???? *صدائے دل ندائے وقت*????(1039)
*بدگمانی: ایک تباہ کن بیماری -*
*انسانی دماغ خیر و شر کی آماجگاہ ہے، فکر اس کی قوت ہے، کسی بھی معاملہ میں تدبر اور مضبوط خیال و منصوبہ بندی دماغ کی ہی طاقت کا نتیجہ ہے، مگر یہ طاقت اس وقت گرد آلود ہوجاتی ہے؛ جبکہ بدگمانی اپنے پیر پسارے، بیجا فکر اور ٹوہ میں بیٹھ جائے، آتے جاتے اور اپنے پرائے کے متعلق ضرورت سے زیادہ سوچنے لگے، ہر بات کے پیچھے پڑ جائے، معاشرے کی تشکیل میں کردار کے بجائے گمان سے کام لینے لگے، یہ گویا ایسا ہی ہے جیسے کہ لہلہاتے کھیت پر ٹڈی دل ٹوٹ پڑے، گلاب کی رعنائی کو کیڑے چاٹ جائیں، گلشن کی نیرنگی پر کہرہ جم جائے، شاف و شفاف دریا کسی گدلے ندی میں پڑجائے، واقعی یہ بدگمانی وہ بیماری ہے جو نہ صرف فرد؛ بلکہ معاشرے کو تباہ کردیتی ہے، یہ اپنے ہی بھائی کو زندہ کھا جانے کے مترادف ہے، اس کی شناعت جس قدر بیان کی جائے کم ہے، کسی شخص میں ہزار خوبیاں سہی؛ لیکن بدگمانی کی ایک برائی تمام اچھائیوں کو نیست و نابود کردیتی ہے، سوسائٹی کو گڑھے میں گرانے اور محبت و عقیدت کو دہکتی بھٹی میں جھونک دینے سے کم نہیں، قرآن کریم نے اس برائی کی کیفیت اس انداز میں بتائی ہے؛ کہ عش عش کر جائیں، ارشاد باری ہے :یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ، وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ (حجرات:١٢) __"اے ایمان والو ! بہت سارے گمانوں سے بچو ؛ کیوں کہ بعض گمان (یعنی بدگمانی) گناہ ہوتے ہیں اور ٹوہ میں نہ پڑا کرو اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کیا کرو، کیا تم میں سے کسی کو یہ بات اچھی لگے گی کہ وہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تم نفرت کرتے ہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ توبہ قبول کرنے والے اور بڑے مہربان ہیں." اس آیت کو نقل کرنے کے بعد محمد الحسنی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:*
*"ہمارے موجودہ معاشرے پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ تین (بدگمانی، تجسس، غیبت و بدگوئی) کمزوریاں اس کو گھن کی طرح کھا رہی ہیں، اگر یہ تین باتیں درست ہوجائیں تو پورا معاشرہ درست ہوجائے، قیاس کربا اور محض اندازہ اور اٹکل سے کسی فرد یا جماعت کے متعلق رائے قائم کر لینا بظاہر ایک سیدھی سادی بات معلوم ہوتی ہے؛ لیکن قرآن مجید نے بعضے گمانوں کو گناہ قرار دیا ہے، اس لئے اس معاملہ میں بہت احتیاط لازم ہے، اسی طرح کسی کی ٹوہ میں رہنا اور اس کے عیب کے پیچھے پڑنا اور اس سے دلچسپی لینا، ہمارے موجودہ معاشرے میں پوری طرح موجود ہے. تیسری چیز غیبت ہے، جس سے آج کوئی مستثنیٰ نہیں ہے، الا ماشاء اللہ؛ حالانکہ بہت سے علماء نے غیبت کا کبائر میں شمار کیا ہے، اس کے اس کو قرآن مجید میں اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے، جس کے بعد شناعت کا کوئی درجہ نہیں، ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے سوال پر کہ غیبت کیا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا اپنے بھائی کا اس طرح ذکر کرنا جس سے اس کو ناگواری ہو (بس یہی غیبت ہے)، کسی نے عرض کیا کہ حضور! اگر میں اپنے بھائی کی کوئی ایسی برائی ذکر کروں جو واقعتاً اس میں ہو (تو کیا یہ بھی غیبت ہے؟) آپ نے ارشاد فرمایا: " غیبت جب ہی ہوگی جب وہ برائی اس کے اندر موجود ہو، اگر اس میں وہ برائی اور عیب موجود ہی نہیں (جو تم. نے اس کی طرف نسبت کر کے ذکر کیا) تو پھر یہ بہتان ہوا" (اور یہ غیبت سے بھی زیادہ سخت اور سنگین ہے _مسلم). قرآن مجید صرف عبادات کیلئے ہدایات نہیں دیتا، معاملات، اخلاقیات، سماجیات ہر چیز میں اس کی رہنمائی اور روشنی مکمل اور مفصل ہے. ھدی للناس وبینات من الھدی والفرقان_(بقرۃ:١٨٥)_" ہدایت ہے لوگوں کیلئے اور ہدایت کی کھلی کھلی نشانیاں اور قول فیصل جو حق و باطل میں تمیز کردے" (قرآن آپ سے مخاطب ہے:٩٣_٩٤)*
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
17/09/2020
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔