???? *صدائے دل ندائے وقت*????(1111)
*ایک ملک، ایک الیکشن کا مشن-*
*وزیر اعظم نریندر مودی نے حال ہی میں ایک اعلی سطح کی میٹنگ کی اور یہ بیان دیا کہ بھارت کے اندر ایک ملک، ایک الیکشن کی سخت ضرورت ہے، یہ ملکی مفاد میں ہے، وقت کی بچت اور اور کڑوروں روپئے کی لاگت کو بچانا بھی ہے، یہ کوئی پہلی مشاورت نشست نہ تھی؛ بلکہ اس سے پہلے بھی موجودہ حکومت کئی بار یہ آواز اٹھا چکی ہے کہ ملک کے اندر ایک ہی الیکشن ہو، وہ لوک سبھا اور سبھی ودھان سبھا الیکشن کو ایک ساتھ کروانے پر ہمیشہ زور دیتے رہے ہیں، گزشتہ سال اس پر گرما گرم بحث ہوئی تھی، تب لا کمیشن نے ملکی سیاسی پارٹیوں سے رائے مانگے تھی، اس وقت سماج وادی پارٹی، تلنگانا راشٹر سمیتی اور اکالی دل نے بی جے پی کی طرفداری کی تھی؛ جبکہ ڈی ایم کے، ترنمول کانگریس، سی پی آئی، گووا فیڈریشن وغیرہ نے مخالفت کی تھی، کانگریس نے کہا تھا کہ وہ مختلف پارٹیوں سے بات کرے گی تب کوئی فیصلہ کرے گی، سی پی آئی ایم نے کہا تھا کہ لوک سبھا اور ودھان سبھا کے چناؤ ایک ساتھ کرنا جمہوریت اور اتحاد کے خلاف ہے، ظاہر ہے کہ لوک سبھا میں ووٹر کا انتجاب الگ ہوتا ہے اور ودھان سبھا میں مختلف زاویہ نطر ہوتا ہے، ایک طرف ملک کی قیادت کا مسئلہ ہوتا ہے تو دوسری طرف صوبے کی فلاح و بہبود ملحوظکا خیال رہتا ہے؛ چنانچہ اگر دونوں سبھاؤں کیلئے ایک ہی دفعہ چناؤ ہوئے تو ووٹر دونوں کیلئے ایک ہی ووٹ ڈال دے گا جس سے مرکز میں موجود پارٹی کا دائرہ اختیار بہت زیادہ ہوجائے گا، اس میں علاقائی ضرورتیں اور صوبائی پالیسیاں دب کر رہ جائیں گی، مگر بہت سے لوگ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اڈیشہ کے اندر ٢٠٠٤ سے چاروں ودھان سبھا چناؤ لوک سبھا چناؤ کے ساتھ ہوئے تھے اور ان میں منتخب سیاست دان و پارٹیاں الگ الگ رہی ہیں، ایسا ہی آندھراپردیش میں بھی ہوا تھا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اڈیشہ میں اچار سنہتا (انتخاب سے قبل کی پابندیاں) بھی بہت کم وقت کیلئے لاگو ہوتی ہیں جس سے وہاں سرکاری کام کاج میں زیادہ فرق نہیں پڑتا، یہ بھی جان لینا چاہیے کہ آزادی کے بعد پہلا چناؤ ٥١/٥٢ میں کرائے گئے تھے تب دونوں سبھاؤں کے چناؤ ایک ساتھ ہوئے تھے، اس کے بعد ١٩٥٧/ ١٩٦٢ نیز ١٩٦٧ میں بھی صوبائی اور مرکزی انتخاب ایک ساتھ کروائے گئے، لیکن پھر یہ سلسلہ ٹوٹ گیا، سال ١٩٩٩ میں ودھی آیوگ نے پہلی بار اپنی ایک رپورٹ میں دونوں سبھاؤں کے چناؤ کو ایک ساتھ کروانے کی وکالت کی تھی، پھر سال ٢٠١٥ میں قانون اور سانسدیہ سمیتی نے یہی آواز بلند کی تھی، اور ملک کے سامنے ایک ہی الیکشن کی تجویز رکھی تھی.*
*حقیقت تو یہ ہے کہ پچھلے سال مودی سرکار یہ منصوبہ بنا چکی تھی کہ صوبائی اور مرکزی انتخابات ایک ساتھ ہوں، چنانچہ ہریانہ، مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے سلسلہ میں یہ بات تقریباً طے مانی جاتی تھی؛ مگر ایسا مانا جاتا ہے کہ وہاں کے وزرائے اعلی نے اپنی ٹرم کو وقت سے پہلے ختم کرنے اور انتخاب کروانے کو درست نہ سمجھتے ہوئے انہوں نے موجودہ سرکار کی فکر پر پانی پھیر دیا، یہی وقت تھا جب اس مسئلہ کے پر خود بھاجپا کے لوگ ایک سر نہ ہوسکے تھے اور اختلاف ظاہر ہوگیا تھا، ایسے میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ موجودہ سرکار کیسے اپنے مقصود کو بروئے کار لائے گی، اندرونی اختلافات اور خارجی مظاہرے بھی سامنے ہیں، ان سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آخر حکومت اسے اتنا اہم مسئلہ کیوں بنا رہی ہے؟ جبکہ بھارتی انتجابی نظام دونوں مراحل دیکھ چکی ہے اور طویل تجربہ کے بعد موجودہ نظام تک پہنچی ہے، ظاہر سی بات ہے کہ زعفرانی پرچم کی سربلندی کیلئے تمام طاقتوں کا مرتکز ہونا اور تمام صوبوں پر قابو ہونا ضروری ہے، یہ سچ ہے کہ اگر ایک ساتھ بھی چناؤ ہوں تب بھی کچھ الگ الگ سیاستدان منتخب ہو سکتے ہیں؛ لیکن ایک عظیم ملک کے اندر اس پیمانے پر دونوں انتخابات کروانا نہ صرف ووٹنگ نظام، انتخابی ڈھانچہ کو کنٹرول کرنا ہے؛ بلکہ پوری طرح عوام کو اپنی غلامی اور فکر پر لانے کی کوشش ہے، یہی وجہ ہے کہ پہلے ہی ہونے والے اس طریقہ انتجاب کو جمہوریت نے رفتہ رفتہ رد کیا ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج اگرچہ ایک پارٹی س??اہ و سپید کا مالک بن گئی ہے؛ لیکن اب بھی متعدد صوبے ایسے ہیں جہاں سے ان کی آواز پر زد پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت کی بنیادیں اب بھی باقی ہے، چنانچہ یہ غور کرنے کی بات ہے کہ کیا اس بنیاد کو بھی ختم کردیا جائے گا یا پھر بیداری کے ساتھ حکومتی منصوبے کے متعلق ملک گیر مہم چلائی جائے گی اور یہ باور کروایا جائے گا کہ ملک پر دھیرے دھیرے تسلط جمانے کے بعد پوری طرح سے ڈیموکریسی کو منہدم کرنے کی کوشش قبول نہ کی جائے گی، یاد رکھیں! آزادی وقتی نہیں بلکہ مستقل جد وجہد مانگتی ہے، اگر اسے منجمد سمجھ لیا گیا تو فاشسٹ اسے ہڑپ کر جائیں گے اور عوام ذہنی غلامی میں جکڑ لی جائے گی.*
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
28/11/2020
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔