ایک مسجد کی پراپرٹی کی آمدنی کو دوسری میں لگانا

*⚖جواب جواب⚖*

*مسئلہ نمبر 1100*

(کتاب الصلاۃ باب المساجد)

*ایک مسجد کی پراپرٹی کی آمدنی کو دوسری میں لگانا*

*سوال:* میرے گاؤں میں ایک جامع مسجد ہے لگ بھگ1991 میں بنی ہے اور اسوقت کے گاؤں کے ذمہ داران (مسجد کمیٹی) نے جامع مسجد کے نام کچھ زمین خریدی تھی جو کہ پانچ چھ بیگھہ ہے اور اسی زمین کی آمد سے امام و مؤذن کی تنخواہ اور مسجد میں کام ہوتا ہے بہرحال اب گاؤں بڑا ہوچکا ہے اور مساجد کی ضرورت ہے جس میں کہ ایک مسجد تیار ہوکر نماز ہورہی ہے اور دوسری کی تعمیر بھی ہونی ہے گاؤں کے کچھ لوگ اور ذمہ داران کا کہنا ہے کہ جامع مسجد کے نام جو زمین ہے اس زمین کو یا اس زمین کی آمد کو برابر برابر یا کچھ حصہ بقیہ دونوں مسجد کو دی جائے اور کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جامع مسجد کی جو آمد ہے اسی رقم سے بقیہ مسجد کے امام و مؤذن کو تنخواہ دی جائے تو کیا جامع مسجد کی زمین یا اسکی آمد کو بقیہ مسجد میں لگاسکتے ہیں یا نہیں؟ اگر لگا سکتے ہیں تو اسکی کیا صورت ہوگی اگر عوام زبر دستی کرے تو اسکی کیا صورت ہوگی (عبدالوہاب ندوی بھاگلپور بہار)

*بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم*

*الجواب وباللہ التوفیق*

جامع مسجد کے نام جو پراپرٹی خریدی گئی تھی اگر وقف کے پیسے سے خریدی گئی تھی تو واقفین کے منشأ کی رعایت ضروری ہوگی, اگر جامع مسجد کے نام وقف تھی تو دوسری مسجد میں اس کی رقم لگانا درست نہیں ہوگا، اور اگر جامع مسجد کے لیے خاص نہیں تھی یا واقفین باحیات ہیں اور دوسری مسجد میں صرف کرنے کی اجازت دیتے ہیں تو دینا جایز ہے، اور اگر مسجد کی آمدنی سے پراپرٹی خریدی گئی تھی اور اس کی آمدنی جامع مسجد کی ضروریات سے زائد ہے تو اس کو بھی دوسری مسجد میں لگاسکتے ہیں چاہے تعمیر میں چاہے تنخواہ میں(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب

*????والدليل على ما قلنا????*

(١) شرط الواقف كنص الشارع في وجوب العمل به و في المفهوم والدلالة. (قواعد الفقه ص ٥٨)

يصرف وقفها لأقرب مجانس لها (رد المحتار على الدر المختار ٥٤٩/٦ كتاب الوقف زكريا)

*كتبه العبد محمد زبير الندوي* دار الافتاء و التحقیق مدرسہ ہدایت العلوم بہرائچ یوپی انڈیا مؤرخہ 28/7/1441 رابطہ 9029189288

*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔