ایک عرض داشت ایک فکر آگاہی

از ، محمد ہارون قاسمی

گزشتہ کئی سالوں سے یہ عاجز اپنی تمام تر نا اہلی اور کم مائیگی کے باوجود ملت کے اہم سیاسی و مذہبی پیشواؤں اور قوم کے بااثر ارباب حل و عقد کو حال کے خطرات اور مستقبل کے اندیشوں سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتا آرہا ہے ۔ مسلمان قوم کو آج جس نازک صورت حال اور جن پریشان کن مسائل کا سامنا ہے اور آج جس تسلسل کے ساتھ اس کے دینی ۔ ملی اور ثقافتی اداروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے یہ کوئی اچانگ یا کوئی اتفاقیہ پیش آنے والے سانحات نہیں ہیں بلکہ اپنی تمام تر بے بصیرتی کے باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی تکلف نہیں ہے کہ یہ مکروہ مناظر میری گنہگار آنکھیں بہت پہلے سے دیکھ رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ انہیں حالات سے آگاہ کرنے کے لئے اس ناچیز نے کئی سال قبل قوم کے کئی موقر اداروں کے سربراہان اور ملت کی بہت سی سربرآوردہ شخصیات کے نام ایک خط لکھا تھا (جس میں ایک مرتب منصوبہ عمل اور قومی ایکشن پلان بھی شامل تھا ) جس کا ایک اقتباس یہ تھا ۔۔۔۔

؛؛؛؛ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہذا اٹھئے اور اس خدا کےلئے اٹھئے جس نے آپ کو اس کا اہل بنایا ہے کہ آپ قوم کے لئے کچھ کر سکتے ہیں اور بہت کچھ کرسکتے ہیں ۔۔۔ اور اگر آج آپ جیسے زندہ دل اور زندہ ضمیر لوگ ملت کو بچانے کے لئے آگے نہ آئے تو کہیں ایسا نہو کہ دیر ہوجائے اور وقت کا طوفان ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے باقی ماندہ اور رہے سہے ملی اثاثہ ۔۔۔۔۔۔۔ کو بھی بہا کر لے جائے اور ہماری آنے والی نسلیں بھول جائیں کہ کبھی ہمارے آبا و اجداد مسلمان بھی ہوا کرتے تھے ۔۔۔ یقین کیجئے اگر وقت رہتے آپ جیسے بااثر اور باشعور لوگوں نے کوئی قدم نہ اٹھایا تو وہ وقت دور نہیں جب آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کی تہذیب و ثقافت کے ہر اس نقش و نشان کو مٹایا جائے گا جس پر بحیثیت مسلمان آپ فخر کرسکتے ہیں اور آپ کچھ نہ کرسکیں گے آپ کی نظروں کے سامنے آپ کے دین و ایمان کی دولت کو نوچا جائے گا اور آپ آنسو بھی نہ بہا سکیں گے اور اگر آپ اس مصنوعی خوش گمانی میں مبتلا ہیں کہ یہ وہم ہے قیاس ہے ایسا کچھ نہیں ہوگا تو ایسا ہوگا نہیں بلکہ ایسا ہوچکا ہے ۔ اسپین کا عبرت ناک زوال اور خود ہندستان کے اندر مسلم اقتدار کا خاتمہ اس کی زندہ شہادتیں ہیں ۔ خاموشی تو کبھی ملت کے کسی مرض کا علاج ثابت نہیں ہوئی ہے کسی نہ کسی کو اٹھنا ہوگا آج یا پھر مزید تباہی کے بعد کل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؛؛؛

لیکن میری صدائے ناتواں کو سننے والا کوئی نہ تھا اور میری اجنبی آواز پتھروں سے ٹکرا کر فضاء میں تحلیل ہوکر رہ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا ۔ اور وہ طوفان بلا خیز اپنی تمام تر ہولناکیوں کے ساتھ ہمارے سر پر چھاگیا جس سے یہ ناچیز اپنے قومی اور مذہبی سربراہوں کو خبر دار کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔۔

اور پھر ۔۔۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے وادئ کشمیر میں زندہ انسانوں کے مقبرے دیکھے ۔۔۔ ہم نے تین طلاق کے نام پر قانون شریعت کو بدلتے دیکھا ۔ ہم نے قدیم بابری مسجد کو بت خانہ میں تبدیل ہوتے دیکھا ۔ ہم نے دہلی کا خونریز اور روح فرسا فساد دیکھا ۔ ہم نے اپنے قومی وجود اور ملکی شہریت کہ شہ رگ پر قانون کا خنجر دیکھا اور پھر ہم نے اکابر کی یادگار حضرت نظام الدین مرکز کی بے بسی میں ڈوبی ہوئی عبرت آمیز تصویر دیکھی ۔۔۔۔۔ راقم کی طرف سے کی جانے والی یہ کوئی پیشین گوئی ہرگز نہ تھی اور نہ ان حالیہ پیش آنے والے واقعات سے متعلق اندیشوں کا اظہار کسی بڑے علم و معرفت کا نتیجہ تھا بلکہ کوئی بھی آنکھوں والا شخص گھنے اور سیاہ بادلوں کو دیکھ کر بارش ہونے کی بات کہ سکتا ہے اور یہ کوئی غیب دانی کی علامت نہیں کہی جا سکتی ۔

نیز حالات کا مد وجزر صاف بتا رہا ہے کہ ابھی تو یہ صرف آنے والے طوفان کی محض تمہیدی علامتیں ہیں ۔ جبکہ فضاؤں میں مستور طوفان کا اصل دھارا تو ابھی بھی ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے ۔۔ اور ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ ہمارا ہر بڑے سے بڑا دینی و ثقافتی دارہ اور ہر بڑی سے بڑی قومی و ملی تنظیم اس کی زد میں ہے اور ہم اپنے سیاسی و مذہبی سربراہوں کو ایک بار پھر آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ آپ دین و ملت کے مسائل سے اغماض کرکے نفاق مداہنت اور طاغوت وقت کی وفاداری کے سہارے اپنی سیادت کو اب بہت زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رکھ سکتے کیوں کہ اب ماضی کی طرح طاغوتی قوتوں کی نظروں۔میں نہ آپ کی کوئی حیثیت ہے اور نہ اب ان کو آپ کی کوئی خاص ضرورت باقی رہ گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہذا آنکھیں کھولئے اور نوشتہ دیوار کی اس جلی عبارت کو پڑھ لیجئے کہ آپ کا وجود قوم کے وجود سے وابستہ ہے اور قومیں وہی زندہ رہتی ہیں جو طوفان سے پہلے سفینہ کی تیاریاں کرلیتی ہیں ۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔