اندر ہمت، شجاعت، صداقت عدالت اور جرات و بے باکی کے اوصاف پیدا نہیں کر پا رہے ہیں، ان کو ایک ذمہ دار شہری نہیں بنا پارہے ہیں۔ یہ ہماری وہ غفلت اور بھول ہے جس کا خمیازہ ہم سب کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔۔۔۔۔ اولاد کی تعلیم و تربیت اور ان کو ایک کامیاب اور ذمہ دار شہری بنانا یہ ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ یاد رہے کہ تعلیم و تربیت ایک ذمہ دارانہ عمل ہے، اس سے غفلت اور لا پرواہی سنگین نتائج پیدا کرسکتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ صالح اور مفید و موثر تعلیم وتربیت کے فقدان کے جرم میں جہاں والدین شریک ہیں، وہیں زیادہ تر مدارس، جامعات اور کالج و یونیورسٹی بھی برابر کے شریک و سہیم ہیں، آج والدین ،،معزز پیٹ ،،اور اولاد کی مادی و دنیاوی زندگی کے لیے جس قدر تگ و دو کر رہے ہیں اس کا دسواں حصہ بھی اپنے بچوں کی اچھی اور مناسب و مفید تعلیم و تربیت کے لیے نہیں کر رہے ہیں، ان کے پاس ان بچوں کے لیے جو مستقبل کے لیے سب کچھ ہیں، معمار ہیں ناخدا ہیں،پتوار ہیں،وقت ہی نہیں ہے ، جب کہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔